مقبوضہ کشمیر میں صحافی مسلسل پر خطر ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں، آر ایس ایف
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
اگست 2019ء کے بعد سے علاقے میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کو سلب کر لیا گیا ہے، مئی 2025ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ”صحافیوں کے حقوق اور صحافتی آزادی کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ” رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز“ (آر ایس ایف ) نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں صحافی مسلسل دباﺅ، دھمکی اور پرخطر ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ذرائع کے مطابق ”آر ایس ایف“ نے اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والے خطوں میں سے ایک ہے، اگست 2019ء کے بعد سے علاقے میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کو سلب کر لیا گیا ہے، مئی 2025ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جھڑپوں کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اس دوران میر گل نامی صحافی کو سوشل میڈیا پوسٹ پوسٹ پر گرفتار کیا گیا۔ آر ایس ایف نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوجی کارروائیوں جیسے حساس موضوعات کو کور کرنے والے صحافیوں کو نگرانی، گرفتاریوں اور انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔
2019ء کے بعد سے کم از کم 20 صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں ”کشمیر والا“ کے ایڈیٹر فہد شاہ بھی شامل ہیں، فہد شاہ کو تقریبا دو برس قید رکھا گیا۔ ایک اور صحافی عرفان معراج کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت 2023ء میں گرفتار کیا گیا۔ آر ایس ایف کے سائوتھ ایشیا ڈیسک کی سربراہ Célia Mercier نے کہا جموں و کشمیر میں میڈیا کے پیشہ ور افراد مستقل دھمکیوں کے ماحول میں کام کر رہے ہیں، انہیں شدید پابندیوں اور مسلسل نفسیاتی دبائو کا سامنا ہے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ پریس کی آزادی کا احترام کرے۔ تنظیم نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ 2022ء میں کشمیر پریس کلب کی بندش نے مقامی رپورٹرز کو پیشہ ورانہ جگہ سے محروم کر دیا اور انہیں مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔
کشمیر میں انٹرنیٹ کی پابندیاں ایک مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، خدمات کو 2G تک محدود کر دیا گیا۔ فوجی کارروائیوں کے دوران انٹرنیٹ سروس معطل کر دی جاتی ہے۔ آر ایس ایف نے پاسپورٹ کی منسوخی، پریس کارڈ کی فراہمی سے انکار اور بھارتی حکام کے دیگر ناروا اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو کو سفری دستاویزات کے باوجود 2022ء میں بیرون ملک جانے نہیں دیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت سے انکار نہ صرف صحافیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ متنازعہ اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں لاکھوں لوگوں کو آزادانہ اور قابل اعتماد معلومات کے حق سے بھی محروم کر دیتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آر ایس ایف کہا کہ کام کر
پڑھیں:
بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر میں بدامنی پیدا کرنے کا انکشاف
وزیر اعظم شہباز شریف نے آزاد جموں و کشمیر میں جاری عوامی ایکشن کمیٹی (اے اے سی) کی ہڑتال کے تناظر میں ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی شامل ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس کے سنجیدہ عزم اور کشمیری عوام کے ساتھ خلوص نیت کا مظہر ہے، کیونکہ مسائل کا حل صرف بات چیت سے ممکن ہے، نہ کہ محاذ آرائی سے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی ہڑتال اور مطالباتسرکاری ذرائع کے مطابق عوامی ایکشن کمیٹی کے 38 میں سے 36 مطالبات پہلے ہی مان لیے گئے ہیں، اس کے باوجود اے اے سی قیادت مسلسل احتجاج پر بضد ہے اور پاکستان و آزاد کشمیر کی حکومتوں کی بارہا مذاکراتی پیشکشوں کو مسترد کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مظفرآباد: پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد اور آزاد جموں و کشمیر کی مشترکہ ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا آغاز
کشمیری عوام کی جان و سلامتی پر خطرہذرائع کے مطابق اس رویے سے نہ صرف معصوم کشمیری عوام کی زندگیاں خطرے میں پڑ رہی ہیں بلکہ امن و امان متاثر ہو رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے موقف کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایک خفیہ مراسلے سے انکشاف ہوا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے بعض عناصر کو جنیوا میں بھارتی حکام کی جانب سے بریفنگ دی گئی تھی تاکہ آزاد کشمیر میں بدامنی پیدا کی جا سکے، جس پر حکومت نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
سڑکوں اور روزمرہ زندگی پر اثراتذرائع کے مطابق سڑکوں کی بندش، کاروباروں کی بندش اور ضروری اشیا کی ترسیل میں رکاوٹ براہِ راست عام کشمیری شہریوں، دکانداروں، دیہاڑی داروں، طلباء اور مریضوں کو متاثر کر رہی ہے۔
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بالغ نظری، مفاہمت اور مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن اب ذمہ داری عوامی ایکشن کمیٹی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔
یہ بھی پڑھیں:عوامی ایکشن کمیٹی کے زیادہ تر مطالبات مان لیے گئے، احسن اقبال
امن کی اپیل اور مذاکرات کا دروازہ کھلاذرائع نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر کو انتشار نہیں بلکہ امن درکار ہے، مسائل کا حل مذاکرات میں ہے نہ کہ ہڑتالوں میں۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کے دروازے بات چیت کے لیے کھلے ہیں، لہٰذا عوامی ایکشن کمیٹی کو چاہیے کہ وہ اپنی ہڑتال ختم کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں