آزاد کشمیر میں پاکستان مخالف نعرے کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-03-4
عبید مغل
آزاد کشمیر میں حالیہ احتجاجی لہر کا کامیاب مذاکرات پر اختتام بلاشبہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ یہ خبر وقتی طور پر عوام کے لیے سکون اور خطے کے لیے انتشار سے نجات کا باعث بنی، مگر یہ سکون کسی دیرپا اور پائیدار حل کی ضمانت نہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے آزاد کشمیر کی فضاؤں میں اپنے ہی محسن اور محافظ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف نعرے بلند کرا دیے؟ یہ سوال ہر محب وطن کشمیری اور پاکستانی کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے، اور اس کا جواب ہمیں ماضی کی سیاست کی تلخیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے سائے میں تلاش کرنا ہوگا۔ اسی پس منظر میں یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ ایسے حکمران مسلط کیے گئے جو اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے بغیر اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ ماضی کی سیاست نوٹوں کے بریف کیسوں، بلاول ہاؤس کے دروازوں اور پنڈی کے درباروں کے طواف پر چلتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے مسلط شدہ حکمرانوں کے دور میں آزاد کشمیر میں اقربا پروری، کرپشن، بدانتظامی اور ناانصافی جیسے مسائل نے جڑ پکڑی اور رفتہ رفتہ ایک ایسا دلدل بن گیا جس نے عوام کے صبر اور اعتماد دونوں کو نگل لیا۔ لیکن یہ سب کچھ محض داخلی خرابیوں تک محدود نہ رہا۔ انہی مسائل کو جواز بنا کر دشمن قوتوں نے مظاہرین کی صفوں میں سرایت کی اور ایسے نعرے بلند ہوئے جنہیں سن کر پاکستان سے محبت کرنے والے کشمیری بھی حیران و دکھی ہوئے۔ یوں عوامی مسائل کے نام پر ہونے والے احتجاج کو پاکستان مخالف ایجنڈے کا روپ دے دیا گیا۔
اسی تناظر میں ایک اور سنگین مسئلہ مہاجرین کی بارہ نشستوں کا ہے۔ یہ نشستیں کشمیری عوام کی حقیقی نمائندگی کے بجائے ہمیشہ طاقت کے کھیل کا حصہ رہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں تو یہ کھیل حد سے بڑھ گیا، جب ایم کیو ایم کے غیر کشمیری امیدوار انہی نشستوں پر کامیاب قرار دیے گئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے غیر کشمیری افراد کو آزاد کشمیر کے شناختی کارڈ جاری کرنا، ان کی بنیاد پر برطانیہ میں سیاسی پناہ کے دعوے کرنا اور پھر پاکستانی پاسپورٹ کے حصول پر بریڈ فورڈ قونصلیٹ کے عملے کا چونک اٹھنا ہماری سیاسی تاریخ کے وہ الم ناک مناظر ہیں جنہوں نے عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا۔ مگر جب تک ادارے خود ان بداعتمادی کے راستوں کو بند نہیں کریں گے، عوام کے بس میں کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان نشستوں کے خاتمے کا مطالبہ اب شدت اختیار کر چکا ہے۔ اگر آزاد کشمیر اور پاکستان میں شفاف انتخابات ممکن ہو جائیں تو بلاشبہ ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، جہاں قومی یکجہتی اور خوشحالی کو فروغ ملے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ واقعی اپنی ماضی کی روش بدلنے کو تیار ہے؟ 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم بٹھا کر اور سی سی ٹی وی کیمروں پر پردے ڈال کر پی ٹی آئی کو کامیاب کرایا گیا۔ پھر جب وہ جماعت قابو سے باہر ہوئی تو 2024 کے الیکشن میں فارم 47 کے ذریعے اسے زبردستی اقتدار سے باہر کیا گیا۔ جب ادارے اپنے حلف کی پاسداری اور آئین و قانون کے احترام سے روگردانی کرتے ہیں تو انجام لازمی طور پر نو مئی جیسے سانحات اور آزاد کشمیر میں پاکستان مخالف نعروں کی صورت میں نکلتا ہے۔
ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایکشن کمیٹی کے بیشتر مطالبات بالکل جائز تھے۔ عوامی مشکلات اور معاشی دباؤ کے خلاف آواز بلند کرنا حق بجانب تھا۔ مگر افسوس یہ کہ بعض علٰیحدگی پسند عناصر اور پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے ان مطالبات کو ہائی جیک کر کے پاکستان مخالف بیانیے میں بدل دیا۔ یہی وجہ بنی کہ جماعت اسلامی جیسی محب وطن اور اصولی سیاست کرنے والی جماعت کے رہنما بھی ایکشن کمیٹی سے الگ ہوگئے۔ لہٰذا کشمیری عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ مسائل کے حل کے لیے باوقار اور شائستہ طریقہ اپنایا جائے۔ اپنے ہی محسنوں اور محافظوں کو گالی دینا نہ دانشمندی ہے اور نہ ہی مسئلے کا حل۔ پاکستان کے پچیس کروڑ عوام کشمیریوں سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں، مگر افسوس کہ ہندوستان کی فنڈنگ پر چلنے والے عناصر کو یہ حقیقت کبھی سمجھ نہیں آتی۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ پاکستان کو گالی دینا دراصل اپنے سب سے بڑے محسن کی توہین ہے۔ آخرکار یہ پورا منظرنامہ ایک پیغام دے رہا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اپنی غیر آئینی مداخلت ترک کرے، حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدگی دکھائے، اور انتخابات کو شفافیت کے ساتھ منعقد کیا جائے تو نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے پاکستان میں امن، خوشحالی اور یکجہتی کی نئی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ ورنہ یہ چنگاریاں ایک دن شعلہ بن جائیں گی اور اْس وقت پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان مخالف عوام کے
پڑھیں:
عوامی ایکشن کمیٹی سے معاہدہ امن، عوامی سہولت اور خلوصِ نیت کی علامت
عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان ہونے والا معاہدہ حکومت کے خلوص، کشمیری عوام سے وابستگی اور امن کے عزم کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وہ نکات جنہوں نے آزاد کشمیر مذاکرات کامیاب بنائے
حکام کے مطابق یہ معاہدہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ تصادم نہیں بلکہ مکالمہ ہی کشمیری کاز کو مضبوط کرتا ہے۔
حکومت کا رویہحکومتِ پاکستان اور حکومتِ آزاد کشمیر نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حقیقی خیرخواہ ہیں، اور ہر مرحلے پر مذاکرات کو ترجیح دیتے ہیں۔
3 اکتوبر کے سانحات کے بعد بھی ریاست نے تحمل اور خلوص کے ساتھ مکالمے کا راستہ اپنایا تاکہ عوامی جان و مال محفوظ رہ سکے۔
قیادت کا کرداروزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کی قیادت میں طے پانے والے اس معاہدے کو خلوص، سنجیدگی اور قومی جذبے کا عملی مظہر کہا جا رہا ہے۔
حکومتی مؤقف کے مطابق کشمیری کاز تصادم یا سیاست نہیں بلکہ استحکام، انصاف اور ترقی سے مضبوط ہوگا۔
عوامی ریلیف کے اقداماتمعاہدہ عوامی ریلیف پر مبنی ہے جس کے تحت سستا آٹا، سستی بجلی، صحت کارڈ کی بحالی اور متاثرین کے لیے یکساں معاوضہ شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کامیاب مذاکرات و معاہدہ آزاد کشمیر کے عوام، پاکستان اور جمہوریت کی جیت ہے، احسن اقبال
صحت اور تعلیم میں بھی انقلابی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن میں ہر ضلع میں MRI اور CT اسکین مشینوں کی فراہمی، صحت انشورنس کی بحالی اور نئے تعلیمی بورڈز کا قیام شامل ہے تاکہ کشمیری طلباء کو ملک بھر کے برابر مواقع مل سکیں۔
گورننس ریفارمزگورننس ریفارمز کے تحت چھوٹی کابینہ، کم بیوروکریسی، غیر ضروری اداروں کا خاتمہ اور عوامی ٹیکس کے شفاف استعمال کو یقینی بنایا جائے گا۔
ترقیاتی منصوبے10 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کے ذریعے بجلی کے نظام، سڑکوں، پلوں، سرنگوں اور ہوائی اڈوں میں سرمایہ کاری ہوگی، جس سے روزگار کے مواقع بڑھنے اور معیشت کے مستحکم ہونے کی توقع ہے۔
معاہدے میں انصاف کے پہلو کو بھی اجاگر کیا گیا ہے، جس کے تحت مظاہرین اور سرکاری اہلکاروں دونوں کو یکساں معاوضہ دیا جائے گا۔
شفاف نگرانی کے لیے ایک 15 روزہ جائزہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں وفاق، آزاد کشمیر اور عوامی ایکشن کمیٹی شامل ہوگی، اور یہ کمیٹی ہر پیشرفت عوام کے سامنے شفاف انداز میں پیش کرے گی۔
معاہدے کا مرکزی پیغام یہی ہے کہ کشمیر کی ترقی اور کشمیری کاز کا دفاع صرف امن سے ممکن ہے۔
حکام کے مطابق آزاد کشمیر میں اسکول، انٹرنیٹ اور ٹرانسپورٹ کی بحالی اس بات کا ثبوت ہے کہ خلوصِ نیت اور مذاکرات کے ذریعے امن واپس لایا جا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آزاد کشمیر ایکشن کمیٹی معاہدہ