گلوبل وارمنگ،ساحلی شہر ڈوبنے کے خطرات
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
ہماری دنیا اس وقت ڈوب رہی ہے اور اس کے ڈوبنے کی رفتار بہت تیز ہے ۔ ہمارے ساحلی شہر ڈوب رہے ہیں اس کی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔ 1880 سے لے کر 2015تک کے 135سالوں میں امریکی موسمیاتی ادارے کے مطابق سمندر میں پانی کا لیول 21سے 24سینٹی میٹر بلند ہو چکا ہے ۔ اور جب کہ پچھلے 15سے 10برسوں میں پانی مزید بلند 11سے 12سینٹی میٹر ہو گیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کا کہنا ہے کہ 2100 تک 40کروڑ لوگ جو ساحلی شہروں میں آباد اور سمندر سے ایک کلومیٹر دور ہیں انھیں فوری طور پر اپنے شہروں کو چھوڑنا ہوگا ۔ یعنی ایک ارب لوگ 2050 تک گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بے گھر ہو جائیں گے ۔
بینکاک اس کی ایک مثال ہے یہ شہر آہستہ آہستہ پانی میں ڈوب رہا ہے کیونکہ اس کے نیچے نرم مٹی آہستہ آہستہ گھل رہی ہے ۔ 2023 تک بینکاک کا بیشتر حصہ پانی میں ڈوب جائے گا، نہ صرف بینکاک بلکہ جکارتہ کو بھی یہی صورت حال درپیش ہے ۔ مستقبل قریب میں جو شہر ڈوبنے جا رہے ہیں ان میں ممبئی ، کلکتہ ، ڈھاکا، نیو اورلینز ، شنگھائی ، نیویارک ، میامی ، بوسٹن ، سان فرانسسکو اور کراچی شامل ہیں، یہ شہر جلد ڈوبنے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ گلوبل وارمنگ پر فوری طور پر قابو پانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس پر قابو پانے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔
اس کا حل سائنسدانوں نے یہ ڈھونڈا ہے کہ سمندروں کے گرد ساحلی پٹی پر دیواریں کھڑی کرنا شروع کردی جائیں ۔ فرض کریں اگر کراچی میں سمندر کے گرد دیوار کھڑی کریں تو 50کلو میٹر کی دیوار پر 3سے 6بلین امریکی ڈالر خرچہ آئے گا۔لیکن پاکستان اتنا زیادہ معاشی بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ سائنسدانوں کے نزدیک اس سے بہتر حل یہ ہے کہ ہم سمندر پر تیرتے ہوئے شہر بنا لیں ۔ مالدیپ جو بحرہند میں واقع ہے اور ایک ہزار جزیروں پر مشتمل ہے اس کا دارالحکومت مالے ہے ۔ 2022میں اس کی آبادی 2لاکھ 11 ہزار 9سو کے قریب تھی ۔
اب یہ آبادی شدید خطرے میں آگئی ہے ۔ مالدیپ نے ایک ڈچ کمپنی جس کا نام واٹر اسٹوڈیو ہے، سے معاہدہ کیا ہے جو مالدیپ کے لیے سمندری شہر تعمیر کرے گی جو 2027ء میں بن جائے گا۔ جس میں 20ہزار لوگوں کی گنجائش ہوگی اور یہ مالے سے 10کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا ۔اس شہر میں عمارتیں رنگین ہوں گی، جو دیکھنے میں انتہائی خوبصورت ہوں گی، یہ شہر خود کفیل ہو گا۔ اس کی اپنی پاور ہو گی جو سولر پینل سے حاصل کی جائے گی، اس شہر میں سمندر کے پانی کو میٹھاکرنے کی ٹیکنالوجی بھی ہوگی، اس پانی کو گرمیوں میں گھروں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا، اس کے علاوہ کھانے کے لیے مچھلی اور دوسری سمندری آبی حیات بھی میسر ہوںگی ۔
اسی طرح اس منصوبے پر عمل جاپان میں بھی ہونے جارہا ہے کیونکہ جاپان میں جگہ کم ہے اور آبادی زیادہ ہے اس لیے جاپان بھی سمندر پر شہر بنانے جا رہا ہے ۔ اس کا نام ڈوجن سٹی رکھا گیا ہے جو سمندر میں تیرے گا ، اس میں دس ہزار لوگوں کی گنجائش ہو گی۔ اس کی باؤنڈری 4کلومیٹر پر مشتمل ہوگی۔ اس میں مختلف قسم کے پودے لگائے جائیں گے جن کی سمندری کھارے پانی میں افزائش ہو سکے گی۔ جس میں پاور سسٹم ایسا بنے گا جس میں سولر پینل ونڈ ٹربائن بھی استعمال ہوگی ۔ اس میں کمپیوٹر سسٹم اور AIڈیٹا سینٹر بھی بنیں گے اور ان کی کولنگ کا بھی پورا بندوبست کیا گیا ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ کھارے پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے اس شہر میں جومیٹریل استعمال ہو گا وہ سمندری کھارے پانی سے محفو ظ رہ سکے چنانچہ انھوں نے ایک ایسا میٹریل ایجاد کر لیا ہے جس کو زنگ نہیں لگے گا اور اس کا اسٹرکچر اسٹیل سے بھی زیادہ مضبوط ہے اور یہ بہت زیادہ ہلکا بھی ہو گا اس میٹریل سے بنے گھر بہت زیادہ مضبوط اور پائیدار ہونگے ۔ اس شہر کے لیے ایک اور ٹیکنالوجی بھی استعمال کی گئی ہے اس کو سکریسی کہا جاتا ہے، اس ٹیکنالوجی کے ذریعے سمندری پانی کے اندر کیلشیم کو جمع کیا جائے گا، یہ کیلشیم اس میٹریل پر ایک تہہ جما دے گا، جس سے اسے زنگ نہیں لگے گا۔
