اسرائیل کی غزہ شہر کے رہائشیوں کو نکل جانے کی آخری وارننگ
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
اسرائیل کے وزیر دفاع نے غزہ شہر کے رہائشیوں کو جنوب کی طرف فرار ہونے کی حتمی وارننگ جاری کی کیونکہ حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطینی علاقے میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے منصوبے کو طول دیا ۔
فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق عینی شاہدین نے غزہ کے سب سے بڑے شہری مرکز میں شدید بمباری کی اطلاع دی، کیونکہ وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے خبردار کیا تھا کہ فوج شہر کا گھیراؤ سخت کر رہی ہے۔
کاٹز نے بدھ کو ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’یہ غزہ کے رہائشیوں کے لیے آخری موقع ہے کہ وہ جنوب کی طرف بڑھیں اور غزہ شہر میں حماس کے کارندوں کو الگ تھلگ چھوڑ دیں، جو لوگ باقی رہیں گے انہیں دہشت گرد اور دہشت گردوں کے حامی تصور کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ فوج نے وسطی غزہ کی پٹی میں نیٹزاریم کوریڈور پر قبضہ کر لیا ہے جو مغربی ساحل تک پہنچ گیا ہے اس اقدام سے غزہ کے شمال کو جنوب سے کاٹ دیا گیا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی غزہ شہر سے جنوب کی طرف نکلے گا اسے اسرائیلی فوجی چوکیوں سے گزرنا پڑے گا۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب فوج نے کہا کہ وہ جنوبی غزہ کے رہائشیوں کے لیے شمال تک رسائی کے لیے آخری بقیہ راستہ بند کر رہی ہے۔
غزہ شہر میں الشفا ہسپتال کے احاطے میں ایک خیمے میں رہنے والے 60 سالہ رباح الحلبی نے کہا کہ ’میں نہیں جاؤں گا کیونکہ غزہ شہر کی صورتحال جنوبی غزہ کی پٹی کی صورتحال سے مختلف نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام علاقے خطرناک ہیں، ہر جگہ بمباری ہو رہی ہے اور نقل مکانی خوفناک اور ذلت آمیز ہے۔ ہم موت کا انتظار کر رہے ہیں، یا شاید خدا کی طرف سے راحت ملنے اور آنے والی جنگ بندی کا۔‘
دوسری طرف حماس کے عہدیدار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں غیر مسلح ہونے سے متعلق شقوں میں ترمیم چاہتے ہیں۔
یہ بات بدھ کو ایک فلسطینی ذریعے نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتائی۔
حماس کے مذاکرات کاروں نے منگل کے روز دوحہ میں ترک، مصری اور قطری حکام کے ساتھ بات چیت کی، اور مزید کہا کہ گروپ کو جواب دینے کے لیے ’زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن درکار ہوں گے۔
ٹرمپ کے منصوبے میں جس کی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے حمایت کی، میں جنگ بندی، حماس کی جانب سے 72 گھنٹوں کے اندر یرغمالیوں کی رہائی، گروپ کے غیر مسلح ہونے، اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے تدریجی انخلا کی تجویز دی گئی ہے۔ تاہم فلسطینی ذریعے کا کہنا ہے کہ حماس کچھ شقوں، جیسے کہ غیر مسلح ہونے اور حماس و دیگر دھڑوں کے ارکان کی بے دخلی، میں ترمیم چاہتی ہے۔
حماس کی قیادت مزید چاہتی ہے کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی بین الاقوامی ضمانتیں فراہم کی جائیں، اور اس بات کی بھی ضمانت دی جائے کہ اندرون یا بیرونِ ملک ٹارگٹ کلنگز نہیں ہوں گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے رہائشیوں نے کہا کہ کی طرف کے لیے غزہ کے
پڑھیں:
مشرق وسطیٰ میں امن کا موقع فراہم ہوگیا‘ کسی صورت ضائع نہیں ہونے دینا چاہیئے، وزیراعظم
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اکتوبر2025ء ) وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ میں امن کے قیام کیلئے حماس کے ردعمل کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حماس کے بیان سے جنگ بندی کی نئی راہ ہموار ہوئی، فلسطینی عوام پر ہونے والے اس نسل کشی کے آغاز کے بعد سے اب تک کی صورتحال اس وقت جنگ بندی کے سب سے قریب ہیں، جس کے لیے صدر ٹرمپ کے شکر گزار ہیں، پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا، پاکستان اپنے تمام شراکت داروں اور برادر ممالک کے ساتھ مل کر فلسطین میں دائمی امن کیلئے کام کرتا رہے گا۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حماس کے جاری کردہ بیان نے جنگ بندی اور امن کے قیام کے لئے ایک موقع فراہم کیا ہے، جسے ہمیں کسی صورت ضائع نہیں ہونے دینا چاہیئے، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، اردن، مصر اور انڈونیشیا کی قیادت کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے فلسطینی مسئلے کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 سالہ اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔(جاری ہے)
اسی طرح نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی قرار دیا کہ حماس کا ردعمل خوش آئند قدم ہے، اس کا فوری نتیجہ جنگ بندی، فلسطینیوں کی تکالیف کا خاتمہ، یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی بحالی کی صورت میں نکلنا چاہیئے، اسرائیل کو فوری طور پر اپنے حملے بند کرنا ہوں گے، فلسطین کیلئے غیرمتزلزل حمایت اور 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر ایک خودمختار، قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام کا اعادہ کرتے ہیں، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ خیال رہے کہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے ٹرمپ پلان بڑی حد تک قابلِ قبول قرار دیئے جانے کے بعد امریکی صدر نے اسرائیل کو فوری بمباری روکنے کی ہدایت کردی کیوں کہ حماس نے 20 نکاتی غزہ امن منصوبہ بڑی حد تک قبول کرلیا اور کہا کہ وہ تمام یرغمالیوں زندہ یا مردہ کو واپس کرنے پر آمادہ ہے، حماس غیرمسلح ہونے اور دیگر حل طلب معاملات پر ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں شامل ہونے کو تیار ہے، غزہ کا انتظام آزاد ٹیکنوکریٹس کی فلسطینی باڈی کے حوالے کیا جائے گا۔