ایم آر ڈی موومنٹ 1983ء کی تحریک
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
چار دہائیاں قبل ملک میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت اور مارشل لاء کے خاتمے کے لیے ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی) تشکیل دیا تھا۔ یہ جدید پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے سب سے بڑا مشترکہ اتحاد تھا۔
تحریک کا باضابطہ آغاز 14 اگست 1983 کو ملک بھر میں ہوا۔ پہلے مرحلے میں سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں اورکارکنوں نے بڑے شہروں بشمول کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاورکے علاوہ دیگر شہروں میں کیا ۔
سندھ میں تحریک کا آغاز بڑی تیزی سے ہوا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سندھ میں رہنماؤں کی گرفتاریوں کے دوران ہزاروں افراد جمع ہوجاتے تھے۔
جب کارکن گرفتاریاں دینے کے لیے نمودار ہوتے تو لوگوں کا ہجوم ان پر ہار ڈالتا، نعرے لگاتا اور تھانوں کی طرف مارچ کرتا تھا۔ انھیں پولیس اہلکار راستے میں گرفتار کر کے لے جاتے تھے۔
گرفتار ہونے والوں میں اکثریت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اورکارکنوں کی تھی، جب کہ سندھ میں بائیں بازو کی جماعتیں، سندھی عوامی تحریک (رسول بخش پلیجو)، اور جمعیت علمائے اسلام بھی شامل تھیں۔
تحریک کے چند دنوں میں سندھ سے ہزاروں کارکنوں کوگرفتارکر لیا گیا۔ سندھ کی جیلیں اور تھانے بھرگئے۔ پولیس اور انتظامیہ کو رات کے وقت جیلوں میں رکھنا مشکل ہوگیا۔
تھانوں میں گرفتار ہونے والوں کو رات کو گھر بھیج دیا جاتا تھا، اور وہ صبح واپس تھانوں میں آجاتے تھے۔ پولیس کے ساتھ جھڑپیں، روڈ بلاک، لاٹھی چارج، آنسوگیس اور توڑ پھوڑ روزکا معمول ہوتا تھا۔
تھانے کا عملہ بھی گرفتاریاں کرنے سے کتراتا تھا۔ تحریک کے دوران بہت سے پولیس کانسٹیبلوں نے اپنے فرائض انجام دینے سے انکارکردیا اور اپنی ٹوپی اور بیلٹ پھینکنا شروع کردیے جس سے بالخصوص سندھ میں سول نافرمانی جیسی صورتحال پیدا ہوگئی۔
خبروں کا واحد ذریعہ اخبارات تھے، میڈیا پر سنسر شپ تھی۔ بی بی سی لندن کی خبریں سننے کے لیے لوگ روزانہ شہروں اور دیہاتوں میں جمع ہوتے تھے۔
کئی شہر روزانہ بند رہتے، جہاں کرفیو جیسی صورتحال تھی۔ اس تحریک میں سیاسی کارکنوں کے علاوہ صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور مذہبی اسکالرزکو بھی گرفتارکیا گیا۔ ان میں سے کئی کو غیر سول عدالتوں سے سزائیں سنائی گئیں۔ میرا صحافتی سفر بھی 1983 میں ایم آر ڈی تحریک کی رپورٹنگ سے شروع ہوا۔
ایسے میں اس وقت کے سندھ پیپلز پارٹی کے صدر غلام مصطفی جتوئی جو ایم آر ڈی تحریک کی قیادت کر رہے تھے، انھوں نے گھارو ریسٹ ہاؤس سے ایک خط لکھ کر پارٹی کارکنوں سے تحریک روکنے کا پیغام دیا، لیکن سندھ کے عوام نے ان کی کال کو مسترد کردیا اور سندھ میں کئی ماہ تک تحریک چلتی رہی۔
ابتدائی دنوں میں مورو اور خیرپور ناتھن شاہ کے قصبوں میں نصف درجن کارکنوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ دادو میں روزانہ ہونے والے جلوسوں اور خصوصاً خواتین کے احتجاج نے بھی اس تحریک کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بخشی۔
ایم آر ڈی تحریک کا سب سے بڑا واقعہ 42 سال قبل 29 ستمبر 1983 کو سکرنڈ شہر کے قریب قومی شاہراہ پر پیش آیا۔ جہاں پارٹی کارکنان اور سیکڑوں دیہاتی احتجاج کر رہے تھے، ان پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں 16 افراد شہید اور 51 زخمی اورگرفتارکر لیے گئے۔
جلوس کی قیادت کرنے والے 70 سالہ پنہل خان چانڈیو اور ان کے بیٹے غلام عباس چانڈیو کو گرفتارکر لیا گیا۔
ان پر خیرپور میں مقدمہ چلایا گیا اور انھیں سخت سزائیں دی گئیں۔ شدید زخمی کارکنوں کو کئی مہینوں تک نواب شاہ کے سول اسپتال میں رکھا گیا اور بعد میں لے جا کر قید کر دیا گیا۔
شہداء میں سے 9 کسان، دو سکرنڈ ہائی اسکول کے طالب علم اور ایک ڈھول بجانے والا منگنھار تھا جو گلیوں میں ڈھول بجا کر خوشیاں پھیلاتا تھا۔ ایک سکرنڈ شہر میں مزدوری کرتا تھا، ایک دکان چلاتا تھا، ایک دودھ والا تھا اور ایک بکریاں چرانے والا تھا۔
