data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251008-1-1
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و سابق پارلیمانی لیڈر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنیوالوں کو قوم معاف نہیں کرے گی، صہیونی ریاست اسرائیل کا وجود عالمی امن کے لیے مستقل خطرہ ہے، فلسطین فلسطینیوں کا ہے کوئی دو ریاستی حل قبول نہیں۔ فلسطینیوں نے تاریخ رقم کی ہے جنہوں نے دو سال سے مقابلہ کرکے اسرائیل کا غرور خاک میں ملادیا ہے۔ 75ہزار فلسطنیوں کا قاتل ٹرمپ کیسے امن کا داعی بن سکتا پے۔اسرائیل کو ناکامی و دلدل سے نکالنے اور جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو کو بچانے کے لیے اب وہ میدان میں آیا ہے۔ گریٹر اسرائیل کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ اصل فریق حماس جو بھی فیصلہ کرے وہ پورے عالم اسلام کا موقف ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مقصد گریٹر اسرائیل کا راستہ کھولنا ہے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قراردیا تھا، قائد اعظم کے اصولوں کے برعکس فیصلے قوم قبول نہیں کرے گی۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اپنے ذاتی مفادات کے لیے تو سب کچھ کرتی ہیں مگر ٹرمپ کی سرپرستی میں غزہ میں جاری انسانیت کے قتل عام پر امریکا و اسرائیل کی مذمت اور بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے رمیان دفاعی معادہ خوش آئند بات ہے مگر اصل کامیابی تب ہوگی جب پوری امت متحد ہوجائے گی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے حیدرآباد پریس کلب پر منعقدہ عظیم الشان چلڈرن غزہ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر امیر جماعت اسلامی حیدرآباد حافظ طاہر مجید،نائب امراء عقیل احمد خان،عبدالقیوم شیخ،جنرل سیکرٹری حنیف شیخ ،جے آئی یوتھ حیدرآباد کے صدر عرفان قائمخانی، اسلامی جمعیت طلبہ حیدرآباد کے ناظم رافع احسن قاضی،جمعیت طلبہ عربیہ کے ذمے دار حافظ رضوان نے بھی خطاب کیا جبکہ صوبائی سیکرٹری اطلاعات مجاہد چنا،الخدمت حیدرآبادکے صدر نعیم عباسی، نائب امیر ناصر کاظمی، ڈپٹی جنرل سیکرٹری عبدالباسط خان،سفیان ناصر بھی موجود تھے۔ انہوںنے کہاکہ صہیونی قابض ریاست کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح واضح پالیسی دے کر گئے ہیں اور یہی پاکستان کی داخلہ و خارجہ پالیسی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اسے کسی طور بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا انہوں نے کہا کہ بیت المقدس فلسطین کی سرزمین پاکیزہ جگہ ہے، یہ سرزمین فلسطینیوں کی ہے، اسلام سے وابستہ ہے،ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، مائیں اپنے معصوم بچوں کو لے کر بیٹھی ہیں قحط کا شکار ہیں اسی طرح شہادتیں ہورہی ہیں، 75 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے ہیں، سب سے بڑی تعداد خواتین و بچوں کی ہیں،اسرائیل کی جانب سے یہ نسل کشی کی جارہی ہے، فلسطینی بہادر بچے اسرائیلی بمباری سے نہیں ڈرے وہ یہودیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں، چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچے سڑک سے پتھر اٹھا کر صیہونی فوجیوں کو مارتے ہیں،گھر تباہ ہوگئے ہیں، عمارتیں ملبہ بن گئیں ہیں لیکن وہاں کہ لوگ اسی ملبے پر بیٹھ کر قرآن پڑھتے ہیں، فلسطین میں کسی نے بھی ظلم کے مقابلے میں کمزوری کا اظہار نہیں کیا،فلسطین میں اسپتال تباہ ہوگئے ہیں، فلسطین کے بچے بہادر بچے ہیں،گلوبل صمود فلوٹیلا میں 44 ممالک کے رضاکار تھے، غیر مسلم زیادہ تھے، سابق سینیٹر مشتاق احمد کی قیادت میں پاکستان کی نمائندگی تھی، اس فلوٹیلا کو سلام اور اسرائیل کی مذمت کرتے ہیںجماعت اسلامی کے تحت منعقدہ چلڈرن مارچ میں اسکول کے بچے و اساتذہ بڑی تعداد میں شریک تھے۔ جنہوں نے ہاتھوں میں حماس قائدین اور شہید ہونے والے معصوم بچوں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور فری فری فلسطین کے نعرے لگا رہے تھے اس موقع پر بچیوں نے معصوم فسلطینی بچوں کے خون آلود جنازے اٹھائے ہوئے تھے جبکہ طلبہ نے مختلف ٹیبلوز کے ذریعے فلسطین میں جاری نسل کشی کو اجاگر کیا۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیل کو اسرائیل کا

پڑھیں:

