نئی دہلی میں مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی پر دو روزہ سیمینار اختتام پذیر
اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اپنے صدارتی خطاب میں مفتی محمد راشد اعظمی نے کہا کہ مفتی اعظم محمد کفایت اللہ انتہائی مخلص اور متواضع شخصیت کے حامل تھے، آج ہندو مسلم سبھی انکی عظمتوں کو بیان کر رہے ہیں، یہ انکی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ انکے دور میں فلسطین کی حمایت میں بڑی تحریک چلائی گئی اور انہوں نے ظالم حکومت کی اس سلسلے میں کوئی پرواہ نہیں کی۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی
مفتی اعظم ہند حضرت مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی (رہ) پر دو روزہ سیمینار کی اہم اور آخری مجلس آج ماؤلنکر ہال، کانسٹی ٹیوشن کلب نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔ مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیت علماء ہند اور مولانا مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بالترتیب آخری دو نشستوں کی صدارت کی۔ نظامت کے فرائض ناظم عمومی جمعیت علماء ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی اور مفتی محمد عفان منصور پوری نے انجام دیئے۔ قبل ازیں گذشتہ دیر رات دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنے خطاب میں مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کی حیات، اخلاق اور ملی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مفتی اعظم کی زندگی دراصل گذشتہ سو سالہ ملکی تاریخ اور اس میں علماء کے عظیم کردار کی جھلک ہے۔ ان کی شخصیت میں تواضع، ایثار، خدمتِ خلق اور اساتذہ سے گہرا تعلق نمایاں تھا۔ اکابر کی حیات کے مطالعے سے نہ صرف تاریخ سمجھ میں آتی ہے بلکہ عملی زندگی کے لئے رہنمائی بھی ملتی ہے۔
مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی (رہ) کے اساتذہ، معاصرین اور تلامذہ سب اپنے وقت کے جلیل القدر علماء تھے، جس سے ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج کی مجلس میں صدر جمعیت علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تقسیمِ وطن کے خلاف ہمارے اکابر کامل اتفاق رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اکابر نے اس سلسلے میں کوئی بات بلا دلیل نہیں کہی، ان کے بے شمار دلائل رسائل، تقاریر اور تحریروں کی صورت میں موجود ہیں۔ موجودہ حالات میں بعض نوجوانوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر نے غلط راہ اختیار کی تھی۔ انہوں نے کہا "میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ حالات واقعی دشوار ہیں، لیکن اس کے دوسرے حصے سے اتفاق نہیں ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے اکابر کا فیصلہ بالکل درست تھا، البتہ ان کے فیصلے پر پوری طرح عمل نہ ہوسکا، اگر ان کی تجویز کو قبول کی جاتی اور مسلمان، علماء اور ذمہ دار سب یکجا ہو کر ایک موقف اختیار کر لیتے تو صورتحال یقیناً مختلف ہوتی۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مفتی صاحب "العالِم خبیر بِزَمانِہ" کے حقیقی مصداق تھے۔ انہوں نے کہا کہ فتویٰ کے ساتھ تقویٰ ضروری ہے اور جب ہم مفتی اعظم کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی حیات علم و اتقان کے ساتھ تقویٰ کی صفت سے متصف نظر آتی ہے۔ مولانا خالد صدیقی صدر جمعیت علماء نیپال نے کہا کہ مفتی اعظم میدانِ سیاست میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے جتنے فقہ و فتویٰ کے میدان میں۔ انہوں نے کہا کہ دور حاضر کے علماء کرام کی قیادت کو ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہیئے۔
