پولیس گردی کی مذمت، صحافیوں کے ساتھ ہیں: فضل الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+خبر نگار) سربراہ جمعیت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ نیشنل پریس کلب پر پولیس گردی کے واقعہ کی مذمت کرتا ہوں۔ مشکل وقت میں صحافی برادری کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں۔ وہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد پہنچے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ صحافی پرامن لوگ اور اپنا دائرہ کار جانتے ہیں۔ ہر چار دیواری کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔ وہ صحافی فیلڈ میں نہیں تھے کہ ان کے خلاف شکایت کی جا سکے اور نہ ہی انہوں نے قانون ہاتھ میں لیا تھا۔ اسلام آباد پولیس کے اہلکار آئے، انہوں نے تشدد کیا اور صحافیوں کو مارا پیٹا گیا۔ اس اقدام کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ صحافیوں کا احتجاج حق بجانب ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: انہوں نے
پڑھیں:
اسلام آباد پولیس کا پریس کلب پر دھاوا، صحافیوں پر تشدد کی شدید مذمت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت میں پولیس نے نیشنل پریس کلب پر دھاوا بولتے ہوئے اندر موجود صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ کیفے ٹیریا میں توڑ پھوڑ بھی کی۔
میڈیارپورٹس کے مطابق پولیس اہلکاروں نے کلب کے اندر موجود صحافیوں کو مظاہرین سمجھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جس سے صحافی برادری میں سخت غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔
سیکریٹری جنرل پاکستان یونین آف جرنلسٹس (پی یو ایف جے) ارشد انصاری نے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پریس کلب میں صحافیوں پر تشدد کھلم کھلا غنڈہ گردی ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم سے فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ کسی حملے سے کم نہیں، اس حملے میں ملوث اہلکاروں کو مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا جائے کیونکہ واقعہ دیکھ کر یوں لگا جیسے یہ پریس کلب نہیں بلکہ پولیس لائن ہو۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی نیشنل پریس کلب پر پولیس کے چھاپے اور صحافیوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آزادی صحافت اور انسانی حقوق پر اس طرح کا حملہ کسی طور برداشت نہیں کیا جا سکتا، ایچ آر سی پی نے واقعے کی فوری انکوائری اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔
پریس کلب پر پولیس کے دھاوے نے صحافتی حلقوں میں شدید اضطراب پیدا کر دیا ہے اور صحافی برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ آزادی اظہار اور آزادی صحافت کو یقینی بنایا جا سکے۔