Juraat:
2025-11-19@17:14:55 GMT

 ٹرمپ منصوبے کی تعریف کے بعد دوری!

اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT

 ٹرمپ منصوبے کی تعریف کے بعد دوری!

وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جن 20 نکات کا اعلان کیا ہے وہ ہمارے نہیں ہیں اس ڈرافٹ میں تبدیلی کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ ڈرافٹ نہیں جو مسلم ممالک نے تیار کیا تھا، بلکہ اس میں غیر منظوری شدہ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اور 20 نکاتی ڈرافٹ میں تبدیلیاں ہمیں قبول نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہمیں 20 نکاتی ایجنڈا دیا گیا تو اسلامی ممالک کی طرف سے ہم نے ترمیم شدہ 20 نکاتی پلان دیا لیکن جو 20 نکاتی ڈرافٹ فائنل ہوا اس میں تبدیلیاں کی گئیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیر اعظم نے ٹرمپ کے پہلے ٹویٹ کی جواب میں ٹویٹ کیا اور اس وقت تک ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ڈرافٹ میں تبدیلیاں کی گئیں، فلسطین کے معاملے پر ہمارا وہی موقف ہے جو قائد اعظم کا تھا،انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب ممالک غزہ میں خون بندی بند کروانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کا مقصد غزہ میں جنگ بندی تھا۔

اگرچہ کئی مسلم حکومتوں نے، بشمول ہماری اپنی حکومت نے، ابتدائی طور پر 20 نکاتی غزہ ”امن” منصوبے کا خیرمقدم کیا تھا، لیکن اب اسحاق ڈار کے بیان کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور بنیامین نیتن یاہو نے مسلم دنیا کے رہنماؤں کودھوکہ دیا ہے اور جب حقیقت ان پر آشکار ہوئی یعنی فلسطینیوں کی سرنڈر، اسرائیلیوں کی بے گناہی (استثنا)، اور غزہ پر نوآبادیاتی کنٹرول تو وضاحتیں آنا شروع ہوگئیں تو ان کو اس سے دوری اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس منصوبے میں تبدیلیاں کیں جو اصل خاکے میں شامل نہیں تھیں، جس پر امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے نیویارک میں کئی مسلم ریاستوں کے رہنماؤں سے بات چیت کی تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ابتدا میں اس سمجھوتے پر بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق قطریوں نے امریکہ سے کہا تھا کہ منصوبے کے اعلان کو مؤخر کیا جائے، لیکن واشنگٹن نے اس درخواست کو واضح طور پر رد کردیا۔اگراسحاق ڈار کے بیان کے مطابق یہ درست ہے کہ اس منصوبے میں اسرائیل کی مداخلت سے ترامیم کی گئی ہیں اور تو مسلم دنیا کو اس حوالے سے اپنے آپ سے کچھ اہم سوالات کرنے ہوں گے۔اول تو یہ کہ اسرائیل کس طرح ایک ایسے معاہدے میں تبدیلیاں کرنے کے قابل ہوا جس پر کئی مسلم ریاستیں پہلے ہی متفق ہو چکی تھیں، اور امریکہ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ دوم، یہ منصوبہ فلسطینیوں کی رائے کے بغیر کیسے حتمی شکل اختیار کر گیا اور پاکستان اور دیگر ممالک نے جو فلسطینیوں کے حقوق کے علمبردار ہیں اور فلسطینی ہی وہ فریق ہیں جو اسرائیلی ظلم و تشدد سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟ اس منصوبے کا باریک بینی سے جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معاہدہ دراصل حماس کو بے اثر کرتا ہے اور فلسطینی اتھارٹی کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسرائیل سے معافی مانگے اور اپنے ”گناہوں” کا کفارہ ادا کرے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر دونوں بڑی فلسطینی جماعتیں اس ڈیل سے باہر رکھی جاتی ہیں، تو پھر غزہ کون چلائے گا؟ کیا وہ فلسطینی ”ٹیکنوکریٹس”، جنہیں مقبوضہ علاقے کا انتظام چلانا ہے، اسرائیل کے سامنے وفاداری کا حلف اٹھائیں گے اور ہمیشہ کے لیے ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے خواب سے دستبردار ہوجائیں گے؟ یہ وہ تاثر ہے جو اس شرمناک دستاویز کو پڑھ کر ملتا ہے۔مزید یہ کہ اس منصوبے میں دو ریاستی حل اور یروشلم کو فلسطینی دارالحکومت بنانے کا کوئی واضح نقشہ موجود نہیں، اس کاصرف ایک مبہم سا ذکر ہے کہ ایک قابلِ یقین راستہ نکالا جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے میں کوئی ساکھ نہیں، اور اس کے کامیاب ہونے کے امکانات تقریباً صفر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی کھلی دھمکیوں کے باوجود حماس کی جانب سے اس کو قبول کئے جانے کا امکان نہیں ، یہی وجہ ہے کہ فتح کے اندر سے بھی بے چینی کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے اس منصوبے کو مسترد کیا تو اس کا ”انتہائی افسوسناک انجام” ہوگا۔ دوسری جانب اسرائیل نے غزہ کے نہتے شہریوں پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ حماس کے جواب کا انتظار ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ تل ابیب امن کے لیے کتنا پابند عہد ہے۔ اس صورت حال میں اب مسلم رہنماؤں کو اپنے آپ سے یہ پوچھنا ہوگا کہ انہوں نے امریکہ اور اسرائیل پر اندھا اعتماد کرکے بدلے میں آخر حاصل کیا کیا؟

