صمود فلوٹیلا پرحملہ، انسانیت کا مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر قطر دوبارہ کسی بیرونی حملے کا نشانہ بنا تو امریکا نہ صرف اس کا دفاع کرے گا بلکہ جوابی فوجی کارروائی بھی کرے گا، جب کہ دوسری جانب اسرائیل نے گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ کرتے ہوئے 200 سے زائد انسانی حقوق کے کارکن گرفتار کر لیے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے قطر کے دفاع سے متعلق جاری کردہ حالیہ ایگزیکٹیو آرڈر اور اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے عالمی قافلے ’’ گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ پر حملہ، دونوں واقعات ہمیں ایک بڑے اور گہرے سوال کی طرف لے جاتے ہیں اور وہ سوال ہے انسانی حقوق کا۔
عالمی انسانی حقوق کا تصور صرف کسی معاہدے یا قانون کی کتابوں میں درج نہیں بلکہ یہ انسان کی بنیادی عزت، بقا اور آزادی کا ضامن ہے۔ جب کسی ریاست کے مفادات کے تحفظ کے لیے طاقت کا استعمال ہوتا ہے، تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس طاقت کے استعمال میں انسانی وقار اور بنیادی انسانی اصولوں کی پامالی نہ ہو۔
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے حالیہ دنوں میں اسرائیل اور امریکا دونوں کے رویے پرکھل کر تنقید کرتے ہوئے جس جرأت اور اصولی مؤقف کا اظہار کیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قطر نہ صرف سفارتی لحاظ سے ایک اہم طاقت بن چکا ہے بلکہ وہ اپنی خود مختاری اور قومی وقار پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔
نو ستمبر کو اسرائیل کی جانب سے قطر کی سرزمین پر کیا گیا فضائی حملہ، جس میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ایک قطری سیکیورٹی گارڈ شہید ہوا، محض ایک عسکری واقعہ نہیں بلکہ قطر کی خود مختاری پر براہِ راست حملہ تھا۔ قطر نے فوری ردعمل میں غزہ امن مذاکرات سے دستبرداری کا اعلان کیا اور ایک واضح پیغام دیا کہ وہ اپنی سلامتی کے خلاف کسی بھی اقدام کو برداشت نہیں کرے گا۔
اس ردعمل نے عالمی برادری کو چونکا دیا، جس کے نتیجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے وزیر خارجہ کو قطر اور اسرائیل کے دورے پر بھیجنا پڑا تاکہ حالات کو سنبھالا جا سکے۔ بعد ازاں امریکی دباؤ پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے قطری وزیراعظم سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، حملے پر افسوس کا اظہار کیا اور آیندہ اس قسم کی خلاف ورزی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
قطری وزیراعظم نے اس معذرت کو کوئی احسان نہیں بلکہ ایک فطری اور ناگزیر تسلیم قرار دیا اور کہا کہ وہ امن چاہتے ہیں، مگر ایسا امن جو فلسطینیوں کے بنیادی حقوق اور خود مختاری کو یقینی بنائے۔ ان کا یہ مؤقف اصولوں پر مبنی سفارت کاری کا عکاس ہے جو موجودہ دور میں کمیاب ہوتی جا رہی ہے۔
اسی تناظر میں غزہ کے لیے امداد لے جانے والے بحری قافلے پر اسرائیلی حملہ ایک اور سنگین مثال ہے کہ کس طرح طاقت کا استعمال، اگر انسانی بنیادوں پر نہ ہو، تو وہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی بن جاتا ہے۔
اس قافلے میں شامل لوگ، جن میں وکلاء، صحافی، پارلیمنٹیرینز اور انسانی حقوق کے کارکنان شامل تھے،کسی عسکری مقصد کے تحت نہیں، بلکہ محصور عوام تک دوا اور خوراک پہنچانے کے مشن پر تھے۔ ان میں سویڈن کی معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کی موجودگی یہ واضح کرتی ہے کہ اس قافلے کا مقصد محض سیاسی یا علامتی نہیں، بلکہ خالص انسانی ہمدردی پر مبنی تھا، مگر جس طرح اسرائیلی بحریہ نے اس قافلے کو روکا، ان کشتیوں کو تحویل میں لیا اورکارکنوں کو گرفتارکیا، اس پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، عالمی انسانی حقوق کے اصولوں سے میل کھاتا ہے؟
اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشنز اور دیگر بین الاقوامی معاہدے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ انسانی امداد کو سیاسی یا سلامتی کے نام پر روکا جائے۔انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ نہ صرف جنگ کے دوران بلکہ امن کے ادوار میں بھی عام شہریوں، بچوں، خواتین، مریضوں اورکمزور طبقات کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ ہو، اگر کوئی ریاست اپنی سیکیورٹی کو بہانہ بنا کر انسانی امداد کو روکتی ہے تو یہ نہ صرف غیر انسانی رویہ ہے بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