صدر مجلس قائمہ جمعیت علماء ہند مولانا رحمت اللہ میر کشمیری نے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہ کی شخصیت عالمگیر تھی، وہ صرف موجودہ ہندستان کے نہیں بلکہ غیر منقسم ہندستان کے متفقہ عالم تھے، سبھی مسالک کے علماء نے ان کو اپنا صدر بنایا تھا، ان کی کتاب تعلیم الاسلام نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ صدر مجلس مفتی محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیت علماء ہند نے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہ کے ہم عصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری (رہ) ان کو عالم الدین و الدنیا کہتے تھے۔ اسی طرح حضرت مدنی ان کی صلاحیتوں سے کافی متاثر تھے۔ ان کے مشورے پر حضرت مدنی ؒ اپنی رائے بدل دیتے تھے، ضرورت ہے کہ ہم شخصیت سازی پر کام کریں، تاکہ آج کے دور میں بھی مفتی اعظم جیسی شخصیت پیدا ہو۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ مولانا عتیق احمد بستوی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہ علماء کی صف میں ممتاز مقام رکھتے تھے، انہوں نے اپنی محنت سے جمعیت کے وقار و اعتبار میں اضافہ کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اکابر کے افکار کی روشنی میں موجودہ وقت میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے شیخ الحدیث مفتی شبیر احمد قاسمی نے مفتی محمد اعظم کی کتاب کفایت المفتی پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسّی سالہ زندگی میں چھپن سال فتویٰ نویسی میں صرف کئے۔ مفتی سید محمد صالح امین عام مظاہر علوم سہارن پور نے اپنے مقالہ میں علماء مظاہر سے مفتی اعظم کے تعلق پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
نائب امیر الہند و کنوینر سیمینار مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری نے کہا کہ مذہبی طور پر انفرادیت پیدا کرکے سیاسی محنت کو آگے بڑھانے کی کوششیں پہلے بھی جاری رہی ہیں اور آج بھی جاری ہیں، ایسے حالات میں مفتی محمد کفایت اللہ کا نظریہ و نکتہ سب سے بہتر راہ عمل ثابت ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور مورخ انل نوریا نے کہا کہ مہاتما گاندھی سے لے کر جواہر لال نہرو تک سبھی مفتی اعظم محمد کفایت اللہ کے مداح تھے۔ کانگریس پارٹی کی طرف سے تیار کردہ پشاور سانحہ کی رپورٹ میں مفتی اعظم ہند کا بڑا کردار تھا، اسی طرح راول پنڈی میں منعقد کانگریس ورکنگ کمیٹی کی انہوں نے بہت شاندار رپورٹ تیار کی تھی۔
معروف مورخ ڈاکٹر سوربھ باجپائی نے کہا کہ مفتی اعظم محمد کفایت اللہ متحدہ قومیت کے علم بردار تھے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی اور مدنی کے ساتھ مل کر ہندو مسلم اتحاد کو مستحکم کیا۔ کانگریس لیڈر عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ سبھاش چندر بوس نے مفتی اعظم کو آزادی ہند کا بہادر رہنماء قرار دیا تھا، جمعیت علماء ہند کا نظریہ اور دائرہ انتہائی وسیع رہا ہے۔ اس کے اکابر نے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی مسائل میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جمعیت علماء ہند نے مظلوموں کی جو خاموش لڑائی رہی ہے، وہ انتہائی مبارک باد کے مستحق ہے۔
اپنے صدارتی خطاب میں مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مفتی اعظم محمد کفایت اللہ انتہائی مخلص اور متواضع شخصیت کے حامل تھے۔ آج ہندو مسلم سبھی ان کی عظمتوں کو بیان کر رہے ہیں، یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ان کے دور میں فلسطین کی حمایت میں بڑی تحریک چلائی گئی اور انہوں نے ظالم حکومت کی اس سلسلے میں کوئی پرواہ نہیں کی۔ ان کی کتاب تعلیم الاسلام بچوں کے لئے سب سے بڑا تحفہ ہے۔ آخر میں ناظم عمومی جمعیت علماء ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جمعیت علماء ہند نے ہنوز پانچ سیمینار کئے ہیں، جن میں آٹھ اکابر پر متعدد کتابیں اور مقالے شائع ہوچکے ہیں۔
ان کے علاوہ جن شخصیات نے اپنے مقالے پیش کئے، ان میں مولانا مفتی اختر امام عادل سمستی پور، مولانا عرفات اعجاز قاسمی، حافظ عبدالحی مفتاحی، مولانا سید محمد صالح مظاہری، ڈاکٹر قاسم دہلوی، مولانا ضیاء الدین ندوی قاسمی، نمائندہ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی، مولانا ڈاکٹر مسعود احمد اعظمی، مولانا مفتی دکاوت حسین قاسمی، مولانا خورشید انور اعظمی جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور، مولانا ضیاء الحق خیرآبادی کے نام شامل ہیں۔ وقت کی قلت کی بنیاد کئی اہم مقالے پیش نہیں ہو پائے، ان میں خاص طور پر مولانا مفتی محمد عفان منصور پوری، مولانا سالم جامعی وغیرہ کے مقالے شامل ہیں۔
