امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا اور کینیڈا کے درمیان تجارتی مذاکرات ’پیچیدہ‘ ہیں، تاہم ان کا یقین ہے کہ مستقبل میں ہونے والا کوئی بھی معاہدہ کینیڈا کو بہت خوش کرے گا۔

وائٹ ہاؤس میں کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی کے ساتھ ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ گاڑیاں بنانے والی کینیڈین کمپنیاں امریکی صنعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے حریف بن گئے ہیں۔

مزید پڑھیں:پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ، مشتعل لوگوں کا ایکواڈور کے صدر پر مبینہ قاتلانہ حملہ

کارنی نے اعتماد ظاہر کیا کہ دونوں ممالک امریکا کے ساتھ ایک بہترین معاہدہ طے کرلیں گے۔

امریکا نے اس وقت کینیڈین درآمدات پر 35 فیصد محصولات عائد کر رکھی ہیں، جبکہ لوہا اور اسٹیل پر بالترتیب 50 اور 25 فیصد ڈیوٹیز لگائی گئی ہیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ امریکا اور کینیڈا کے درمیان قدرتی مسابقت موجود ہے لیکن دونوں اقوام کے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔

مزید پڑھیں:نوبیل امن انعام 2025: ٹرمپ کے امکانات معدوم، مگر کون ہوگا فاتح؟

ملاقات خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی، جس میں ٹرمپ نے کارنی کو سخت مگر مضبوط مذاکرات کار قرار دیا، جبکہ کارنی نے صدر ٹرمپ کو تبدیلی لانے والا صدر قرار دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا اور کینیڈا ٹرمپ ٹیرف کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی وائٹ ہاؤس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا اور کینیڈا ٹیرف کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی وائٹ ہاؤس امریکا اور کینیڈا کے درمیان

پڑھیں:

قبضہ مافیا

یہ خبر حیران کن تھی لیکن مصدقہ تھی۔ سولجر بازار کراچی میں واقع جفلرسٹ گرلز سیکنڈری اسکول کی عمارت کو مخدوش قرار دے کر اس پر تالے ڈال دیے گئے۔ یہ تالے محکمہ تعلیم کی اجازت سے یا ان کو مطلع کیے بنا ہی پڑ گئے حیران کن بات یہ بھی ہے کہ جب ہفتے کی صبح اساتذہ اور طالبات اسکول پہنچیں تو اسکول میں تالے لگے ہوئے تھے، لہٰذا اسکول کے باہر ہی اسمبلی لگائی گئی اور سب اپنے گھروں کو چلے گئے۔

سولجر بازار کے اس علاقے میں واقع مکینوں کا کہنا تھا کہ جمعہ کی رات آٹھ بجے اسکول سیل کر دیا گیا تھا۔ اس خبر کے مطابق اسکول مخدوش تھا جب کہ اسکول کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انھیں اس سلسلے میں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا تھا جب کہ عمارت بھی اتنی مخدوش نہ تھی کہ سیل کیا جاتا۔

اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اسکول کی عمارت پر کئی برسوں سے قبضے کی کوششیں کی جا رہی تھیں، ایک خبر یہ بھی سرگرم ہے کہ کے بی سی اے ایس اس عمل میں حصہ لیتے ہوئے بچوں کو کہیں اور منتقل کرانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے اور اسکول کی کروڑوں کی زمین لینڈ مافیا کے بڑے سے پیٹ کے حوالے۔

یہ اسکول 1931 میں قائم کیا گیا تھا، ایک پرانی خبر کے مطابق اس اسکول کو تاریخی ورثہ قرار دیا گیا تھا لیکن 2017 کے اپریل کے مہینے میں نو سے دس تاریخ کی درمیانی شب کو قبضہ مافیا نے اس کے دو کمرے گرا دیے تھے اس خبر کو میڈیا نے نشرکیا اور وزیر اعلیٰ سندھ نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور اس وقت کے ایس ایچ او سولجر بازار کو اسی سلسلے میں معطل بھی کر دیا گیا تھا، یہ کوئی عام خبر نہیں تھی بلکہ بہت بڑا سوالیہ نشان تھا کہ ہمارے شہر کراچی میں آخر ہو کیا رہا ہے؟

سولجر بازار سے ملحقہ علاقوں میں بھی عجیب و غریب سرگرمیاں نظر آتی ہیں جو خاص کر ان قدیم عمارات سے متعلق ہیں جن کا والی وارث کوئی نہیں یا جنھیں اس زمانے کے امیر حضرات بند کر کے بیرون ملک جا چکے ہیں۔

