Express News:
2025-10-04@20:14:58 GMT

صدر ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے نے یہاں دوبرس سے جاری جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کر دی ہے، اس منصوبے پر عملدرآمد سے غزہ میں انسانی مصائب میں کمی اور فوری جنگ بندی ہوگی، تمام ملٹری آپریشنز روکے جائیں گے، حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا، عبوری عالمی فورس قائم کی جائے گی۔

 ٹرمپ ترقیاتی پلان کے تحت غزہ میں تباہ شدہ عمارتوں کی تعمیر نو کی جائے گی۔ادھر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی سے وائٹ ہاؤس سے فون کال کے دوران 9 ستمبر کو دوحہ میں ہونے والے اسرائیلی حملے پر معافی مانگ لی ہے ۔ یہ بھی ایک اہم پیش رفت ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ بیس نکاتی غزہ امن منصوبہ غزہ میں پائیدار امن کے قیام کی کوشش اور غزہ میں ایک نیا آغاز قرار دیا جا رہا ہے، تاہم اس کے نفاذ، قبولیت اور اثرات کے حوالے سے کئی پہلو موجود ہیں ۔ اولاً یہ منصوبہ مسئلہ فلسطین کا فوری حل نہیں ہے،جو کہیں زیادہ پیچیدہ ایشو ہے اور اس کے مستقل حل کے لیے مزید سنجیدہ کوششیں درکار ہوں گی۔

البتہ اس منصوبے کاایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جائے گی۔سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے قبضے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جیسا کہ الٹرا دائیں بازو کے اسرائیلی سیاستدان خود چاہتے ہیں۔ یہ منصوبہ اسرائیل کو ایک مستقبل کی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے اور غزہ سے اخراج کی ضمانت دیتا ہے۔ حماس کے وہ ارکان جو ہتھیار ڈال کر نئی انتظامیہ کے تحت زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوں گے، انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔

یہ منصوبہ غزہ کو مستقبل میں فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام رہنے کی راہ بھی دیتا ہے، فلسطینی اتھارٹی کو تمام مسلم ممالک فلسطینی عوام کا جائز نمایندہ مانتے ہیں۔

اسرائیل نے صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔ لہٰذا اب مسلم ممالک اسے ‘دو ریاستی حل کے لیے اسرائیل کی ناقابل واپسی وابستگی’ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسرائیل نے دباؤ کے تحت اس منصوبے کو قبول کیا۔ یہ اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اسے اپنی پریس کانفرنس میں الٹرا رائٹ اسرائیلیوں کو بیچنے کی کوشش کر رہے تھے۔

یہ منصوبہ مغربی کنارے کے اسرائیل کی جانب الحاق کو بھی مسترد کرتا ہے۔اسرائیل نے دو سالہ جنگ کے دوران متعدد نظریات پیش کیے، فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنا، غزہ کا مستقل قبضہ یا الحاق، غزہ کا جزوی قبضہ، غزہ کے لوگوں کو ایک محدود علاقے میں منتقل کرنا، مغربی کنارے کا الحاق وغیرہ وغیرہ ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ منصوبہ اسرائیل کو یہ سب کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یوں اسرائیل کے غزہ اور مغربی کنارے کو ہڑپ کرنے کے تمام منصوبے ، نظریات اور ارادے اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔

اسرائیل نے کبھی کسی فلسطینی کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی، چاہے وہ خود سے چھوڑ کر گئے ہوں یا زبردستی نکالے گئے ہوں۔ تاہم، مسلم ممالک کے لیے منصوبے میں فلسطینیوں کے حقِ واپسی کی شق شامل ہے۔ یہ بھی نیتن یاہو اور انتہاپسند اسرائیلیوں کی ناکامی ہے۔اس خطے نے کئی دہائیوں کے دوران کافی کچھ دیکھا ہے۔ایران اور اسرائیل کے درمیان اسی سال 12روزہ جنگ نے کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ثابت کیا کہ ایک بہادر آدمی کے امن پر ضرب لگانے کی ناگزیریت ہے۔

