داؤد یونیورسٹی کی سیلف فنانس نشستوں میں کمی، جدید و روزگار سے وابستہ شعبوں تک رسائی میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
—فائل فوٹو
داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی 21ویں اکیڈمک کونسل کا اجلاس وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین (ستارۂ امتیاز، تمغۂ امتیاز) کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔
اجلاس میں اہم تعلیمی اصلاحات، نصاب کی بہتری اور پالیسی اقدامات پر تفصیلی غور کیا گیا۔
اجلاس کا سب سے اہم فیصلہ وائس چانسلر کی سفارش پر بی ایس کمپیوٹر سائنس پروگرام کی 200 نشستوں میں مختص 40 سیلف فنانس نشستوں کو کم کر کے 20 کرنے کی منظوری تھا۔
یہ اقدام طلبہ کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے جس سے یونیورسٹی کی میرٹ پر مبنی داخلہ پالیسی اور جدید و مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم کے فروغ کے عزم کی عکاسی ہوتی ہے۔
انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب دیگر ادارے مقبول پروگرامز کو آمدنی کا ذریعہ بنا رہے ہیں، داؤد یونیورسٹی کا مقصد ہونہار طلبہ کو مالی بوجھ کے بغیر ابھرتے ہوئے اور روزگار سے متعلق مضامین تک رسائی فراہم کرنا ہے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں وائس چانسلر نے اکیڈمک کونسل کے معزز اراکین کو خوش آمدید کہا اور یونیورسٹی کی حالیہ پیش رفت اور کامیابیوں سے آگاہ کیا۔
انہوں نے سندھ کے معزز وزیرِاعلیٰ کی جانب سے نامزد نئے اراکین کا خیرمقدم کیا جنہوں نے پہلی بار اجلاس میں شرکت کی۔
وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین نے کہا کہ داؤد یونیورسٹی نے ریسرچ، پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ یونٹ (RPDU) نیشنل ایرو اسپیس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک (NASTAP) میں قائم کر دیا ہے، جس کا افتتاح 6 اکتوبر 2025ء کو پاکستان کے معروف صنعت کار حسین داؤد بطور مہمانِ خصوصی کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ داؤد یونیورسٹی کے پہلے 3 پی ایچ ڈی اسکالرز کو دسمبر میں ہونے والے کانووکیشن کے دوران ان کی ڈگریاں تفویض کی جائیں گی، جو ادارے کی تاریخ میں ایک اہم علمی سنگِ میل ثابت ہو گا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: داو د یونیورسٹی وائس چانسلر
پڑھیں:
مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرِ ثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
سپریم کورٹ آف پاکستان—فائل فوٹوسپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
47 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ اور جسٹس صلاح الدین پنہور کا سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر الگ وجوہات تحریر کریں گے۔
سپریم کورٹ نے نظرِ ثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظرِ ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین، اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔
آئینی بینچ کے لیے نامزد ہونے والے تمام ججز نظرثانی کیس کے لیے تشکیل بینچ میں شامل ہیں۔
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ بینچ کے 2 ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں جبکہ 2 ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق مخصوص نشستوں کے 12 جولائی 2024ء کے اکثریتی فیصلے میں نئی ٹائم لائنز مقرر کی گئیں، نئی ٹائم لائنز انتخابی شیڈول، الیکشن ایکٹ کی دفعات اور آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے منافی تھیں، آئین اور قانون کے برخلاف ماضی سے مؤثر، نئی ٹائم لائنز مقننہ کا اختیار ہے عدالت کا نہیں، نئی ٹائم لائنز مقرر کر کے ہدایات کے ذریعے عدالت نے عدالتی اختیار کی حد سے تجاوز کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے دائرہ اختیار سے باہر جا کر اقدام کیا اور آئین کے آرٹیکل 175(2) کی خلاف ورزی کی، نئی ٹائم لائنز، ہدایات ناصرف آئینی اور قانونی دفعات کی خلاف ورزی تھے، اس میں آئین میں درج اختیارات کی علیحدگی کے اصول کو بھی پامال کیا گیا، عدالت نے اپنی واضح حدود سے آگے بڑھ کر قانون سازی کے میدان میں مداخلت کی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 12 جولائی 2024ء کا اکثریتی فیصلہ آئین میں دیے گئے جمہوری اقدار اور اصولوں کی بھی کھلی خلاف ورزی تھا، مخصوص نشستوں پر انتخابات، بلاشبہ بالواسطہ اور بلاشبہ تناسبی نمائندگی کے اصول پر مبنی تھے، 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے میں عوام کی مرضی اور آئین کے حکم کو نظر انداز کیا گیا، 12 جولائی 2024ء کے اکثریتی فیصلے میں آئین قانون کو نظر انداز کیا گیا۔