غزہ جنگ کے دوران امریکا کیجانب سے اسرائیل کو 21.7 ارب ڈالر کی عسکری امداد ملنے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکا کی مالی امداد نہ ہوتی تو اسرائیل غزہ میں حماس کے خلاف جنگی مہم جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق امریکا نے پہلے سال، جب صدر جو بائیڈن اقتدار میں تھے، 17.9 ارب ڈالر فراہم کیے، جبکہ دوسرے سال یہ امداد 3.8 ارب ڈالر رہی۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک امریکا نے اسرائیل کو کم از کم 21.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امداد کا کچھ حصہ پہلے ہی اسرائیل کو فراہم کیا جا چکا ہے، جبکہ بقیہ رقم آئندہ برسوں میں دی جائے گی۔ یہ رپورٹ واشنگٹن کے کوئنسی انسٹیٹیوٹ فار ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ کے اشتراک سے تیار کی گئی ہے۔ ادارے پر اسرائیل مخالف مؤقف رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے، تاہم اس نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ دوسری رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکا نے گذشتہ دو برسوں میں یمن میں حوثی مجاہدین اور ایران کی تنصیبات پر حملوں سمیت اپنی وسیع تر عسکری سرگرمیوں پر 9.65 ارب سے 12 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں، جس میں جون 2025ء کے ایرانی حملوں سے متعلق 2 ارب ڈالر کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ یہ رپورٹس ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق حماس نے امریکا کے امن منصوبے کے چند نکات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کو امریکا نے رپورٹ میں گیا ہے کہ کے مطابق ارب ڈالر فراہم کی
پڑھیں:
پاکستان 5 برس میں اصلاحات پر عمل کر لے تو جی ڈی پی میں 26 ارب ڈالر اضافہ ہو سکتا ہے: آئی ایم ایف رپورٹ
اسلام آباد (عترت جعفری) آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان میں کرپشن اور گورننس کے حوالے سے تشخیصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان آئندہ پانچ سال کے اندر گورننس کی اصلاحات کے پیکج پر عمل کر لے تو اس کی جی ڈی پی میں پانچ سے ساڑھے چھ فیصد (قریبا 20 سے 26 ارب ڈالر تک) اضافہ ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک اہم شرط کو پورا کرتے ہوئے گورننس اور کرپشن کی تشخیصی سپورٹ جاری کر دی گی ہے اور اس رپورٹ کے اجرا سے ائی ایم ایف کے بورڈ کی طرف سے پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی اور جاری قرضہ پروگرام کی قسط کے اجراء کی اخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان پانچ سال میں گورننس کی اصلاحات کے پیکج پر عمل کر لے تو اس کی جی ڈی پی میں پانچ سے ساڑھے چھ فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ سرکاری تحویل کے کاروبار ی اداروں کے لیے ترجیح کو ختم کیا جائے، تاکہ پبلک پروکیورمنٹ سسٹم کو بہتر بنایا جائے۔ ڈائریکٹ کنٹریکٹنگ سسٹم کی اجازت دی جائے۔ ای گورنمنٹ پروکیورومینٹ سسٹم کو اپنایا جائے، ایس ای سی پی کی قیادت میں 18 ماہ کے اندر ریگولیٹری نظام میں یکسانیت پیدا کی جائے، تمام وفاقی بزنس ریگولیشنز کے لیے جامع ڈیٹا بیس بنائی جائے، غیر ضروری ریگولیشنز کو ختم کیا جائے، شفافیت کو بڑھانے کے لیے جامع ڈیٹا بیس بنائی جائے، ریگولیشن کے عمل کو 15 ماہ کے اندر ڈیجیٹل کر دیا جائے۔ معاشی تنازعات کو تیزی سے طے کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں ،عدالتوں اور ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے طریقہ کار کو شائع کیا جائے اور ایک سال میں تمام انتظامی ور خصوصی عدالتوں کی کارکردگی کے بارے میں رپورٹ شائع کی جائے،مئی 2026ء تک ٹیکس کو سادہ بنانے کی سٹریٹجی کو شائع کیا جائے،ایف بی ار کے تنظیمی ڈھانچہ اور گورنس کو بہتر بنایا جائے،فیلڈ دفاتر کی خود مختاری کو کم کیا جائے،ایف بی ار میں احتساب کو بڑھایا جائے اور پرال کی اڈٹ رپورٹ ائندہ 12 ماہ میں شائع کی جائے،پی ایس ڈی پی کی شفافیت کو بڑھایا جائے، نئے منصوبوں کے حوالے سے 10 فیصد کا کا کیپ لگایا جائے، آڈیٹر جنرل کو مکمل خود مختاری دی جائے، منی لانڈرنگ کے جرائم کی تفتیش اور پراسیکیوشن میں اضافہ کیا جائے، تمام اعلیٰ سطح کی وفاقی بیوروکریسی میں احتساب اور دیانت کو مستحکم کیا جائے اور 2026ء میں ان کے اثاثوں کی ڈیکلریشن کو شائع کیا جائے، سی سی پی ایس ای سی پی ، نیب اور تمام اہم اوور سائٹ اداروں کے سربراہوں کی تقرری کے لیگل فریم ورک پر جائزہ لیا جائے لیگل فریم ورک کو بہتر بنایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے تمام سطحوں پر کرپشن کے حوالے سے کمزوریاں موجود ہیں اور یہ اس وقت اور پیچیدہ ہو جاتی ہیں جب اینٹی کرپشن کے بارے میں تصورات میں تسلسل اور غیر جانبداری کا عنصر موجود نہیں، اس سے انفورسمنٹ کے اداروں پر عوامی اعتماد مجروح ہوتا ہے، متعدد وزارتیں اور ادارے صلاحیت میں کمی کا شکار ہیں جس کے باعث وہ اپنے بنیادی فنکشنز کو موثر طور پر ادا نہیں کر پاتے یہ صورتحال اندرونی کنٹرول کے کمزور ہونے کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ میں نے سسٹم پر سرمایہ کاری کی بھی کمی ہے۔ ٹیکس پالیسی کو اس وقت اور زیادہ نقصان ہوتا ہے ایس او زیز جیسی نان ٹیکس اتھارٹیز کو ٹیکس میں ترجیحات دی جاتی ہے اور ان کی نگرانی بھی بہت کمزور ہے۔ رپورٹ میں کرپشن کے خطرات میں کمی اور گورننس کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات اور درمیانی اور طویل میں سٹرکچر اصلاحات کے لیے کہا گیا ہے، پاکستان میں کرپشن ایک مستقل چیلنج ہے جس کے معاشی ترقی پر منفی اثرات ہیں۔