جہاں تک اس منصوبے سے پاکستان کی وابستگی کا تعلق ہے تو صدر ٹرمپ کی جانب سے اس منصوبے کا اعلان کئے جانے کے فوری بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اسے فلسطین میں قیام امن کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیتے ہوئے اس پرٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے انھیں امن کا داعی تک قرار دے دیاتھا جبکہ صدر ٹرمپ نے اپنی آخری کانفرنس میں انکشاف کیا تھاکہ پاکستان کس قدر گہرائی سے اس منصوبے کی تیاری کی کوشش میں شامل رہا ہے۔ٹرمپ نے کہاتھاکہپاکستان کے وزیرِ اعظم اور فیلڈ مارشل ابتدا ہی سے ہمارے ساتھ تھے اور انہوں نے ایک بیان بھی جاری کیا ہے کہ وہ اس معاہدے پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔یہ بیان اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان نے اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ منصوبے کی تشکیل میں پاکستان اکیلا نہیں تھا۔ اس 20 نکاتی امن منصوبے کی توثیق دراصل پوری مسلم دنیا کی ایک مشترکہ کاوش تھی یہ ایک نایاب لمحہ تھا جب بکھری ہوئی سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئی تھی اور پاکستان ہی نہیں تمام اہم علاقائی طاقتوں ، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، ترکی، ملائیشیا اور دیگر نے مربوط انداز میں ایک ہی فریم ورک کی حمایت کی۔ یہ ایک غیر معمولی سفارتی ہم آہنگی تھی، جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اس کوشش کی سنجیدگی کس قدر زیادہ ہے اور سب کا مشترکہ مقصد انسانی المیے کو روکنا ہے۔یہ صرف پاکستان کی یکطرفہ کوشش نہیں ہے، بلکہ یہ پورے خطے کی اجتماعی پیش رفت ہے۔ ماضی میں اس طرح کی یکجہتی ناپید رہی ہے، مگر اس مرتبہ ایک ایسا بریک تھرو سامنے آیا تھا جسے بڑے سے بڑا شکی مزاج ناقد بھی نظرانداز نہیں کرسکا۔ااس منصوبے کی صورت میں برسوں بعد پہلی بار ایک واضح روڈ میپ سامنے آیا تھا ایک آزاد فلسطینی ریاست کی جانب راستہ، جس کی پشت پر بین الاقوامی نگرانی، مسلم یکجہتی اور دباؤ کے تحت اسرائیلی قبولیت بھی شامل ہے۔
اب اسحاق ڈار کے تازہ بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ غزہ امن منصوبے سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ یہ منصوبہ اُن نکات سے مختلف ہے جو8 مسلم ممالک نے تجویز کیے تھے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ ہماری دستاویز نہیں ہے۔جبکہ وائٹ ہاؤس پر امن منصوبے کے نکات شیئر کرنے اور اس سے قبل اسرائیلی  وزیراعظم نتن یاہو اور صدر ٹرمپ کی ملاقات سے گھنٹوں پہلے ہی پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اس امن منصوبے کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ ‘میں صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتا ہوں، جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔امن منصوبے کے اعلان کے موقع پر صدر ٹرمپ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر اُن کے غزہ منصوبے کے ‘100 فیصد’ حامی ہیں۔مگر جیسے ہی اس منصوبے کی تفصیلات وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع کی گئیں تو بظاہر پاکستانی کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔اور پھر اگلے ہی روز وزیر خارجہ اسحاق ڈار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے سے کچھ فاصلہ اختیار کرتے دکھائی دیے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں وہ اہم نکات شامل نہیں جو پاکستان نے7 دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر تجویز کیے تھے۔انھوں نے کہا کہ ‘یہ اہداف ہم نے ٹرمپ کو بتائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ وہ ان کے حصول میں ہمارے ساتھ کام کریں۔’ ڈارکا کہنا ہیکہ امریکی صدر نے آٹھ ممالک کے وزرائے خارجہ سے ایک ‘قابلِ عمل حل’ دینے کا وعدہ کیا تھا۔