زنجیر غلامی نامنظور!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251007-03-5

 

سید اقبال ہاشمی

آٹھ اسلامی ممالک کو ملوث کرنے کے بعد ٹرمپ کا مسئلہ اسرائیل کے حل کے لیے جو بیس نکات پر مبنی ایجنڈا سامنے آیا ہے اس پر سارے مسلمان ان نکات سمیت مسلمان حکمرانوں پر بھی تھو تھو کر رہے ہیں جو اس سازش میں پابہ رکاب رہے۔ اس حل میں کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں ہے جو کہ فلسطینیوں کے حق میں ہو یا اسرائیل کے خلاف ہو۔ اور اس کے باوجود نیتن یاہو ہرزہ سرائی کر رہا ہے کہ اسرائیل کے لوگوں کو یہ منصوبہ قبول نہیں ہے۔اس وقت فلسطینی ہر روز شہید ہو رہے ہیں۔ عمارات ملبے کا ڈھیر بن رہے ہیں اور اس سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ ان کا بدترین محاصرہ جاری ہے جس میں بد قسمتی سے اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔ حالات ایسے سنگین ہیں کہ مغرب جو اس ساری صورتحال کا ذمے دار ہے وہاں پر بھی لوگ چیخ پڑے ہیں اور احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وہاں حکومت اور عوام میں اس معاملے میں واضع خلیج نظر آ رہی ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے مظلوم اور ظالم کا فرق واضح کر دیا ہے۔ اسرائیل کے مظالم نے ہٹلر اور چنگیز خان کو بھی مات دے دی ہے۔ اس ناجائز قابض کی چیرہ دستیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ غیر مسلح فلوٹیلا جو کہ محض غذائی اجناس اور ادویات لے کر فلسطین کی طرف رواں دواں تھا اسے بین الاقوامی پانیوں میں روکا گیا، ان پر حملہ کیا گیا اور ان سب کو جرم بے گناہی میں گرفتار کرکے نظر بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستان سے بھی چھے افراد بشمول سینیٹر مشتاق احمد خان ان لوگوں میں شامل ہیں۔

ٹرمپ کے بیس نکات پڑھنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ تل ابیب میں لکھے گئے ہیں اور یہ ٹرمپ پلان نہیں بلکہ نیتن پلان ہے۔ ٹرمپ جب شروع شروع میں تحائف سے لدے پھندے عرب ممالک کے کامیاب دورے سے واپس آئے تھے تو مشکور ہو کر انہوں نے دبے دبے الفاظ میں فلسطین کی بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے ملک کا ڈیپ اسٹیٹ فوراً متحرک ہوگیا۔ مقدمات کھلنا شروع ہوگئے۔ Epstein File کی باتیں ہونے لگیں اور نتیجتاً انہوں نے اپنے بیانات پر فوراً یو ٹرن لے لیا۔ غلامی کی یہ دستاویز دشمنوں نے تیار کی تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ حیرت تو اس پر بھی نہیں ہے کہ اسلامی ممالک بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ ہمارے یہ سارے لیڈر ان کے تلوے چاٹنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں۔ دنیا کی دس بہترین افواج میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ حال ہی میں ہم نے ہندوستان کو جو سبق سکھایا ہے وہ ہندوستان اور تاریخ دان دونوں یاد رکھیں گے۔ لیکن ان سب کا کیا فائدہ اگر ہمارے لیڈر فلسطین کے قصاب کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے میں فخر محسوس کریں اور معاہدے کے متعلق بڑھکیں ماریں۔

فلسطین میں مزاحمت کی جو کوشش کی گئی اس کے نتیجے میں غلامی کی زنجیریں تھوڑی ڈھیلی ہو رہی تھیں تو اس کا احساس کرتے ہوئے اب ٹرمپ نے جو پلان دیا ہے اس سے فلسطینیوں کے گرد شکنجے اور کس دیے جائیں گے۔ ٹرمپ کے امن نکات میں سے ایک نکتہ بھی ایسا نہیں ہے جو کہ فلسطینیوں کی حمایت میں ہو جن کی یہ سر زمین ہے، اور ایک نکتہ بھی ایسا نہیں ہے جو اسرائیل کے خلاف ہو جس نے عربوں کی زمین پر جبری قبضہ کر رکھا ہے۔ اس وقت اسرائیل کو سب سے زیادہ تکلیف اپنے یرغمال فوجیوں اور شہریوں کی رہائی کے لیے ہے۔ اس لیے پہلے دو نکات جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق ہے۔ یہ جنگ تو اسرائیل نے یک طرفہ طور پر جاری رکھی ہوئی ہے۔ وہ جب چاہے جنگ بند کر سکتا ہے۔ رہ گئی بات یرغمالیوں کی رہائی کی تو اسے مستقل جنگ بندی اور فلسطین کو ریاست ماننے سے مشروط ہونا چاہیے کیونکہ فساد کی جڑ تو یہی ہے کہ فلسطین میں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ ہے۔ اسرائیل اپنے تمام قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے لیکن شق نمبر تین کے مطابق اپنے جیلوں میں قید تمام فلسطینیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب اسرائیل کی تمام باتیں بلا چوں و چرا تسلیم کر لی جائیں گی تو اسرائیل غذا و ادویات کی محدود فراہمی کی اجازت دے گا۔

