برطانیہ سے چوری مہنگی گاڑی کی کراچی میں موجودگی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
علامتی تصویر
برطانیہ سے چوری مہنگی گاڑی کی کراچی میں موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، گاڑی کی برآمدگی کے لیے انٹر پول نے سندھ پولیس کو خط لکھ دیا۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل (اے وی ایل سی) امجد شیخ کا کہنا ہے کہ خط میں کہا گیا ہے کہ گاڑی 22 نومبر 2022 کو انگلینڈ سے چوری ہوئی۔
امجد شیخ نے کہا کہ خط کے مطابق گاڑی ٹریکر کی لوکیشن کراچی میں آئی ہے، انٹر پول کا خط آج ملا ہے، مزید تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
ایس ایس پی نے کہا کہ قانونی کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے، جلد ہی گاڑی بھی برآمد کر لی جائے گی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
عراقی سرزمین پر PKK عناصر کی موجودگی ناقابل قبول ہے، بغداد
اپنے ایک انٹرویو میں فواد حسین کا کہنا تھا کہ بغداد، ترکیہ میں امن عمل کی حمایت کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ PKK و ترکیہ، باہمی مفاہمت تک پہنچ جائیں گے جس سے امن و استحکام وجود میں آئیگا۔ اسلام ٹائمز۔ عراق کے وزیر خارجہ "فواد حسین" نے انقرہ میں امن عمل کی حمایت کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ سنجار، مخمور اور قندیل کے علاقوں میں کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے عناصر کی موجودگی، عراق کی مرکزی اور کردستان ریجن کی حکومت، دونوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار العربیہ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر فواد حسین نے کہا کہ بغداد، ترکیہ میں امن عمل کی حمایت کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ PKK و ترکیہ، باہمی مفاہمت تک پہنچ جائیں گے جس سے امن و استحکام وجود میں آئے گا۔ انہوں نے علاقائی امن و استحکام کے لئے اس موضوع کی اہمیت کی جانب اشارہ کیا۔ واضح رہے کہ یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب ترکیہ کی کردستان ورکرز پارٹی (PKK) نے آج اعلان کیا کہ وہ زاب کے علاقے سے دستبردار ہو گئی ہے۔
یاد رہے کہ زاب، ترکیہ کے بارڈر کے قریب ایک سرحدی علاقہ ہے جہاں آئے روز ترکیہ اور PKK کے درمیان جھڑپوں کا خطرہ رہتا تھا۔ PKK نے یہ اقدام انقرہ کے ساتھ امن عمل کی حمایت کے مقصد سے اٹھایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ PKK نے اپنے قید رہنماء "عبداللہ اوجلان" کے پیغام کے بعد، اپنی تنظیم اور مسلح کارروائیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ رواں برس جولائی کے آخر میں بھی PKK کے جنگجوؤں کے ایک گروپ نے سلیمانیہ کے علاقے میں علامتی طور پر اپنے ہتھیار جلا دئیے تھے۔ اگرچہ عبداللہ اوجلان اور پیپلز ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی (DEM) نے غیر مسلح ہونے والے جنگجوؤں کے لیے واضح سیاسی فریم ورک و کافی ضمانتوں کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