یورپ میں سیاہ فام تارکین وطن کی شناخت اور حقوق کی جنگ
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) یورپی ممالک میں سیاہ فام باشندوں کو ہجرت کے حوالے سے ہونے والی بحث کے دوران مزید نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی ، ہجرت کے حوالے سے ایک مرکزی اہمیت کا حامل ملک بن چکا ہے۔ 2023 ء میں یورپی یونین ایجنسی برائے بنیادی حقوق (EUFRA) کی رپورٹ"Being Black in the EU" کے مطابق جرمنی میں سیاہ فام مخالف نسلی امتیاز میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
2025 ء کے وفاقیانتخابات کے بعد جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت متبادل برائے جرمنی (AfD) سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر نے والی دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ یہ جماعت امیگریشن مخالف موقف کے لیے جانی جاتی ہے اور اس کی مقبولیت نے سیاہ فام افراد کے لیے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
(جاری ہے)
معاشی جمود اور اس کے اثراتجرمنی کی معیشت کووڈ 19 کے بعد سے اب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی۔
یہ واحد جی سیون ملک ہے جو مسلسل تین سالوں سے معاشی جمود کا شکار ہے۔ معاشی دباؤ کے اس ماحول میں، اقلیتوں، خاص طور پر سیاہ فام افراد کو روزگار، رہائش اور سماجی خدمات تک رسائی میں مزید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سماجی اور سیاسی اثراتسیاہ فام افراد کے حقوق کی وکالت کرنے والی تنظیم آئی ایس ڈی کے طاہر ڈیلا کے مطابق ہجرت کی بحث کے دوران سیاہ فام افراد کی جرمنی میں موجودگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔
ڈیلا کہتے ہیں، ''جب ہجرت سے متعلق بحثیں ہوتی ہیں تو جرمنی میں سیاہ فام لوگوں اور افریقی نسل کے لوگوں کی موجودگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔‘‘ نسلی امتیاز کی اقسامیہ امتیاز صرف تنخواہ یا ملازمت کے مواقع تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر شعبوں میں بھی موجود ہے۔ سیاہ فام افراد کو کرایہ پر مکان لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں بھی تعصب کا سامنا رہتا ہےجبکہ پولیس کی جانب سے پروفائلنگ اور زیادتی کے واقعات میں بھی ان افراد کے ناموں کا اندراج رہتا ہے۔ جرمنی میں آسامیوں کی بھرتی میں امتیازی سلوکجرمنی کی زیگن یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق کے نتائج کے مطابق 2023ء سے 2025 ء کے درمیان افریقی یا عربی نام والے درخواست دہندگان کو پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع کے لیے ان کی طرف سے دی گئی درخواستوں کے سب سے کم جوابات موصول ہوئے، حالانکہ جرمن کمپنیوں کو افرادی قوت کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
یورپی یونین کی سطح پر بھی سیاہ فام افراد نے سب سے زیادہ ملازمت کے دوران امتیازی سلوک کی شکایت کی اور جرمنی اس حوالے سے دوسرے بدترین ممالک میں شامل رہا۔
یہ وہ چیز ہے، جسے یورپی ملک لکسمبرگ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس چھوٹے اور بہت امیر ملک کا شمار یورپی یونین کے سب سے زیادہ متنوع آبادی والے ملک میں کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں ہر 10 میں سے ایک باشندے کی پیدائش ای یو کے باہر ہوئی ہے۔
لکسمبرگ نے 2017ء کی "Being Black in the EU" رپورٹ میں جرمنی کی ''سیکنڈ لاسٹ‘‘ پوزیشن ہے۔ لکسمبرگ کی حکومت نے اس کے رد عمل میں نسلی اورنسلی امتیاز کے عوامی تاثرات پر اپناسروے شروع کیا، جس کے نتائج 2022ء میں شائع ہوئے تھے۔ یہ ملک اب نسل پرستی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر کام کر رہا ہے۔بیلجیم کے ماہر معاشیات فریڈرک ڈوکیئر لکسمبرگ کی حکومت کی رپورٹ کے شریک مصنفین میں سے ایک ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ''اس منصوبے کا مقصد تحقیق، تربیت اور بیداری پیدا کرنے والے منصوبوں کے ذریعے نسل پرستی اور امتیاز کی تمام اقسام کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کو نافذ کرنا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر زور دینا ہو گا کہ امتیازی سلوک صرف محسوس نہیں کیا جاتا بلکہ یہ حقیقی معنوں میں موجود ہے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں سیاہ فام یورپی یونین نسلی امتیاز سب سے زیادہ کا سامنا کے لیے
پڑھیں:
نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس گردی کے خلاف ملک گیر یومِ سیاہ منانے کا اعلان
نیشنل پریس کلب پر پولیس کے دھاوے اور صحافیوں پر تشدد کے خلاف صحافی برادری نے جمعہ کو ملک بھر میں یومِ سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔ نیشنل پریس کلب سمیت پاکستان کے تمام پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے جائیں گے اور احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی۔
پریس کلب اسلام آباد میں صحافتی تنظیموں کے ہنگامی اجلاس اور احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، آر آئی یو جے کے صدر طارق علی ورک اور نیشنل پریس کلب کی سیکرٹری نیئر علی نے کہا کہ نیشنل پریس کلب پر حملہ دراصل آزادی صحافت پر حملہ ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد نیشنل پریس کلب پر حملہ اور پولیس تشدد، پی ٹی آئی کا سخت ردعمل
مقررین نے کہا کہ پولیس نے صحافیوں اور پرامن مظاہرین پر بدترین تشدد کیا، خواتین سمیت کئی افراد کو گرفتار کیا، فوٹوگرافرز کے کیمرے اور صحافیوں کے موبائل فون توڑ دیے گئے جبکہ پریس کلب کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
افضل بٹ نے کہا کہ نیشنل پریس کلب ساڑھے 3 ہزار صحافیوں کا دوسرا گھر ہے جس کا تقدس پامال کیا گیا۔ یہ حملہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور اس کا جواب ایسا دیا جائے گا کہ مستقبل میں کسی کو پریس کلب پر حملے کی جرات نہ ہو۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد پریس کلب میں پولیس داخل اور توڑ پھوڑ، ’اب تو صحافی پریس کلب میں بھی محفوظ نہیں’
آر آئی یو جے کے صدر طارق علی ورک نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے حد پار کر دی ہے، صحافیوں کو ان کے گھر میں مارا گیا۔ اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
سیکریٹری این پی سی نیئر علی نے کہا کہ پولیس نے آج تمام روایات اور قوانین کو پامال کر دیا۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پریس کلب کے اندر گھس کر صحافیوں اور عہدیداران پر تشدد کیا گیا ہو۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جمعہ کے روز ملک بھر میں یومِ سیاہ منایا جائے گا، تمام پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے جائیں گے اور صحافی برادری ملک گیر احتجاجی ریلیاں نکالے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
2 اکتوبر یوم سیاہ افضل بٹ پولیس گردی صحافیوں پر تشدد نیئر علی نیشنل پریس کلب نیشنل پریس کلب اسلام آباد