اسلام ٹائمز: اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی یمن کی صلاحیت نے مغربی بحریہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ جہاز رانی کے راستوں کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل خرچ کریں۔ یمنیوں نے حقیقت میں روایتی دفاعی ماڈل کو بدل دیا ہے۔ یمن نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید فضائی بیڑے کا مقابلہ کرنے کے لیے مہنگے دفاعی نظام (جیسے S-400) کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل یمن کی قربانیوں کی ایک داستان ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
یمن بحیرہ احمر کی سلامتی کی مساوات میں خود کو ایک موثر کھلاڑی کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے خلاف برسر پیکار افواج کے کیے آپریشن کی لاگت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ ”انصار اللہ“ کی کلیدی صلاحیتیں، آپریشنل حکمت عملیاں اور ان کے تزویراتی اثرات حیران کن ہیں۔ یمن تین میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اپنے دفاعی ڈھانچے کو دوبارہ موثر بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ یمن نے عملی طور پر دکھایا ہے کہ کس طرح کم سے کم وسائل کے ساتھ جدید ترین عسکری نظام کا مقابلہ کرنا ممکن ہے۔ اول یمن نے پرانے میزائلوں کو دوبارہ تیار کرکے اور موبائل سسٹم بنا کر ایک متحرک دفاعی نظام تشکیل دیا ہے۔ اس کی ایک اہم مثال فضاء سے ہوا میں مار کرنے والے روسی میزائلوں جیسے R-27 کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے نظام میں تبدیل کرنا ہے۔
یہ سسٹم عام طور پر ہلکی گاڑیوں پر نصب ہوتا ہے اور فائرنگ کے بعد اسے تیزی سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس حکمت عملی کا مظاہرہ 2024 میں سعودی F-15SA لڑاکا طیارے کے ساتھ ساتھ ایک امریکی MQ-9 ریپر ڈرون کو گرا کر کیا گیا۔ ان نظاموں کی وجہ سے دشمن کی طرف سے "آپریشنل سرپرائز" اور "ابتدائی حملے کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یمن نے ثابت کیا ہے کہ تکنیکی برتری کا مطلب یہ نہیں کہ زمین پر برتری ہو۔ ”جی پی ایس جیمرز“ اور ”سیٹلائٹ کمیونیکیشن انٹرسیپشن سسٹم“ سمیت مقامی یا تبدیل شدہ الیکٹرانک جنگی نظام کا استعمال کرتے ہوئے، یمن نے ”ترک کرائیل“ جیسے جدید ڈرون کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر اس سسٹم کے تحت نشانے پر لیا گیا دشمن کا ڈرون اپنے زمینی کنٹرول سٹیشن سے رابطہ کھونے کے بعد گر کر تباہ ہوگیا۔
اس دفاعی نظام کے تحت یمن کو بہت کم قیمت پر دشمن کے ملٹی ملین ڈالر کے ہتھیاروں کو بے اثر کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی ہے۔ یمن ڈرون کو جارحانہ اور دفاعی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس کے خودکش ڈرونز کا استعمال زمینی اور سمندری اہداف پر حملہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جب کہ صاعقہ جیسے انٹرسیپٹر ڈرون کو دشمن کے ڈرونز اور ہوائی جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس صلاحیت نے یمن کو خود پر مسلط کیے گئے خطرے کو دشمن کے علاقے تک بڑھانے اور ایک اسٹریٹجک ڈیٹرنٹ بنانے کی طاقت دی ہے۔ یہ تین دفاعی ستون: موبائل ڈیفنس سسٹم، الیکٹرانک وارفیئر، اور ڈرونز کا استعمال ایک مہلک دفاعی مثلث بناتے ہیں جو مخالفین کی فضائی برتری کے خلاف ایک کم لاگت کا حامل لیکن انتہائی موثر ردعمل ہے۔
یہ نیا دفاعی ڈھانچہ ایک ایسا نمونہ ہے جسے دیگر غیر ریاستی عناصر یا کم وسائل رکھنے والی ریاستیں اپنا سکتی ہیں۔ یمن کی دفاعی طاقت کے کئی مظاہر ہیں مثلاً وہ فاطر یا ثقیب جیسے مقامی فضائی دفاعی نظام کا استعمال کرتے ہوئے، جس کی پیداوار یا تنصیب پر تقریباً 100,000 ڈالر لاگت آتی ہے، سعودی F-15SA لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا ہے، ان طیاروں میں سے ہر ایک کی مالیت تقریباً 100 ملین ڈالر ہے، یمن نے امریکی MQ-9 ریپر جیسے جاسوسی کرنے والے ڈرون، جس کی لاگت تقریباً 32 ملین ڈالر ہے، کو سستے طیارہ شکن میزائلوں یا یمنی الیکٹرانک وارفیئر سسٹم کے ذریعے مار گرایا ہے، اس کی آپریشنل لاگت تقریباً 50,000 ڈالر ہے۔
یہ کامیابی کم قیمت پر دشمن کے مہنگے جارحانہ انٹیلی جنس اثاثوں کو ختم کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یمن کی کارکردگی کی سب سے ڈرامائی مثال ڈرونز یا اینٹی شپ کروز میزائلوں کے ذریعے 1.
