9مئی کے 11 مقدمات پر فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
ویب ڈیسک: انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی نے 9 مئی کے 11 مقدمات کی سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کر دی، آئندہ تاریخ پر تمام کیسز میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔
عدالت میں ملزمان کی حاضری لگائی گئی اور جنہیں چالان نقول نہیں ملیں ان میں چالان نقول تقسیم کی گئی۔
سانحہ 9 مئی کیسز میں جی ایچ کیو گیٹ 4 حملہ، آرمی میوزیم پر حملہ، حساس بلڈنگ جلانے اور میٹرو اسٹیشن جلانے کے کیسز بھی شامل کر لیے گئے۔
’’اپنے ہتھیار ہمارے حوالے کر دو‘‘
بعدازاں، میڈیا سے گفتگو میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں جو تحریک چل رہی ہے ارباب اختیار کو اس کا نوٹس لینا چاہیے، کشمیر ایک حساس مسئلہ ہے اس پر فوری توجہ ضروری ہے۔ آزاد کشمیر پاکستان کی سیاست کا محور ہے اس پر توجہ دینا ہوگی۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ جب نو مئی کیسز بنے میں پاکستان میں ہی نہیں تھا، ابھی حاضری چل رہی ہے، گواہ اور شہادتیں ہوں گی پھر پتا چلے گا، کیا بنتا ہے۔
انڈیا کاٹرافی لینے سے انکار،پاکستان کے وقار پر حملہ، محسن نقوی صرف بہانہ!
Ansa Awais Content Writer.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ نے زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے، اعترافی بیان جاری کرنے پر پابندی عائد کردی
لاہور:لاہور ہائی کورٹ نے زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیر حراست ملزم کا انٹرویو فئیر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے وشال شاکر کی زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر گیارہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا اور زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ملزمان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ کسی میڈیا پرسن کو زیر حراست ملزم کا انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں دے گا، زیر حراست ملزم کا انٹرویو اس کی عزت نفس اور مستقبل کو داؤ پر لگا دیتا ہے، زیر حراست ملزم کا انٹرویو فئیر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے افسر کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی ہوگی، زیر حراست ملزم کے انٹرویو کی تمام ذمہ داری تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ پر ہوگی۔
عدالت نے بتایا کہ یہ مناسب وقت ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے کردار کو ریگولیٹ کرے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ناکوں اور چیک پوسٹوں پر میڈیا نمائندوں کو ساتھ کھڑا کر کے شہریوں کی تذلیل کرنا افسوس ناک ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اداروں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا پورا حق ہے، میڈیا میں مقبولیت کے لیے شہریوں کی عزت اور وقار کو داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، شہرت کی خواہش بذات خود قابل اعتراض نہیں ہے۔
مذکورہ مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کی اور زیر حراست ملزمان کی میڈیا کے ذریعے کردار کشی اور عزت نفس مجروح کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جبکہ پولیس، ایکسائز، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ جمع کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بیان دیا کہ زیر حراست ملزمان کے انٹرویو سے نہ صرف ملزم کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ پراسیکیوشن کا کیس بھی کمزور ہوتا ہے، ایسے اقدامات سے نہ صرف قانونی اور اخلاقی سوالات جنم لیتے ہیں بلکہ فوجداری نظام انصاف کے لیے بھی تشویش ناک ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ کسی بھی فرد کا وقار ناقابل تسخیرہے جو پولیس کے دروازے پر ختم نہیں ہوسکتا، کسی ملزم کی قانونی گرفتاری اس کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرتی، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کہتا ہے ہر شہری کو عزت اور قانون کے مطابق دیکھا جائے، ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھیں۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں کہا کہ دوران حراست ملزمان کے انٹرویو میڈیا ٹرائل کی ایک شکل ہے، میڈیا ٹرائل کا مطلب ہے کہ کسی عدالتی فیصلے سے پہلے ملزم کو بے گناہ یا قصور وار ڈکلیئر کرنے کے لیے عوامی رائے قائم کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ میڈیا معاشرے کی بہتری کے لیے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور لائن کراس نہ کرے، میڈیا کو عدلیہ اور تفتیشی کی ڈومین سے تجاوز کر کے اوپر نہیں جانا چاہیے، میڈیا کے ذریعے ٹرائل سے نہ صرف کام خراب ہوتا ہے بلکہ ملزم کے فئیر ٹرائل پرائیویسی بھی کمپرومائز ہوتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی زیر حراست ملزم کو میڈیا تک رسائی دینے اور انٹرویو کرانے پر تفتیشی افسر مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوگا، اس کیس میں ایک طرف آئین میں دی گئی میڈیا کی آزادی اظہار اور دوسری طرف ملزم کے فئیر ٹرائل اور بنیادی حقوق کو بیلنس کرنا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں واضح کیا کہ میڈیا کو زیر التوا ٹرائل اور تحقیقات کی درست رپورٹنگ کرنے کی آزادی ہے مگر یہ آزادی مطلق نہیں ہے، میڈیا کو غلط، ہتک آمیز، غیر پیشہ وارنہ رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مزید کہا گیا ہے کہ زیر حراست کا مطلب کسی بھی فرد کو قانونی طور پر گرفتار کرنا ہے، موجودہ کیس میں زیر حراست کا دائرہ وسیع کرتےہوئے ناکوں اور چیک پوسٹوں پر روکنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