اب انھیں کیا خبر کہ شہر کی مصروف سڑک کے کنارے جس گھر کو وہ تالا لگا کر اپنے تئیں بند کر کے چلے گئے ہیں کہ یہ گھر تو ان کا ہی ہے اس کے کاغذات میں بھی ان کا نام ہی درج ہے کہ اپنا ملک اور اپنی زمین، پر وہ بھول بیٹھے کہ اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ 

ان کے گھر کے تالے ٹوٹ چکے ہیں جہاں کبھی پرانی کار کھڑی ہوتی تھی وہاں اب پرانی بدصورت بس کھڑی ہے، کون جانے کہ سڑک سے گزرتے کس کو پڑی ہے کہ وہ معلومات حاصل کرے کہ جناب آپ کون ہیں؟ جو اس گھر میں اچانک سے ٹپک پڑے ہیں یا دھیرے دھیرے آکاس بیل کی مانند جکڑ رہے ہیں۔

یہ زمین شہر کے بیچوں بیچ انتہائی اہمیت کی حامل ہے جہاں کروڑوں کا ایک اپارٹمنٹ دستیاب ہے، پر لالچ اور مافیا۔۔۔۔ جو کسی بھی صورت میں کسی بھی معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔

ہمارے یہاں قبضہ گروپ نے پورے ملک میں اپنے شکنجے کس کر رکھے ہیں چاہے لاہور ہو یا کراچی، سکھر ہو یا شیخوپورہ ان کے قصے ہم اخبارات اور سوشل میڈیا پر سنتے رہتے ہیں۔

اسکول ہوں یا قبرستان کوئی جگہ ان کے قبضے سے محفوظ نہیں۔ لیکن یہ کس طرح اپنے ملک اور معاشرے میں منفی تاثرات ابھار رہے ہیں۔ لوگوں میں بدامنی اور بے اعتمادی کی فضا نے اداروں پر سے اپنا اعتماد اٹھا دیا۔

ہمارے یہاں قبضہ مافیا نے مختلف قسم کے روپ اختیار کر رکھے ہیں۔ کوئی غنڈہ مافیا کے ماتحت چلتے ہیں تو کچھ غریب بن کر جھونپڑیاں ڈال لیتے ہیں۔ بظاہر کچی آبادی لیکن اصل حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

یہ صورت حال اسکیم 33 جو کراچی کی ایک بڑی رہائشی اسکیم ہے جہاں مختلف اداروں اور کمیونٹیز کی ہاؤسنگ اسکیمز ہیں لیکن کئی ادارے جن میں خاص کر پوسٹ آفس سوسائٹی قابل ذکر ہے قبضہ مافیا کی جکڑ میں ہے۔ اس کی قیمتی زمین جن میں سیکٹر 25A اور 26A شامل ہے ناجائز تجاوزات کی نظر ہے۔

2005 میں آنے والے سیلاب سے اندرون سندھ کے جو علاقے متاثر ہوئے تب کراچی کی جانب رخ کرنے والے لوگوں نے اس خالی جگہ پر اپنا ڈیرہ ڈالا وہیں ان کی آڑ میں بااثر لوگوں نے پراسرار انداز میں ناجائز تجاوزات کا جال بچھانا شروع کر دیا۔

آج ان سیکٹرز میں اگر کچی آبادی نظر آتی ہے تو وہیں دیگر سوسائٹیوں کے نام نظر آتے ہیں جو قطعاً ناجائز ہیں۔ اس طرح بے وقوف اور لٹنے والی عوام ہی نشانہ بنتی ہے ایک وہ جن کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے دوسرے وہ جو بڑے جعلی سوسائٹیوں کے نام میں اپنے سرمائے کو پار لگاتے ہیں۔ گویا ایک زمین کو دو بار بیچا جاتا ہے لیکن کون ہے جو اس طرح کے ناجائز قبضے سے ہمارے ملک کی قیمتی زمینوں کو واگزار کرائے۔


ہم مسلمان ہیں اور سینہ تان کر اپنے حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ناجائز کسی دوسرے کے حقوق کو ضبط کرنے کے سلسلے میں بھول جاتے ہیں کہ ہم دنیا اور آخرت میں اپنے لیے کیا خرید رہے ہیں، وقتی طور پر مادی خوشی حاصل کرنے کے چکر میں ایک عمرکا عذاب خرید لیتے ہیں۔