یمنیوں نے حقیقت میں روایتی دفاعی ماڈل کو بدل دیا ہے۔ یمن نے ثابت کر دیا ہے کہ جدید فضائی بیڑے کا مقابلہ کرنے کے لیے مہنگے دفاعی نظام (جیسے S-400) کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل یمن کی قربانیوں کی ایک داستان ہے جسے نظرانداز کیا گیا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی جنگ میں اب تک فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 66000 ہزار ہے جب کہ آل سعود کی سربراہی میں یمنی حریت پسندوں پر مسلط کردہ جنگ میں جان کی بازی ہارنے والے یمنی مسلمانوں کی تعداد تقریباً ساڑھے تین لاکھ ہے۔ یہ تعداد اہل یمن کی مظلومیت کے گراف کو فلسطینیوں کی مظلومیت کے پیمانے سے کم ظاہر نہیں کرتی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کو نشانہ بنانے کا استعمال دفاعی نظام اہل یمن کی کی صلاحیت کیا گیا ڈرون کو دشمن کے ہے جسے کے لیے کیا ہے دیا ہے
پڑھیں:
امریکا قطر دفاعی حکم نامہ
قطر پر اسرائیل کے حملہ کے بعد عرب ممالک میں بالخصوص یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ امریکا کے اتحادی ہونے کے باوجود اسرائیل ان پر حملہ کر سکتا ہے اور امریکا اس کو نہیں روکے گا۔ عرب ممالک میں قطر سے بڑا امریکا کا کوئی اتحادی نہیں۔
اس لیے سوال پیدا ہوگیا کہ اگر قطر محفوظ نہیں تو کوئی بھی محفوظ نہیں۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کوئی راز کی بات نہیں۔ گریٹر اسرائیل کا نقشہ خود اسرائیلی وزیر اعظم تقاریب میں پیش کرتے ہیں۔ اس لیے قطر پر اسرائیلی حملہ کے بعد عربوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا۔ ایک رائے بن گئی کہ امریکا کی چھتری کافی نہیں۔
پہلے مرحلہ میں سعودی عرب نے لیڈ کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا۔ جس میں یہ طے ہوا کہ سعودی عرب پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور ہوگا۔
یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ امریکا کے لیے واضح پیغام تھا کہ اب باقی عرب ممالک بھی اگر پاکستان کے ساتھ نہیں تو دیگر بڑے ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے کر سکتے ہیں۔ یہ امریکا کی عربوں پر حاکمیت کو ختم کرنے کی طرف پہلا قدم سمجھا جا رہا تھا۔
یہ درست ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی حکومت نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ کی کوئی کھلم کھلا مخالفت نہیں کی۔ اس کو خوش آئند قرار دیا لیکن اندر سے خطرے کی گھنٹیاں بج چکی تھیں۔
اس لیے امریکا کے لیے عربوں کا اعتماد جیتنا اہم تھا۔ اگر امریکا نے عربوں کے ساتھ چلنا ہے تو عربوں کا اعتماد ضروری تھا۔ اس لیے آپ دیکھیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ نے مشرق وسطیٰ کی سیاست ہی بدل دی۔
امریکا دفاعی پوزیشن پر آگیا ہے۔ پہلے اسرائیل کے وزیر اعظم نے وائٹ ہاؤس سے قطر کے وزیر اعظم سے معافی مانگی۔ ورنہ اس سے پہلے ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ اسرائیل نے کبھی کسی مسلم ملک بالخصوص عرب ملک سے اپنی جارحیت کی معافی مانگی ہو۔
پھر معافی کا یہ فون قطر کے امیر نے نہیں سنا۔ انھیں وزیر اعظم سے معافی مانگنی پڑی۔ قطر کے امیر نے فون پر بات نہیں کی۔ امریکا کو علم تھا کہ صرف معافی کافی نہیں۔
اسرائیل کی معافی قطر کا غصہ کم تو کر سکتی ہے لیکن مستقبل میں تحفظ کا احساس نہیں دلا سکتی۔ عرب خود کو اسرائیل سے غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں اور اس لیے وہ دفاعی معاہدہ کریں گے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ نے اسرائیل کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بجائی ہیں۔ اسرائیل کو احساس ہوا کہ اس کے خلاف ایک بڑی مشترکہ فوج بن سکتی ہے۔
اگر سب مسلم ممالک نے آپس میں ایسے دفاعی معاہدے کر لیے تو اسرائیل کے خلاف ایک بڑا اتحاد بن جائے گا جو اسرائیل کے لیے ایک خطرہ ہوگا، اس لیے اسرائیل بھی معافی مانگنے پر تیار ہوا۔