کورل ریف یعنی آبی جاندار اس کیلشیم کے جمع ہونے کی وجہ سے تمام آبی حیات اس کے گرد جمع ہو جائیں گے مچھلی وغیرہ، اس طرح شہریوں کی خوراک کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ ایک اور مثال کوریا کے جنوب میں سمندر پر ایک شہر بنایا جارہا ہے اس میں 75ہزار لوگ آباد ہو سکیں گے ۔
اس میں چھوٹے چھوٹے تکونی ماڈل گھر بنیں گے جس میں اضافہ بھی کیا جا سکے گا۔ اسی طرح ایک اور شہر سمندر میں اٹالین اور کینیڈین تعاون سے بنایا جارہا ہے۔ اس میں پچاس ہزار لوگ رہ سکیں گے جس کی گنجائش 2لاکھ تک بڑھائی جا سکے گی۔ اب انسان کا رجحان سمندر کی طرف ہے۔ کیونکہ زمین پر جس طرح کی آفات آرہی ہیں انسان کے پاس اب اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ سمندروں کی طرف جائے کیونکہ ٹمپریچر مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ اب ہمارے پاس سمندروں کی طرف جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، ہمارے پاس بہت بڑا سمندر ہے جس پر ہم تیرتے ہوئے شہر بنا سکتے ہیں ۔
کراچی والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ! ایک طرف وہ زلزلے کی پٹی پر واقع ہیں اور بلند وبالا عمارتیں تو دوسری طرف سمندر کا پانی انھیں غرق کرنے کے لیے تیار ہے ۔ ان کے پاس وقت بہت تھوڑا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گلوبل وارمنگ ہزار لوگ جائے گا کے لیے ہے اور
پڑھیں:
نائٹ شفٹ ڈیوٹی گردوں میں پتھری کے خطرات کو کس طرح بڑھا دیتی ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں لاکھوں افراد نائٹ شفٹ ڈیوٹی کرتے ہیں، لیکن ایک تازہ تحقیقی مطالعہ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ رات کی شفٹ میں مسلسل کام کرنا گردوں کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتا ہے۔
جریدے Mayo Clinic Proceedings میں شائع ہونے والی اس جامع تحقیق میں 2 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ افراد کو تقریباً 14 سال تک فالو اپ کیا گیا اور حیران کن نتائج سامنے آئے۔
مطالعے کے مطابق وہ افراد جو دن کے بجائے رات کی شفٹ میں کام کرتے ہیں، ان میں گردوں کی پتھری بننے کا خطرہ تقریباً 15 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مستقل طور پر یا زیادہ تر نائٹ شفٹ میں ڈیوٹی دیتا ہے تو اس میں یہ خطرہ 22 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ صرف نائٹ شفٹ کا نتیجہ نہیں بلکہ کئی طرزِ زندگی اور جسمانی عوامل اس خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔
انسانی جسم کی قدرتی گھڑی یعنی “سرکیڈین ردم” رات اور دن کے معمولات کے مطابق کام کرتی ہے۔ جب یہ نظام متاثر ہوتا ہے تو گردوں کے کام کرنے کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔ رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد اکثر پانی کم پیتے ہیں، جس سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے اور پیشاب گاڑھا ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معدنیات جمع ہوکر گردوں میں پتھری کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ نائٹ شفٹ کرنے والے اکثر نیند کی کمی، بے ترتیبی، زیادہ وزن، ناقص غذا اور سگریٹ نوشی جیسے مسائل کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ یہ تمام عوامل گردوں پر اضافی دباؤ ڈالتے ہیں اور پتھری کے خطرات بڑھا دیتے ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ جسمانی سرگرمی کی کمی اور نمکین غذا کا زیادہ استعمال اس خطرے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کو خاص طور پر اپنے پانی پینے کے معمولات پر توجہ دینی چاہیے، متوازن غذا اختیار کرنی چاہیے اور جسمانی سرگرمی بڑھانی چاہیے تاکہ گردوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ ساتھ ہی نیند کا خاص اہتمام بھی ضروری ہے، کیونکہ نیند کی کمی جسم کے ہارمونی نظام کو متاثر کر کے نمکیات اور پانی کے توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔
یہ تحقیق ایک بار پھر یہ حقیقت سامنے لاتی ہے کہ نائٹ شفٹ ڈیوٹی صرف جسمانی تھکن یا نیند کی کمی کا مسئلہ نہیں بلکہ گردوں سمیت دیگر کئی اعضا کے لیے بھی طویل المدتی خطرات پیدا کر سکتی ہے۔