ان سب کا تعلق نچلے طبقے سے تھا۔ شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، جو لوگ اس دن زخمی بھی ہوئے تھے، انھیں دوسرے زخمیوں اور لاشوں کے ساتھ نواب شاہ کے سول اسپتال لے جایا گیا۔
میں اور سکرنڈ سٹی سے میرے کچھ صحافی دوست جائے وقوعہ پر پہنچے تو قومی شاہراہ پر شہداء اور زخمیوں کا خون ابھی تک خشک نہیں ہوا تھا۔ ان کے جوتے، چپل اور دیگر سامان بکھرا ھوا تھا۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ مظاہرین خالی ہاتھ تھے۔ بی بی سی نے اس واقعے کی خبر 29 ستمبر 1983 کو اپنی پہلی خبر کے طور پر نشر کی اور ریڈیو پاکستان نے بھی یہی خبر نشر کی، جس میں کہا گیا کہ آج سکرنڈ کے قریب 16 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے۔
اگلی صبح سکرنڈ شہر سے سیکڑوں لوگ گاؤں پنہل خان چانڈی پہنچے جہاں شہداء کے ورثاء اپنے پیاروں کو سپرد خاک کر رہے تھے۔ ورثاء کے علاوہ ایم پی اے غلام قادر چانڈیو بھی موجود تھے جو لوگوں سے تعزیت کر رہے تھے۔
ان کے والد پنہل خان چانڈیو اور بھائی غلام عباس چانڈیو سمیت ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ غلام قادر چانڈیو محنت کش طبقے کے نمایندے ہیں جو مسلسل 30 سال سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔
1995 میں بے نظیر بھٹو نے انھیں چھ سال کی مدت کے لیے سینیٹ آف پاکستان کا رکن منتخب کیا۔ اس کے بعد وہ پانچویں مرتبہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ غلام قادر چانڈیو 2002 کے الیکشن سے لے کر اب تک ہر الیکشن میں زیادہ ووٹ لے کر جیتے ہیں۔
آج اس تحریک کو 42 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ تحریک ملک کے باقی حصوں کی نسبت سندھ میں زیادہ فعال تھی، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور بائیں بازوکی جماعتوں کی شرکت نمایاں رہی۔ واضح رہے کہ سندھ کے قوم پرستوں نے اس تحریک کی مخالفت کی تھی۔ قوم پرست رہنما جی ایم سید نے اس تحریک کو کفن چوروں کی تحریک قرار دیا۔
سندھ کے عوام کی اس تاریخی جدوجہد نے سندھی عوام کو پوری دنیا میں جمہوریت کے حامی اور آمریت مخالف کے طور پر پہچان دی۔ ایم آر ڈی کی تحریک آج بھی خطے میں جمہوریت پسندوں کے لیے جوش و خروش کی ایک مثال بنی ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کر رہے تھے ایم ا ر ڈی اس تحریک کے لیے
پڑھیں:
مخصوص نشستیں کیس: تحریک انصاف کوفریق بنے بغیرریلیف ملا،برقرارنہیں رہ سکتا،عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد : عدالت عظمیٰ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا ہے ہے کہ فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا پی ٹی آئی چاہتی تو فریق بن سکتی تھی مگر جان بوجھ کر نہیں بنی، عدالت عظمیٰ نے کبھی حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں، تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔
عدالت عظمیٰ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا تاہم تفصیلی فیصلہ آج آیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین اور اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا، بینچ کے دو ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں، دو ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں 7 غیر متنازع حقائق ہیں، سنی اتحاد کونسل کی حد تک مرکزی فیصلے میں اپیلیں متفقہ طور پر خارج ہوئیں کہ وہ مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں، مرکزی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دے دیا گیا جبکہ وہ فریق ہی نہیں تھی، پی ٹی آئی اگر چاہتی تو بطور فریق شامل ہو سکتی تھی مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کیس میں کسی بھی فورم پر فریق نہیں تھی، جو ریلیف مرکزی فیصلے میں ملا برقرار نہیں رہ سکتا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی، 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