data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

قطب شمالی کی پگھلتی برف جہاں دنیا کے لیے ماحولیاتی خطرات بڑھا رہی ہے، وہیں چین نے اسی تبدیلی کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے عالمی تجارت میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق بیجنگ نے ’’قطبی شاہراہِ ریشم‘‘ (Polar Silk Road) کے نام سے ایک نیا بحری راستہ فعال کر دیا ہے، جس کے ذریعے اب چینی سامان یورپ تک پہلے سے کہیں تیز رفتاری سے پہنچ سکے گا۔

یہ منصوبہ گزشتہ کئی برسوں سے چین کی ’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘‘ کا حصہ تھا، مگر 25 ستمبر کو یہ خواب حقیقت میں بدل گیا، جب ننگبو بندرگاہ سے ’’استنبول برج‘‘ نامی بحری جہاز یورپ کے لیے روانہ ہوا۔

یہ جہاز ’’نارتھرن سی روٹ‘‘ سے گزرتے ہوئے 12 اکتوبر کو برطانوی بندرگاہ فیلکس اسٹو پہنچے گا۔ اس طرح چین نے پہلی بار عملی طور پر قطبی بحری راستے کے ذریعے اپنا تجارتی سامان یورپ بھجوانا ممکن بنا دیا ہے۔

چین کے لیے اس نئے راستے کا سب سے بڑا فائدہ وقت اور لاگت کی بچت ہے۔ ماضی میں چینی جہازوں کو نہرِ سوئز کے ذریعے یورپ پہنچنے میں تقریباً 40 دن لگتے تھے، جب کہ ’’قطبی شاہراہِ ریشم‘‘ کے ذریعے یہی سفر صرف 18 سے 20 دن میں مکمل ہو جائے گا۔ یہ فرق عالمی تجارت کے لیے ایک بڑی پیشرفت ہے، جو لاگت میں نمایاں کمی اور ترسیل کی رفتار میں دوگنا اضافہ کرے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس راستے کا ایک اہم چیلنج بھی ہے کہ سردیوں کے دوران قطب شمالی میں برف دوبارہ جم جانے کے باعث یہ روٹ سال بھر کھلا نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود ماہرین کے مطابق موسمی تبدیلیوں کے تسلسل سے مستقبل میں یہ راستہ مستقل طور پر قابلِ استعمال ہو سکتا ہے۔

چینی میڈیا کے مطابق ’’قطبی شاہراہِ ریشم‘‘ نہ صرف چین اور یورپ کے درمیان تجارتی وقت کم کرے گی بلکہ روس، اسکینڈے نیویا اور شمالی بحرِ اوقیانوس کے ممالک کے لیے بھی نئی اقتصادی راہیں کھول دے گی۔

بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ روٹ مستحکم ہو گیا تو عالمی تجارت کا توازن بدل جائے گا اور نہرِ سوئز پر انحصار کم ہو جائے گا، جس کا اثر مشرقِ وسطیٰ کی معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے ذریعے کے لیے

پڑھیں:

اسپینش بحری جہاز کے ملبے سے 10 لاکھ ڈالرز مالیت کا خزانہ دریافت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

فلوریڈا: امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحلی پانیوں سے غوطہ خوروں کی ایک ٹیم نے 10 لاکھ ڈالر مالیت کا خزانہ دریافت کیا ہے، جو 18 ویں صدی میں سمندر برد ہونے والے ایک اسپینش بحری جہاز سے برآمد ہوا۔

کمپنی کے مطابق یہ خزانہ ایک ہزار سے زائد سونے اور چاندی کے سکوں پر مشتمل ہے، جو اُس دور میں اسپین کے زیر تسلط ممالک بولیویا، میکسیکو اور پیرو میں ڈھالے گئے تھے۔ ان سکوں میں سے کچھ پر آج بھی تاریخ اور ٹیکسال کے نشانات واضح طور پر پڑھے جا سکتے ہیں۔

تاریخی ریکارڈ کے مطابق جولائی 1715 میں اسپینش بحری بیڑا قیمتی دھاتیں اور جواہرات لے کر واپس اسپین جا رہا تھا کہ سمندری طوفان کی زد میں آکر غرق ہوگیا۔ اس خزانے کے کچھ حصے ماضی میں بھی دریافت ہوتے رہے ہیں، تاہم حالیہ دریافت اپنی مالیت اور حالت کے باعث غیرمعمولی قرار دی جا رہی ہے۔

کمپنی نے بیان میں کہا کہ “یہ صرف خزانے کی بازیابی نہیں بلکہ اس سے جڑی تاریخی کہانیوں کی دریافت بھی ہے۔” مہم کے دوران زیرآب میٹل ڈیٹیکٹرز اور خصوصی کشتیوں کا استعمال کیا گیا۔

ریاستی قوانین کے مطابق فلوریڈا کے سرکاری پانیوں سے ملنے والا خزانہ ریاست کی ملکیت تصور ہوتا ہے۔ اسی ضابطے کے تحت اس قیمتی دریافت کا 20 فیصد حصہ حکومت کے پاس جائے گا، جبکہ بقیہ خزانہ کمپنی اور اس کے شراکت داروں میں تقسیم کیا جائے گا۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ انہیں مکمل قید تنہائی میں ڈالا جائے گا، علیمہ خان
  • شمالی علاقوں میں برفباری شروع، سیاحوں کو کہاں تک جانے کی اجازت ہے؟
  • چین نے ’’قطبی‘‘شاہراہ ریشم بنا ڈالی، جہاز رانی میں انقلاب
  • اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں نہ جنگ کا راستہ اپنانے کا ارادہ: ایاز صادق 
  • ٹرمپ امن معاہدے میں اسرائیل کا راستہ نہیں روکا گیا(مولانا فضل الرحمان)
  • اسرائیل کے خلاف مسلسل بین الاقوامی بحری مزاحمت
  • شمالی کوریا بڑی فوجی پریڈ کی تیاری کر رہا ہے‘ جنوبی کوریا
  • ابھی تک واضح نہیں کہ کچھ افراد صیہونی بحری فوج کی حراست میں ہیں یا نہیں ؟
  • اسپینش بحری جہاز کے ملبے سے 10 لاکھ ڈالرز مالیت کا خزانہ دریافت