یہ گناہ کبیرہ ہے لیکن ہم اسے اپنے طاقت اور تکبر کے زعم میں نظرانداز کر دیتے ہیں۔
کراچی اس قبضہ مافیا کے حوالے سے خاصا بدنام ہے جہاں قبرستان اور پہاڑ بھی محفوظ نہیں ہیں بلکہ نالوں پر بھی ان مافیا کے قبضے تھے۔

لیکن حالیہ چند سالوں میں اس سلسلے میں خاص کارروائیاں دیکھنے میں آئی تھیں جو شہر کراچی کے پوش علاقوں کے نالوں سے بنگلے، ریسٹورنٹ، شورومز سے سب خالی کرکے ان کی اصل صورت میں واپس لوٹایا گیا جو شہر کے انفرا اسٹرکچر کی بڑی کمزوری کو ظاہرکرتا ہے یہاں تک کہ اب بھی بہت سے علاقے توجہ طلب ہیں جہاں اس قسم کی کارگزاریوں سے علاقے کی نہ صرف ہیئت بلکہ امن و عامہ کے حوالے سے ایشوز پیدا ہوئے ہیں۔

کراچی کے بہت سے پارکس اورگلیاں بھی ان قبضہ مافیا کے پیٹ کی خوراک بن چکے ہیں۔ ایک سے دو بنانے کے چکر کو ایک سے گیارہ بنانے کے عمل نے نہایت تکلیف دہ حد تک سفاک کر دیا ہے۔

حکومت کے اداروں کی جانب سے جعلی سوسائٹیوں کے بارے میں خبریں چلتی رہتی ہیں لیکن کم سے کم پیسوں میں اپنا گھر کا جو خواب دکھایا جاتا ہے ایسے بڑے بڑے پراجیکٹس تیس پچیس سالوں سے زائد گزر جانے کے باوجود ادھورے پڑے ہیں جس میں غریب عوام کا لاکھوں کروڑوں روپیہ سرد پڑا ہے لیکن لوٹنے والے اس پیسے سے اپنی زمینوں اور پراجیکٹس کے بچے کے بچے بھی پیدا کر چکے ہیں۔

ایسی بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیاں جو سرکار کی جانب سے بین کی زد میں ہیں 2022 سے لگے اس بین کی حالیہ صورت حال کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی نیب نے ایسے جعل ساز سوسائٹی مافیا کے خلاف بھی عوام الناس سے درخواستیں وصول کی تھیں لیکن تاحال ان درخواستوں پر کارروائی منتظر ہے۔

امید تو ہے کہ کراچی میں ایسے جعل ساز بلڈرز اور سوسائٹی کے علاوہ قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی تو ہوگی۔ غریبوں کی آڑ میں بڑا کھیل کھیلنے والوں کے لیے بھی یقینا کچھ نہ کچھ ضرور حکمت عملی اختیار کی جائے گی، اس کے لیے ماڈرن اور تکنیکی امور اور آلات کے ذریعے زمین پر حق دار کے حق کو جانچنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

زمین اپنا حق نہیں چھوڑتی وہ چلا چلا کر کہتی ہے کہ وہ صرف اپنے اندر دفن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لہٰذا اس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کی جائیں کہ یہ صرف چند دنوں کی خوشی اور سکون فراہم کرنے کے لیے ہیں اور اس کے بعد دہکتی آگ۔

لہٰذا قبرستانوں، اسکولوں، خالی قدیم گھروں، پہاڑوں اور غریبوں کے حق حلال کی کمائی سے خریدی گئی زمینوں پر ناجائز قبضے سے گریز کریں کہ پھر سنبھلنے کا موقعہ نہیں ملے گا۔
 

متعلقہ مضامین

  • قبضہ مافیا
  • یوکرین اور امریکا صدر ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے پر سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات کریں گے
  • مودی کی ایک اور سبکی؛ ٹرمپ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے؛ روسی پیٹرول خریدنا بند
  • ٹرمپ نے یوکرین کو امن معاہدہ قبول کرنےکی ڈیڈلائن دیدی
  • وینزویلا امریکا کے لیے دوسرا ویتنام؟؟
  • کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی کا دورئہ امارات‘ سرمایہ کاری کا امکان
  • صدر ٹرمپ کی امن کے لیے کوششیں
  • امریکا؛ بھارتی حکومت کا بیرون ملک سکھ رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بے نقاب
  • ظہران ممدانی نے ملاقات کی درخواست کی ہے، ٹرمپ
  • ٹرائنگولر ٹی 20 سیریز، سری لنکا اور زمبابوے کے درمیان آج ٹکراؤ ہوگا