اسحاق ڈار کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کی مداخلت کے بعد امریکی منصوبے میں تبدیلی کی گئی اور اس میں ایسی شرائط شامل کر دی گئیں جن کے تحت اسرائیل کا انخلا حماس کے ہتھیار ڈالنے سے مشروط کردیاگیاہے۔ان کا کہناہے کہ ہم نے صدر ٹرمپ کے الگ نقطہ نظر کو تسلیم کیا اور سراہا تھا، اور اس کے بعد ہم نے اپنا ایجنڈا بھی دوبارہ دہرایا تھا کہ ہم کن اہداف کے لیے پرعزم ہیں اور ہم مل کر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ساتھ یہ حاصل کریں گے۔ اور آٹھ ممالک اس پر پرعزم ہیں۔ جہاں تک ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ منصوبے کا تعلق ہے تو یہ مجوزہ منصوبہ کافی حد تک ویسا ہی جس کا اعلان جو بائیڈن نے تقریباً ایک سال پہلے کیا تھا۔سابق امریکی صدر بائیڈن کا معاہدہ اس لیے آگے نہیں بڑھ سکا تھا کیونکہ نتن یاہو نے اپنی کابینہ میں موجود افراد کے دباؤ میں آ کر اپنے مطالبات مزید بڑھا دیے تھے۔ نتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے انگریزی میں کہا تھا کہ ‘میں غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے آپ کے منصوبے کی حمایت کرتا ہوں ، جب انُ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ فلسطینی ریاست کے لیے راضی ہیں تو انھوں نے اسی وقت بلاتوقف کہا تھاکہ ‘نہیں، بالکل نہیں یہ تو معاہدے میں بھی نہیں لکھا ہے۔ لیکن ہم نے ایک بات کہی ہے۔ کہ ہم فلسطینی ریاست کے قیام پر بھرپور مزاحمت کریں گے۔’ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ نے بھی اس پر اتفاق کیا ہے۔جس سے ہم ہمارے جنگی مقاصد پورے ہو رہے ہیں نتن یاہو کے اس بیان سے ظاہرہوتاہے کہ امن معاہدے کو اس وقت تبدیل کیا جاچکاتھا ،اور پاکستان اس سے بے خبر تھا ،اس منصوبے کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے اِس بدلتے موقف کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ اچانک تبدیلی کیوں رونما ہوئی؟ ظاہر ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کی بھرپور مخالفت کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار اپنے موقف پر قائم نہیں رہ سکے۔اس منصوبے کے اعلان کے فوری بعد جس میں اسحاق ڈار کے مطابق نتن یاہو کے کہنے پر تبدیلی کی گئی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کو اس میں موجود خامیوں کا علم ہوچکا تھا لیکن لاعمل تھے تو وہ ہمارے وزیراعظم اور وزیر خارجہ ہی تھے کیونکہ منصوبے کے اعلان کے فوری بعد پاکستان میں سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی جماعتوں تک سبھی ٹرمپ کے منصوبے پر تنقید کرتے نظر آئیکہا جا رہا ہے کہ اس مجوزہ معاہدے میں دو ریاستی حل کا واضح ذکر نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اس منصوبے کو ‘اقوام متحدہ کے قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور گولان پہاڑیوں پر قبضے کو جائز قرار دینا علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن نے حکومت کی غزہ کے حوالے سے پالیسی اور ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے ‘امن منصوبے کی تعریف جو 66 ہزار فلسطینیوں کی لاشوں پر مبنی ہے’ ظالموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے اس معاہدے سے حکومت کی یہ دوری کب تک قائم رہتی ہے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: وزیراعظم شہباز شریف اسحاق ڈار نے کہا منصوبے کے اعلان فلسطینی ریاست میں تبدیلیاں اسحاق ڈار کے تبدیلیاں کی میں تبدیلی پاکستان کی ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کہا تھا کہ کی جانب سے منصوبے کا تبدیلی کی منصوبے کی اختیار کر نے کہا کہ انھوں نے نتن یاہو کے مطابق ہے کہ اس کے ساتھ کیا تھا ٹرمپ کی یاہو نے ٹرمپ کے کی گئی ہے اور کے لیے اور اس کے بعد کیا ہے