غزہ ایک عرصے سے ناکہ بندی کا شکار ہے، وہاں کے عوام بجلی، پانی، دوا اور خوراک جیسے بنیادی وسائل سے محروم ہیں۔ اس قافلے کا مقصد یہی کمی پوری کرنا تھا اور اس پر حملہ ایک ایسے عمل کی نمائندگی کرتا ہے جو انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
دوسری جانب عالمی طاقتوں کا طرز عمل بھی مایوس کن ہے، وہ ممالک جو انسانی حقوق کے بڑے علمبردارکہلاتے ہیں، ان کا رد عمل اکثر مفادات کے تابع ہوتا ہے، اگر کوئی حلیف ملک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر خاموشی اختیارکی جاتی ہے، جب کہ مخالف ریاست کے خلاف سخت بیانات اور پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔
یہی دہرا معیار انسانی حقوق کے تصور کو کمزورکرتا ہے۔ جب امریکا قطر کے دفاع کا وعدہ کرتا ہے، تو یہ سوال بھی لازم ہے کہ کیا یہی امریکا غزہ میں انسانی بحران کو ختم کرنے کے لیے بھی ویسی ہی سنجیدگی اختیار کرے گا؟ کیا انسانی حقوق صرف اس وقت اہم ہوتے ہیں جب وہ ہماری پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوں؟
انسانی حقوق کی اصل روح یہی ہے کہ وہ ہر انسان کے لیے برابر ہوں، چاہے وہ قطر میں ہو یا فلسطین میں، چاہے وہ طاقتور ہو یا بے بس۔ کوئی بھی اقدام، خواہ وہ فوجی ہو یا سفارتی، اگر انسانی حقوق کو نظر انداز کرتا ہے، تو وہ دیرپا امن، استحکام اور انصاف کو ممکن نہیں بنا سکتا۔ انسانی حقوق کی پامالی صرف ظلم نہیں بلکہ عالمی ضمیر کی شکست ہے۔
دنیا بھر کے عوام، تنظیمیں اور ادارے اب اس بات کا ادراک کر رہے ہیں کہ طاقت کے اندھے استعمال سے نہ تو امن قائم کیا جا سکتا ہے، نہ عزت محفوظ رہتی ہے، اور نہ ہی انصاف ممکن ہے۔دنیا کو یہ سوچنا ہو گا کہ اگر کوئی قافلہ صرف خوراک اور دوا لے کر جا رہا ہو، اور اسے فوجی طاقت سے روکا جائے، تو یہ کس قسم کی دنیا ہے؟ ایسی دنیا جہاں انسانیت سے زیادہ اہمیت تزویراتی مفادات کو حاصل ہو، وہ نہ پائیدار ہو سکتی ہے اور نہ قابلِ رشک۔
دوسری جانب امریکی صدر کی جانب سے پیش کیا جانے والا امن منصوبہ، جسے خود قطر نے محض اصولوں کی ایک فہرست قرار دیا ہے، دراصل ایک ایسا خاکہ ہے جس میں فلسطینیوں کے دیرینہ مطالبات، خاص طور پر مشرقی یروشلم کی حیثیت، فلسطینی ریاست کی حدود، پناہ گزینوں کے حق واپسی، اور اسرائیلی بستیوں کے پھیلاؤ جیسے بنیادی مسائل کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
یہ منصوبہ زمینی حقائق اور فلسطینیوں کے اجتماعی جذبات کے برعکس ہے۔ قطر کی طرف سے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار ایک حقیقت پسندانہ اور دانشمندانہ اقدام ہے جو دنیا کے ان تمام حلقوں کو جھنجھوڑتا ہے جو اسرائیل کو ایک معمول کی ریاست تصور کرنے لگے ہیں۔ فلسطین ایک ایسا خواب ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید زخمی ہوتا جا رہا ہے۔
غزہ کی گلیوں میں کھیلتے بچے، جن کے ہاتھوں میں کھلونے کے بجائے ملبے سے نکالی گئی اشیاء ہوتی ہیں، ہر عالمی فورم سے ایک ہی سوال کرتے ہیں۔ ہمیں ہمارا حق کب ملے گا؟
اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی، بستیوں کا پھیلاؤ اور غزہ کا مسلسل محاصرہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ قطر جیسے ممالک کی جانب سے مسلسل امداد، صحت، تعلیم اور سفارتی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کو ابھی بھی کچھ ممالک کی اخلاقی اور انسانی حمایت حاصل ہے۔
قطرکی ثالثی کی پیشکش بلاشبہ ایک امید کی کرن ہے، لیکن اس میں بہت سے خطرات پوشیدہ ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسرائیل اکثر وقتی طور پر امن کی بات کرتا ہے مگر عملی طور پر اپنی طاقت کا استعمال جاری رکھتا ہے۔
قطر کو اپنے کردار میں انتہائی احتیاط، تدبر اور مضبوط اصولی مؤقف کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ اس کا کردار محض ایک سہولت کارکا نہ رہ جائے بلکہ حقیقی تبدیلی کا ذریعہ بنے۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی اداروں کی خاموشی بھی افسوسناک ہے۔