اس منصوبے کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ غزہ میں قائم ہونے والی عبوری حکومت فلسطینیوں پر مشتمل ہوگی، یہ سب لوگ غیر سیاسی اور ٹیکنوکریٹس ہوں گے۔لہٰذا اس پر کسی فلسطینی سیاسی گروہ کو اعتراض نہیں ہوگا۔ غزہ کی حفاظت ایک بین الاقوامی سیکیورٹی فورس کرے گی اور اسرائیلی افواج کو پسپائی اختیار کرنی ہوگی۔چونکہ امریکا کے صدرڈونلڈ ٹرمپ نگرانی بورڈ کی قیادت کریں گے، یوں یہ ضمانت دیتا ہے کہ اسرائیل منصوبے پر عمل درآمد کرے گا۔کیونکہ اس کے سوا اسرائیل کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوگا۔اس منصوبے کی حمایت تمام بڑے مسلم ممالک کررہے ہیں۔

سعودی عرب، مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، ترکی، اردن، انڈونیشیا، جیسے بڑے مسلم ملک اس میں شامل ہیں۔ مصر اور اردن، جو اسرائیل کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اورغزہ کے جغرافیائی ہمسائے ہیں اوران ممالک میں فلسطینی آبادی کا سائز خاصا بڑا ہے، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات، جو تعمیر نو کے لیے مالی معاونت اور ممکنہ سیکیورٹی فراہم کر سکتے ہیں، یہ سب ممالک بھی اس امن منصوبے کے حامی ہیں۔

اگر اس پر تنقید کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کا امن منصوبہ مکمل طور پر ’’منصفانہ‘‘ نہیں ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ یہ منصوبہ مکمل طور پر فاتح کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ایک معقول اور قابل عمل منصوبہ ہے۔ فلسطینی اتھارٹی چلانے والی پی ایل او نے 29 ستمبر کو کہا ہے کہ وہ منصوبے کو خوش دلی سے قبول کرتی ہے۔ وہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست چاہتی ہے جو اسرائیل کے ساتھ امن، سلامتی اور ہمسایہ تعلقات میں زندگی گزار سکے۔

پی ایل او ہمیشہ دو ریاستی حل کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔ پی ایل او نے اس حل کو اوسلو معاہدہ 1994 میں قبول کیا۔ تمام عرب ممالک بھی یہی مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ یہ منصوبہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور ریاست قائم کرنے کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔حماس نے کہا ہے کہ وہ اس منصوبے کا جائزہ خیر سگالی کے ساتھ کر رہی ہے۔اگر تمام فریقین اس منصوبے کو خیر سگالی کے ساتھ نافذ کریں تو یہ فلسطینیوں کے دکھ ختم کرے گا اور بالآخر انھیں ان کی اپنی ریاست دے گا۔

اگر انتہا پسند اسرائیلی یا فلسطینی گروپ اس منصوبے کو ناکام بنائیں تو اس کے نتیجے میں غزہ پر مستقل قبضہ اور مغربی کنارے کے اسرائیل کی جانب بتدریج الحاق کا خطرہ ہے۔امکان ہے کہ اسرائیل مطالبہ کرے کہ وہ فلسطینیوں کو ریاست دے گا، اگر مزید عرب اور مسلم ممالک ’’ابراہیم معاہدہ‘‘ میں شامل ہوں۔ اس معاملے پر مسلم ممالک کو آپس میں مشاورت کے بعد مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیے اور جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا ہوگا۔

تعمیر نو کے حوالے سے یہ منصوبہ وعدہ کرتا ہے کہ غزہ میں تباہ شدہ عمارتوں، سڑکوں، اسپتالوں، بجلی اور پانی کے نظام کی بحالی کے لیے فوری امداد فراہم کی جائے گی، لیکن منصوبے میں یہ وضاحت موجود نہیں کہ یہ کام کون کرے گا اور ان اخراجات کو کون برداشت کرے گا؟ تعمیر نو صرف جسمانی ڈھانچے کی بحالی کا نام نہیں، بلکہ اس کے ساتھ سیاسی اعتماد اور سماجی شرکت کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے۔ کسی بھی امن منصوبے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقین کی شرکت اور رضامندی حاصل ہو، اگر کسی فریق کو مذاکراتی عمل سے باہر رکھا جائے گا تو وہ خود کو اس منصوبے کا مخالف محسوس کرے گا اور اس کے خلاف مزاحمت کرے گا۔ اس سے امن کے بجائے ایک نیا تصادم جنم لے سکتا ہے۔

 فلسطینی عوام ایک ایسی ریاست کے متلاشی ہیں جو آزاد، خود مختار اور تسلیم شدہ ہو۔ ماضی کے امن معاہدے ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ امن صرف اس وقت قائم ہوتا ہے جب وہ انصاف پر مبنی ہو۔ فریقین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کا مسئلہ ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ یہ ایک انسانی المیہ ہے، جس کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام فریقین کی خود مختاری، عزت نفس اور حقوق کا احترام کیا جائے۔ اس منصوبے کو اگر واقعی کامیاب بنانا ہے تو اسے فلسطینیوں کی شمولیت، بین الاقوامی نگرانی، شفافیت اور انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت نافذ کرنا ہوگا۔

