قطب شمالی کی برف پگھلنے سے چین نے تجارتی راستہ بنا ڈالا، نئی تاریخ رقم
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قطب شمالی کی پگھلتی برف جہاں دنیا کے لیے ماحولیاتی خطرات بڑھا رہی ہے، وہیں چین نے اسی تبدیلی کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے عالمی تجارت میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق بیجنگ نے ’’قطبی شاہراہِ ریشم‘‘ (Polar Silk Road) کے نام سے ایک نیا بحری راستہ فعال کر دیا ہے، جس کے ذریعے اب چینی سامان یورپ تک پہلے سے کہیں تیز رفتاری سے پہنچ سکے گا۔
یہ منصوبہ گزشتہ کئی برسوں سے چین کی ’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘‘ کا حصہ تھا، مگر 25 ستمبر کو یہ خواب حقیقت میں بدل گیا، جب ننگبو بندرگاہ سے ’’استنبول برج‘‘ نامی بحری جہاز یورپ کے لیے روانہ ہوا۔
یہ جہاز ’’نارتھرن سی روٹ‘‘ سے گزرتے ہوئے 12 اکتوبر کو برطانوی بندرگاہ فیلکس اسٹو پہنچے گا۔ اس طرح چین نے پہلی بار عملی طور پر قطبی بحری راستے کے ذریعے اپنا تجارتی سامان یورپ بھجوانا ممکن بنا دیا ہے۔
چین کے لیے اس نئے راستے کا سب سے بڑا فائدہ وقت اور لاگت کی بچت ہے۔ ماضی میں چینی جہازوں کو نہرِ سوئز کے ذریعے یورپ پہنچنے میں تقریباً 40 دن لگتے تھے، جب کہ ’’قطبی شاہراہِ ریشم‘‘ کے ذریعے یہی سفر صرف 18 سے 20 دن میں مکمل ہو جائے گا۔ یہ فرق عالمی تجارت کے لیے ایک بڑی پیشرفت ہے، جو لاگت میں نمایاں کمی اور ترسیل کی رفتار میں دوگنا اضافہ کرے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس راستے کا ایک اہم چیلنج بھی ہے کہ سردیوں کے دوران قطب شمالی میں برف دوبارہ جم جانے کے باعث یہ روٹ سال بھر کھلا نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود ماہرین کے مطابق موسمی تبدیلیوں کے تسلسل سے مستقبل میں یہ راستہ مستقل طور پر قابلِ استعمال ہو سکتا ہے۔
چینی میڈیا کے مطابق ’’قطبی شاہراہِ ریشم‘‘ نہ صرف چین اور یورپ کے درمیان تجارتی وقت کم کرے گی بلکہ روس، اسکینڈے نیویا اور شمالی بحرِ اوقیانوس کے ممالک کے لیے بھی نئی اقتصادی راہیں کھول دے گی۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ روٹ مستحکم ہو گیا تو عالمی تجارت کا توازن بدل جائے گا اور نہرِ سوئز پر انحصار کم ہو جائے گا، جس کا اثر مشرقِ وسطیٰ کی معیشت پر بھی پڑ سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کراچی پورٹ پر عالمی معیار کی بنکرنگ سروس کا باضابطہ آغاز ہوگیا ہے، وزیر بحری امور
وزیرِ بحری امور محمد جنید انوار چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بنکرنگ کے لیے تاریخ کا پہلا لائسنس جاری کر دیا گیا ہے، جس کے بعد کراچی پورٹ پر عالمی معیار کی بنکرنگ سروس کا باضابطہ آغاز ہوگیا ہے۔
وزیرِ بحری امور کے مطابق متعدد بین الاقوامی کمپنیوں نے بھی بنکرنگ لائسنس کے حصول میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے، جس سے مستقبل میں ملکی پورٹس سے اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی سروس کے تحت جہازوں کو بین الاقوامی معیار کا فیول سپلائی نظام فراہم کیا جائے گا، جو پاکستان کی میری ٹائم صنعت کے لیے اہم سنگِ میل ہے۔
جنید انوار چوہدری نے بتایا کہ عالمی معیار کی یہ بنکرنگ سروس وزیرِ اعظم کی خصوصی ہدایات پر شروع کی گئی ہے، جس سے کراچی پورٹ کی علاقائی مسابقت میں نمایاں اضافہ ہوگا اور غیر ملکی شپنگ لائنز کی آمد بھی بڑھے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بنکرنگ آپریشنز کے ذریعے ملک کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوگا جبکہ کراچی پورٹ میں عالمی حفاظتی اور آپریشنل اسٹینڈرڈز بھی مکمل طور پر نافذ کر دیے گئے ہیں۔
وزیر بحری امور کے مطابق، اس نئی سہولت کے نتیجے میں میری ٹائم لاجسٹکس، سپلائیز اور جہازوں کی مرمت کے شعبوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، جب کہ ایندھن کے معیار، دستاویزات اور شفافیت پر عالمی اصولوں کی مکمل پابندی یقینی بنائی جائے گی۔