ہمت کارڈ کے تیسرے مرحلے کا باقاعدہ آغاز
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
کلیم اختر:محکمہ سوشل ویلفیئر کے زیر اہتمام ہمت کارڈ کے تیسرے مرحلے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر سہیل شوکت بٹ نے ہمت کارڈ فیز 3 کا باضابطہ طور پرباقاعدہ افتتاح کر دیا ہے،تیسرے مرحلے میں 35,000 افراد کو ہمت کارڈ جاری کئےجائیں گے،پہلے مرحلے میں 40ہزار ،دوسرے مرحلے میں 25ہزار افراد کو ہمت کارڈ ملیں گے۔
دو مراحل میں مجموعی طور پر 65ہزار ہمت کارڈ جاری ہو چکے ہیں،اب 1 لاکھ سپیشل پرسنز کو سہ ماہی 10ہزار 500روپے دئیے جائیں گے۔
’’اپنے ہتھیار ہمارے حوالے کر دو‘‘
وزیراعلیٰ کی ہدایت پر رواں سال 2لاکھ ہمت کارڈ تقسیم ہوں گے،ہمت کارڈ کے ذریعے معذور افراد کو معاشی و سماجی تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔
ہمت کارڈ افراد باہم معذوری کو بااختیار بنانے کی جانب انقلابی قدم ہے۔
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
خبردار ہو جائیں، بینکوں میں پیسے رکھوانے والوں کیلئے اہم خبر
ویب ڈیسک:عصر حاضر میں لوگ نقد رقم کے بجائے کریڈٹ کارڈ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، کسی کو رقم کی منتقلی یا بلوں کی ادائیگی اب سب اے ٹی ایم کے ذریعہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ نقدی رکھنے اور لوٹے جانے کے خطرے بھی بچ جاتے ہیں مگر دنیا کے ڈیجیٹل ہوتے ہی مجرم بھی سائبر کرمنل بن چکے ہیں۔
تفصیلات کےمطابق جب سے لوگوں نے نقدی کی بجائے کریڈٹ کاڑڈ استعمال کرنا شروع کیا تب سے سائبر کرمنلز نے انہیں لوٹنا شروع کر دیا اور آئے روز ایسی وارداتیں سامنے آتی ہیں جس میں سائبر کرائمز کے ذریعہ لوگوں کو ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کو گردے کی پتھری کا زیادہ خطرہ ؛ تحقیق سامنے آگئی
دنیا بھر میں اے ٹی ایم کارڈ کے استعمال کے لیے چار ہندسوں والا خفیہ پن کوڈ ہوتا ہے، جو سوائے کارڈ ہولڈر کے کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ متعلقہ بینک بھی اس سے لاعلم ہوتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود سائبر کرمنل فراڈ کے ذریعہ لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔
اس کی بڑی وجہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی جانب سے اپنے اے ٹی ایم کے رکھے جانے والے پن کوڈز ہیں۔ جو صارفین اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے لیے پن کوڈ کے لیے عام ہندسے استعمال کرتے ہیں، وہی زیادہ ہیکرز کا شکار بنتے ہیں۔
44 برس سے مسجد نبویﷺ میں قرآن مجید پڑھانے والے پاکستانی نژاد مدرس انتقال کرگئے
ماہرین کے مطابق آسان پن کوڈ چند لمحے میں آپ کا اکاؤنٹ کا صفایا کرا سکتا ہے۔ سائبر ماہرین نے ان پن کوڈز کی نشاندہی بھی کی ہے، جو سائبر کرمنلز کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ یہ عموماً ترتیب وار ہندسے اور دہرائے گئے ہندسوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی صارف مثال کے طور پر 1111، 2222، 3333، 0000، 5555 یا ترتیب سے استعمال کیے گئے ہندسوں پر مبنی کوڈ جیسے 1234، 2345، 6789 یا اس کے الٹ جن میں سب سے زیادہ 4321 غیر محفوظ ہے۔
ویل چیئر ٹی ٹونٹی سیریز؛ پاکستان نے 3.1 سے جیت لی
اسی طرح بعض لوگ اپنی تاریخ پیدائش بطور پن کوڈ استعمال کرتے ہیں جیسے 13 اگست (1308)، 17 دسمبر (1712) یا پیدائش کا سال مثلاً 2025، 1970 یا پھر گاڑی نمبر، موبائل نمبر کے ہندسے پر مبنی کوڈز کا پتہ لگانا بھی ہیکرز کے لیے آسان ہوتا ہے، کیونکہ تاریخ پیدائش، اور سن پیدائش کا سوشل میڈیا اور دیگر دستاویزات سے پتہ لگانا اور بھی زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اور اس کو ہیک کرنے میں صرف چند سیکنڈ ہی لگتے ہیں۔
ماہرین نے محفوظ پن کوڈ کے انتخاب کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ ایسے ہندسوں کا پن کوڈ بنائیں جو بے ترتیب ہو لیکن آپ اسے ذہن نشین کر لیں۔ اس کے علاوہ ہر 6 یا 12 ماہ بعد اپنا پن کوڈ تبدیل کر لیں۔ پن کوڈ کو موبائل فون یا کہیں بھی لکھ کر محفوظ نہ کریں۔ اس نمبر کو کسی کے ساتھ شیئر بھی نہ کریں اور اگر آپ ایک سے زائد اے ٹی ایم کارڈ رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ہر ایک کا پن کوڈ دوسرے سے بہت مختلف رکھیں۔
سکیورٹی سوپروائزر کو قتل کرنے والا ملزم گرفتار