دنیا اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں ایک غیر جانبدار، متوازن اور مکمل منصوبہ ہی امن کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ، امن کے دعوے سے مزین ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کرانا ہی اصل امتحان ہے۔ فلسطینی قوم نے دہائیوں پر محیط جدوجہد کی ہے، ان کی امن کی خواہش مشروط نہیں بلکہ بنیادی حق ہے۔

اصولاً تو اس غزہ امن منصوبے کو صرف ایک وقتی حل کے بجائے، ایک مستقل، منصفانہ اور پائیدار امن کی طرف بڑھنے والا قدم سمجھ کر آگے بڑھا جائے تاکہ مشرق وسطیٰ کے اس دیرینہ تنازعہ کا دائمی خاتمہ کیا جا سکے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے پر عمل درآمد ہونے کے امکانات بہت واضح ہیں کیونکہ صدر ٹرمپ اس معاملے میں خاصے سنجیدہ نظر آ رہے ہیں جب کہ عرب اور دیگر مسلم ممالک بھی اس منصوبے پر عملدرآمد کے حق میں ہیں لہٰذا امید یہی ہے کہ فلسطینیوں کے لیے ایک روشن مستقبل کا آغاز ہونے والا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے کہ اسرائیل اس منصوبے کو اسرائیل کی اسرائیل نے اسرائیل کے مسلم ممالک کی جائے گی فلسطینی ا یہ منصوبہ ہے کہ اس ٹرمپ کا ٹرمپ کے کرتا ہے کے ساتھ کے لیے کرے گا اور اس کے تحت کی راہ

پڑھیں:

پاکستان کا ٹرمپ کے امن منصوبے پر حماس کے جواب کا خیر مقدم

—فائل فوٹو

پاکستان کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے جواب کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

ایک بیان میں ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ موقع غزہ میں یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے اہم ہے، غزہ میں انسانی ہمدردی کی امداد کی بلاتعطل ترسیل یقینی بنانا ضروری ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو فوری طور پر حملے بند کرنے چاہئیں، پاکستان نے صدر ٹرمپ کی امن کوششوں کو سراہا، اُمید ہے یہ کوششیں دیرپا جنگ بندی اور مستقل امن کی راہ ہموار کریں گی۔

الحمد للّٰہ فلسطین میں جنگ بندی کے قریب ہیں، شہباز شریف

اپنے ایک بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برادر ممالک کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان تمام برادر ممالک کے ساتھ مل کر امن کے لیے کام کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تعمیری اور بامعنی کردار ادا کرتا رہے گا،  پاکستان فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد کی حمایت کرتا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے، فلسطینی ریاست کی بنیاد 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر ہونی چاہیے، القدس الشریف فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو۔

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حماس کے بیان سے جنگ بندی کی نئی راہ ہموار ہوئی، پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔

اپنے ایک بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برادر ممالک کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان تمام برادر ممالک کے ساتھ مل کر امن کے لیے کام کرے گا۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حماس کے بیان سے جنگ بندی کی نئی راہ ہموار ہوئی۔ الحمد للّٰہ فلسطین میں جنگ بندی کے قریب ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کے ردعمل کے بعد اسرائیل نے غزہ پر قبضے کا منصوبہ فوری روک دیا
  • پاکستان کا ٹرمپ کے امن منصوبے پر حماس کے جواب کا خیر مقدم
  • پاکستان کیجانب سے امن منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیر مقدم کیا
  • قائد اعظم کا اسرائیل پر موقف مشعل راہ، امن منصوبے پر پاکستان کے بھی تحفظات، ایکسپریس فورم
  • حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبہ مسترد کرنے کا عندیہ
  • اسرائیل ناجائز ریاست ہے پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا، حاجی حنیف طیب
  •  غزہ امن منصوبہ ،فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز!
  • حماس کے غیر مسلح ہونے سے انکار کے بعد امیر قطر کا ٹرمپ سے ٹیلی فونک رابطہ: وائٹ ہاؤس
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • غزہ جنگ بندی منصوبہ، امیر قطر شیخ تمیم کا امریکی صدر کو فون