موضوع: غزہ امن منصوبے کا مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں تازہ ترین مسائل کے بارے میں نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: غزہ امن منصوبے کا مستقبل
تجزیہ نگار:علامہ ڈاکٹر سید میثم ہمدانی
میزبان: سید انجم رضا
پیشکش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
خلاصہ گفتگو واہم نکات:
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں دنیا بھر میں جنگوں کے خاتمہ کی بات کی تھی
اس لئے اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کے لئے بہت اہم ہے کہ امن معاہدہ کروایا جائے
لیکن سوائے پاک بھارت جنگ کو رکوانے کے لئے کچھ بھی نہ کرسکا
ٹرمپ نوبل پرائز کے حصول کے لئے بھی بہت بے چین ہے
جب کہ عالمی رائے عامہ اس وقت اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کے بہت خلاف ہوچکی ہے
پوری دٗنیا میں امریکہ و اسرائیل کے لئے نفرت بڑھتی جارہی ہے
چند مسلمان حکمران بھی فیس سیونگ کے لئے جنگ بندی کی بات کررہے ہیں
ٹرمپ اور صیہونی حکومت کو کس نے حق دیا ہے کہ اپنی تجاویز معاہدہ کے نام پہ غزہ پہ مسلط کردیں
یہ نام نہاد امن معاہدہ انتہائی یکطرفہ جارحانہ تجاویز پہ مشتمل ہے
نام نہاد امن معاہدہ ابہامات پہ مشتمل دستاویز ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ صیہونی حکومت اور فلسطینی بھی اس معاہدہ کو نہیں مان سکتے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ 20 نکاتی ایجنڈا کئی ممالک کے نزدیک قابل قبول تو ہو سکتا ہے مگر قابل عمل نہیں۔
سچ بات تو یہ ہے کہ یہ علاقہ دنیا کا دل ہے، جس کایہاں پہ تسلط وہ دنیا پہ حکم چلاسکتا ہے
عالمی ضرورت کی توانائی اور انرجی کے بہترین ذخائر اس خطہ زمین میں موجود ہیں
تیل اور گیس کے بہترین ذخائر اسی علاقے میں پائے جاتے ہیں
سرمایہ دار ممالک اور ان کے حکمرانوں کی ہمدردی غزہ کے عام سے نہیں ہے
استعماری حکمران فقط اس علاقے کے قدرتی وسائل پی اپنی حریص نگاہیں جمائے ہوئے ہیں
پوری دینا کے استعماری پٹھو حکمران شرف ٹرمپ کی خوشنودی کے لئے بے چین رہتے ہیں
آذربائیجان کا ٹرانسپورٹ راستے کانام ٹرمپ کوریڈور رکھ دینا خوشامدی پن کی انتہا ہے
نے ت ن ی ا ہ و کا ٹرمپ کو سمندر میں پارک بنانے کے منضوبے کی دعوت دینا بھی ایسی ہی کاروباری خوشامدہے
آنے والے وقت میں یہ نام نہاد امن معاہدہ ردی کی ٹوکری کا حصہ بنے گا
تجربہ تو یہ ہے گزشتہ ستر برس میں بھی استعمار اپنی سوچ اس علاقے پہ مسلط نہیں کرسکا
تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ فلسطینیوں غلیلوں اور پتھروں سے لڑائی لڑ کر بھی قبضہ قبول نہیں کیا
پاکستان کا موقف بانی پاکستان کے بتائے ہوئے راستے فلسطینی عوام کی حمایت ہے
پاکستانی میں چند مٹھی بھر بے حمیت لوگ اسرائیل کے نرم گوشہ رکھتے ہیں
پاکستان میں اس وقت دینی سیاست کی جماعتیں تو فلسطین کی حمایت کھل کر کرتی ہیں
پاکستان میں لبرل جماعتوں کو عالمی سطح پہ لبرل حلقوں کے اسرائیل مخالف تحریک کو اپنے لئے رہنما بنا نا چاہیئے
پاکستان کی پارلیمنٹ کو بانی پاکستانی کے موقف کی روشنی میں اسرائیل کے حوالے قرادار منظور کرنا چاہیئے
صمود فلوٹیلا پہ سوار انسانی حقوق کے نمائندگان پہ اسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے
صمود فلوٹیلا پہ اسرائیلی حملہ نے ایک بار پھر صیہونی مکروہ چہرے کو بے نقاب کردیا ہے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امن معاہدہ کے لئے
پڑھیں:
ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے پر جلد ردعمل دیں گے، حماس رہنما ابو نزال
حماس کے ایک سینئر رہنما نے کہا ہے کہ فلسطینی تنظیم جلد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جاری اسرائیل کی تقریباً 2 سالہ جنگ ختم کرنے کے لیے پیش کیے گئے منصوبے پر اپنا ردعمل دے گی۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق حماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے کہا کہ گروپ اس منصوبے پر غور کر رہا ہے تاکہ اسرائیل کی جنگ کو روکا جا سکے اور جلد ہی اپنے مؤقف کا اعلان کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور فلسطینی مزاحمت کی نمائندہ جماعت، حماس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسا مؤقف اپنائے جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہو۔
یہ بھی پڑھیں:
’ہم اس منصوبے کو اس منطق کے تحت نہیں دیکھ رہے کہ وقت ہماری گردن پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے۔‘
اس ہفتے کے آغاز میں وائٹ ہاؤس نے 20 نکاتی منصوبہ جاری کیا، جس میں فوری جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے، مرحلہ وار اسرائیلی انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا اور ایک عبوری بین الاقوامی حکومت کے قیام کی تجاویز شامل ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو حماس کو تین سے چار دن کی مہلت دی کہ وہ اس منصوبے پر فیصلہ کرے۔
مزید پڑھیں:
اگرچہ فلسطینی عوام جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے حق میں زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے۔
ماضی کی بات چیت میں حماس نے مکمل اسرائیلی انخلا، مستقل جنگ بندی اور بے گھر خاندانوں کی واپسی کی ضمانت پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالطیف نے پیرس میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ ان کا ملک قطر اور ترکی کے ساتھ مل کر حماس کو اس منصوبے کی منظوری پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے اسرائیل کی روزانہ کی جارحیت کو ’نسلی تطہیر اور نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔
ادھر وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ توقع کرتے ہیں کہ حماس اس منصوبے کو قبول کرے گی، بصورت دیگر اس کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔
امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ جنگ بندی میں رکاوٹ کی اصل وجہ حماس ہے۔
مزید پڑھیں:
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی چیف کاجا کالاس نے بھی حماس سے منصوبے کو قبول کرنے، یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ان کا ملک صرف اسی صورت منصوبے کی حمایت کرے گا جب یہ دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت کرے۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئیل بارو نے کہا کہ حماس کو ہتھیار ڈال دینے چاہییں کیونکہ وہ یہ جنگ ہار چکے ہیں۔
مزید پڑھیں:
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ مشرق وسطیٰ کو بیرونی قوتوں کے ذریعے نئے انداز سے تشکیل دینے کی مغربی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے، جو ماضی میں عراق جیسے ممالک میں ناکام ہو چکی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس منصوبے میں ٹونی بلیئر جیسے متنازع کرداروں کی شمولیت خطے کے عوام کے خدشات میں مزید اضافہ کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اسرائیلی انخلا امریکی صدر بے دخلی حماس خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ محمد نزال مشرق وسطیٰ نسل کشی نسلی تطہیر وائٹ ہاؤس یورپی یونین