پڑھیں:

سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور کرلی گئی۔

غزہ کے لیے بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی اور غزہ میں عبوری حکومت کے قیام کے نکات بھی شامل ہیں۔

قرارداد کے حق میں پاکستان سمیت 13 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ روس اور چین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

ٹرمپ منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ کی تعمیر نو بھی شامل ہے۔

امریکی مندوب نے کہا کہ تاریخی اور تعمیری قرارداد منظور ہوئی ہے، مصر، قطر، اردن، سعودی عرب، یواے ای، ترکیے، انڈونیشیا اور پاکستان کے شکر گزار ہیں۔

امریکی مندوب کا کہنا تھا کہ ہم سب اکٹھے ہوئے، صورتحال کی سنگینی کا ادراک کیا اور اقدامات کیے، غزہ کے استحکام کے لیے آج کی قرارداد اہم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور
  • سلامتی کونسل: ٹرمپ غزہ امن منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور
  • سلامتی کونسل ، ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے حق میں قرارداد منظور،حماس کی مخالفت، پاکستان کی حمایت
  • سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور
  • غزہ منصوبےکی قرارداد کےحق میں ووٹ دیا، مقصد اسرائیلی فورسز کا مکمل انخلا، فلسطینیوں کا قتل عام روکنا ہے: پاکستان
  • ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں: پاکستان
  • غزہ منصوبےکی قرارداد کےحق میں ووٹ دیا، مقصد اسرائیلی فورسز کا مکمل انخلا، فلسطینوں کا قتل عام روکنا ہے: پاکستان
  • پاکستان صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی مکمل حمایت کرتا ہے، عاصم افتخار
  • وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریف
  • اردن کے شاہ عبداللہ کا ٹلہ کنگ فائرنگ رینج کا دورہ، پاک فوج کی دفاعی صلاحیتوں کی تعریف