قراردادیں منظورکرنا، تشویش کا اظہارکرنا اور انسانی حقوق کی یاد دہانی کروانا سب بے سود ہو جاتا ہے جب اس کے بعد کوئی عملی اقدام نہ کیا جائے۔ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر اگر مؤثر کارروائیاں ہوتیں تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری انصاف کے بجائے مصلحت کا شکار ہے۔تاہم ان تمام تر تلخ حقیقتوں کے باوجود قطر کی حالیہ سرگرمیاں، عالمی ضمیر کی بیداری کی کوششیں اور فلسطینی عوام کی مزاحمت یہ امید دلاتی ہے کہ شاید ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب انصاف طاقت سے بالاتر ہو گا۔
اگر قطر اپنے اصولی مؤقف پر ثابت قدم رہتا ہے، دیگر مسلمان اور انصاف پسند ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں اور عالمی طاقتیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتی ہیں، تو ایک نیا باب رقم ہو سکتا ہے۔ ایسا باب جس میں امن صرف طاقتوروں کا استحقاق نہ ہو بلکہ مظلوموں کا بھی حق ہو۔
فلسطین کا مسئلہ کسی سرحدی تنازع سے بڑھ کر انسانیت کا مقدمہ ہے۔ جب تک عالمی برادری اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی اور سنجیدہ عملی اقدامات نہیں کرتی، تب تک مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن ایک خواب ہی رہے گا۔
قطر نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کمزور سمجھے جانے والے ممالک بھی اگر اصولوں پر ڈٹ جائیں تو عالمی طاقتوں کو جھکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ رکتی ہے، سوچتی ہے، اور نئے راستے کھلنے کی امید جگاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انسانی حقوق کی انسانی حقوق کے امریکی صدر کی جانب سے نہیں بلکہ خلاف ورزی اس قافلے کرتا ہے اس بات کے لیے کرے گا اور اس قطر کی
پڑھیں:
ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے 27ویں آئینی ترمیم کے بعد یکے بعد دیگرے ججز کے مستعفی ہونے پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری اپنے مفصل بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ استعفے پاکستان میں آئین، قانون، انصاف اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس منصور علی شاہ کے سپریم کورٹ سے استعفیٰ دینے کے بعد اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی اس سلسلے میں شامل ہو گئے ہیں، اور یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے تینوں ججز کی دیانتداری، انصاف پسندی اور پیشہ ورانہ کارکردگی کی کھل کر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ
جسٹس اطہر من اللّٰہ ججز بحالی تحریک کے دوران فرنٹ لائن کے رفیق تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی قابلیت، جرات اور پیشہ ورانہ آزادی سب پر واضح ہے۔
جسٹس شمس محمود مرزا کا شمار بھی بہترین شہرت رکھنے والے ججز میں ہوتا ہے۔
انہوں نے جسٹس شمس محمود مرزا پر رشتہ داری کے الزام کو بے بنیاد اور “طفلانہ حرکت” قرار دیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ ان ججز کے فیصلوں سے اختلاف اپنی جگہ، مگر ان کی شرافت، اہلیت اور نیک نیتی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے استعفے عدلیہ کے لیے نقصان دہ ہیں اور ادارہ جاتی توازن کو کمزور کرتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ استعفوں کو سیاسی دھڑے بندی کی نظر سے دیکھیں تو شاید کچھ لوگوں کو یہ اچھا لگے، لیکن حقیقت میں یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ رکنے والا نہیں اور “یہ عدلیہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ تک جائے گا”۔
انہوں نے زور دیا کہ ہر مخالف کو پکڑ لینا یا ملک دشمن قرار دینا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک ذمہ دار ریاست ماحول کو ٹھنڈا رکھتی ہے، تنازعات بڑھاتی نہیں۔ پاکستان جیسے حساس اور نیوکلیئر ملک کے لیے اندرونی محاذ آرائی انتہائی نقصان دہ ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ خوشی کے ڈھول پیٹنے کے بجائے پیدا ہوتی فالٹ لائنز کو پُر کرنے کی کوشش کرنا ہی دانشمندی ہے۔