مجلس کا آغاز قاری محمد فاروق کی تلاوت سے ہوا، قاری محمد اقرار بجنوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے نعت پیش کی جبکہ دوسری نشست میں نعت مولانا عبدالعلیم نے پیش کی۔ اس موقع پر دہلی و بیرون دہلی سے ایک ہزار سے زائد علماء و دانشور حضرات شریک ہوئے۔ حضرت مفتی اعظم محمد کفایت اللہ کے پوتے مولانا انیس قاسمی مدرسہ امینیہ کشمیری گیٹ نے گذشتہ رات کی دوسری نشست کی صدارت کی۔ ان کے علاوہ دہلی سے محمد سالم حفیدہ مفتی اعظم، قاری عبد الغفار مہتمم مدرسہ بیت العلوم جعفرآباد، مولانا محمد قاسم نوری، مولانا قاری اسجد زیبر مہتمم مدرسہ شمس العلوم اور مولانا جمعیۃ علماء یوپی کے ذمہ دارن بالخصوص مولانا سید محمد مدنی نائب صدر جمعیۃ علماء یوپی اور مولانا حسین احمد مدنی سکریٹری جمعیت علماء یوپی، مفتی ظفر احمد قاسمی ناظم اعلیٰ جمعیت علماء وسطی زون بھی شریک تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مفتی اعظم محمد کفایت اللہ جمعیت علماء ہند مولانا نے کہا کہ مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند صدر جمعیت علماء انہوں نے کہا کہ مولانا مفتی مولانا محمد میں مفتی
پڑھیں:
پاکستان کی سلامتی و استحکام کیلئے ریاست اور فوج کے ساتھ: علماء مشائخ
لاہور (خصوصی نامہ نگار) ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ نے وطن عزیز کی سلامتی و استحکام اور فرقہ وارانہ تشدد و انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے حکومت سے تعاون کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کے لئے ہم ریاست و افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ انتہا پسندانہ و متشدد رویوں کے خاتمے کیلئے کل بھی مدارس و مساجد نے کردار ادا کیا اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ پیغام پاکستان کے نفاذ کیلئے ہر سطح پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مساجد و مدارس کا تحفظ ماضی میں بھی کیا ہے ، اب بھی کریں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار لاہور کے مقامی ہوٹل میں چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کی زیر صدارت علماء و مشائخ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ پاکستان میں موجود اتحاد بین المسلمین کی فضا سے کسی کو کھیلنے نہیں دیں گے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی غرض سے دشمن نے جو پروپیگنڈا مہم شروع کی ہے اسے تمام مکاتب فکر کے علماء باہمی اتحاد سے ناکام بنائیں گے۔ حکومت کسی مدرسے یا مسجد کو بند نہیں کر رہی اور نہ ہی پچیس ہزار روپے کی وظیفے سے علماء کرام کو خریدا جا سکتا۔ حکومت کسی کو زبردستی یہ وظیفہ نہیں دے رہی اگر کوئی لینا چاہتا ہے تو یہ اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ مساجد و مدارس سے اللہ اور اس کے رسول کے نام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور قیامت تک ہوتی رہیں گی۔ مدارس کے 15 وفاق ہیں ہر مدرسہ کو آزادی ہے کہ ہو جس کو چاہے اختیار کرے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان ہمارا بھائی ہے۔ لیکن اس کے بدلے ہمیں دہشت گردی اور خود کش دھماکے ملے۔ وہ افغان وزراء جو پاکستان میں پلے ،بڑھے اور یہاں تعلیم حاصل کرتے رہے وہ آج بھارت کی شہ پر پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں، باقاعدہ بھارت کی پراکسی کا حصہ بن گئے ہیں انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ بند نہ ہوا تو افواج پاکستان وطن کا دفاع کرنا جانتی ہے، پاکستان کی فوج ایمان ، تقویٰ ، جہاد فی سبیل اللہ والی فوج ہے۔ پوری قوم بالخصوص علماء و مشائخ فاتح فیلڈ مارشل جنرل حافظ سید عاصم منیر اور افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نہ ابراہام اکارڈ کو تسلیم کیا نہ اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں۔