اب امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے ''قطر کی ریاست کی سلامتی کی یقین دہانی'' کے عنوان سے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں۔
یہ غیرمعمولی اقدام قطر کونیٹو کے ''آرٹیکل 5 جیسی'' حفاظتی ضمانت فراہم کرتا ہے، جو اس کی سرزمین، خودمختاری، یا اہم انفراسٹرکچر پر کسی بھی مسلح حملے کو امریکی امن اور سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھا جائے گا یعنی قطر پر حملہ امریکا پر حملہ تصور ہوگا۔
جیسا دفاعی معاہدہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ کیا ہے بالکل ویسا ہی دفاعی معاہدہ امریکا نے قطر کے ساتھ کر لیا ہے، یعنی اب قطر پر حملے کا جواب امریکا دے گا جیسے سعودی عرب پر حملے کا جواب پاکستان دے گا۔ یہ معاہدہ قطر کو پاکستان کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنے سے روکنے کے لیے بھی کیا گیا ہے۔
امریکی صدر کے اس حکم نامے کے تحت امریکا قطر کو امریکی اتحادی کے طور تسلیم کرتا ہے، جس میں امریکی افواج کی میزبانی اور سیکیورٹی آپریشنز اور ثالثی کی کوششوں میں مدد کرنا شامل ہے (مثلاً غزہ اور دیگر عالمی تنازعات میں)۔
غیر ملکی جارحیت سے جاری خطرات کی وجہ سے ''بیرونی حملے کے خلاف ریاست قطر کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کی ضمانت'' کے لیے امریکی پالیسی کا اعلان کرتا ہے۔
قطر کی سرزمین، خودمختاری، یا اہم بنیادی ڈھانچے پر کسی بھی مسلح حملے کو ''امریکا کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ'' سمجھا جاتا ہے۔ امریکا مشترکہ مفادات کے تحفظ اور امن کی بحالی کے لیے ''تمام قانونی اور مناسب اقدامات'' کرے گا، بشمول سفارتی، اقتصادی اور فوجی اقدامات۔ ایگزیکٹو آرڈر تمام انتظامی محکموں اور ایجنسیوں کو امریکی قانون کے مطابق حکم پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
اس حکم پر پیر کو دستخط کیے گئے تھے، اسی دن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تھا۔ قطر سے معافی بھی مانگی تھی۔ لیکن حکم نامہ چند دن بعد منظر عام پر لایا گیا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے امریکا کا ایسا کوئی معاہدہ اسرائیل کے ساتھ نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل پر حملہ امریکا پر حملہ تصور ہوگا۔ شائد اسرائیل کو اس کی ضرورت بھی نہیں۔ لیکن ایسا معاہدہ اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے لیکن وہ چاہتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگاروں کی رائے میں یہ کوئی باہمی دفاعی معاہدہ نہیں ہے، یہ ایک امریکی صدارتی حکم ہے۔ امریکی صدر کا ایک ایگزیکٹو آرڈر ہے، اس لیے اس کو کسی بھی وقت امریکا ختم بھی کر سکتا ہے۔
ایک حکم نامہ جو ختم بھی ہو سکتا ہے، یہ معاہدہ نہیں ہے۔ اگر معاہدہ ہوتا تو دونوں ممالک اس پر دستخط کرتے۔ اس کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس لیے اگر دیکھا جائے تو اس کو ہم سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدہ کے تناظر میں تو دیکھ رہے ہیں، اس سے اس کی مماثلت بھی بنا رہے ہیں لیکن سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک باہمی دفاعی معاہدہ ہوا ہے جس پر دونوں ممالک کے دستخط ہیں۔
دونوں ممالک اس کے پابند ہیں۔ قطر اور امریکا میں ایسا نہیں ہے وہ ایک یک طرفہ حکم نامہ ہے جو یک طرفہ طور پر ختم بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اندر سے قطر بھی جانتا ہے کہ یہ معاہدہ نہیں حکم نامہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ باقی عرب ممالک کیا کریں گے۔ کیا باقی عرب ممالک کے لیے امریکا ایسا حکم نامہ جاری کرے گا۔کیا عرب ممالک ابھی خاموش رہیں گے ۔
امریکا ان کو خاموش کروا لے گا۔ اب ان کو شور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ بات دیکھنے کی ہے۔ کیونکہ اب عرب ممالک کے پاس دو آپشن ہیں۔ ایک پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ، دوسرا امریکی حکم نامہ۔ ان کی مرضی وہ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