سب سے زیادہ شرمناک شرط غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے سے متعلق ہے۔ حماس نہ صرف یہ کہ غزہ کو مکمل طور پر اسلحہ سے پاک کرے بلکہ وہ خود بھی غزہ سے نکل جائے۔ واضح رہے کہ حماس فلسطین میں سیاسی طور پر بھی مقبول ہے اور پچھلا الیکشن وہ جیت گئے تھے اور ان کی حکومت زبردستی ختم کی گئی تھی۔ حماس کو فلسطین سے نکالنے کا مطلب ہے فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنا۔ اور نیت کی بے ایمانی تو بنیادی طور پر یہی ہے کہ وہ غزہ کو خالی کروا کر اپنے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار چمکانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے اگر غزہ کے تیس لاکھ مکینوں کو جہنم میں جھونکنا پڑے تو وہ یہ بھی کر لیں گے بلکہ کر رہے ہیں۔ غزہ میں جو عبوری حکومت قائم ہوگی اس کے سربراہ ٹرمپ ہوں گے اور کرتا دھرتا ٹونی بلیئر۔ بلی کو گوشت کی رکھوالی دینے کا پلان ہے لیکن یہ اتنے ڈرپوک ہیں کہ ایسا کرنے سے پہلے غزہ کو فوج سے پاک علاقہ بنانا چاہتے ہیں۔ عام معافی سے فائدہ اٹھانے والے غزہ کے مکینوں کو غزہ میں رہنے کا موقع دیا جائے گا یعنی کہ علاقہ بھی ان کا اور احسان بھی ان کی گردن پر۔ غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی اور اقتصادی زون قائم کیے جائیں گے جہاں اسرائیل کی کمپنیاں آئیں گی اور غزہ کے سستے مزدوروں کو استعمال کر کے پوری دنیا کو مال برآمد کریں گی یعنی کہ استعماری نظام ان کو اپنے جال میں پھنسا جکڑ لینا چاہتا ہے۔ اگر غزہ کے لوگوں نے سر تسلیم خم کیا تو ایک طویل مدت کے بعد انہیں اقتدار میں شراکت کے متعلق سوچا جا سکتا ہے۔

بنیادی طور پر یہ ایک غلامی کی دستاویز ہے جس میں مسلمان ممالک نے بھی شرکت کا جرم کیا ہے۔ پاکستان میں اس پر عوام کے سخت ردعمل کے نتیجے میں حکومت اب بونگیاں مار رہی ہے۔ دستخط کرنے کے بعد اب ان کو پتا چل رہا ہے کہ دستاویز میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ یہ اوّل درجے کے منافق اور امت میں دراڑ ڈالنے والے لوگ ہیں۔ نہ انہیں قوم معاف کرے گی اور نہ تاریخ۔ قوم نے یہ معاہدہ ان کے منہ پر مار دیا ہے۔ بہتر ہے کہ یہ بھی معاہدہ امریکا کے منہ پر مار دیں ورنہ جو احتجاج ہوگا اسے یہ نہیں سنبھال پائیں گے اور عوام کا احتجاجی سیلاب انہیں بہا کر لے جائے گا۔ تاریخ میں یہ میر جعفر اور میر صادق کی صف میں کھڑے ہوں گے۔

 

اقبال ہاشمی

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد میں تاریخ کا سب سے بڑا چلڈرن غزہ مارچ
  • حیدرآباد: جماعت اسلامی کے تحت چلڈرن غزہ مارچ میں شریک طلبہ بچوںکے علامتی جنازے، پلے کارڈ اور حماس رہنمائوںکی تصاویر اٹھائے شریک ہیں
  • اسرائیلی جارحیت کے 2 برس ، جماعت اسلامی کے صہیونی مظالم کیخلاف ملک گیر احتجاج و مظاہرے ‘اہل غزہ اور حماس سے اظہار یکجہتی
  • غزہ جنگ کے 2 سال مکمل، یورپ سمیت دنیا بھر میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی، مارچ، ریلیاں، مظاہرے
  • زنجیر غلامی نامنظور!
  • پی ٹی آئی امریکا کی مذمت اور حماس کی حمایت کیوں نہیں کرتی؟ لیاقت بلوچ
  • شاہراہ فیصل پر آج عظیم الشان یکجہتی غزہ مارچ ، جماعت اسلامی کا فلسطینیوں سے یکجہتی کا عزم
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ نیتن یاہو کو ریسکیو کرنا ہے، لیاقت بلوچ
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ نیتن یاہو کو ریسکیو کرنا ہے: لیاقت بلوچ