مشرق وسطیٰ میں امریکی سرگرمیوں کے ایک اور مطالعے سے پتا چلا ہے کہ امریکہ نے اسی عرصے کے دوران یمن پر حملوں سمیت خطے میں کارروائیوں پر 9.65 بلین سے 12 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں ایران میں جوہری تنصیبات پر امریکی حملے بھی شامل ہیں، جن کی لاگت صرف 2 بلین سے 2.25 بلین ڈالر کے درمیان ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ جنگ کے آغاز کی دوسری سالگرہ کے موقع پر کیے گئے ایک مطالعے کے نتائج کے مطابق امریکی حمایت کے بغیر، جس کی مالیت 18.

5 بلین یورو کے برابر ہے، اسرائیلی حکومت اس پیمانے پر غزہ جنگ کو انجام نہیں دے سکتی تھی۔ سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیلی حکومت کو 21.7 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے۔ اس خونریز جنگ کے آغاز کی دوسری سالگرہ کے موقع پر امریکا کی براؤن یونیورسٹی میں Costs of War پروجیکٹ کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق سامنے آئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی حمایت کے بغیر، جس کی مالیت 18.5 بلین یورو کے برابر ہے، اسرائیلی حکومت اس پیمانے پر غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے خلاف اپنی مہم جاری نہیں رکھ سکتی تھی۔ رپورٹ کے مطابق جنگ کے پہلے سال میں امریکہ نے صدر جو بائیڈن کے دور میں اسرائیلی حکومت کو 17.9 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی تھی۔ جنگ کے دوسرے سال جب ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس واپس آئے تو یہ تعداد 3.8 بلین ڈالر تھی۔ تحقیق کے مطابق اس امداد میں شامل کچھ فوجی سازوسامان آنے والے برسوں میں حکومت کو فراہم کیے جائیں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ابتدائی طور پر اعداد و شمار پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ 

مشرق وسطیٰ میں امریکی سرگرمیوں کے ایک اور مطالعے سے پتا چلا ہے کہ امریکہ نے اسی عرصے کے دوران یمن پر حملوں سمیت خطے میں کارروائیوں پر 9.65 بلین سے 12 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں ایران میں جوہری تنصیبات پر امریکی حملے بھی شامل ہیں، جن کی لاگت صرف 2 بلین سے 2.25 بلین ڈالر کے درمیان ہے۔ یہ مطالعات زیادہ تر اوپن سورس مواد پر مبنی ہیں اور خطے میں اسرائیلی حکومت کے اقدامات پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ کوئنسی انسٹی ٹیوٹ برائے ذمہ دار حکومت، جس نے اسرائیل کو فوجی امداد سے متعلق رپورٹ میں حصہ ڈالا، پر حکومت کے قریبی گروپوں کی طرف سے اسرائیل مخالف ہونے کا الزام لگایا گیا ہے، جس کی انسٹی ٹیوٹ نے تردید کی ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیلی حکومت امریکہ نے بلین ڈالر کے مطابق بلین سے جنگ کے

پڑھیں:

امریکہ پر اسرائیلی لابی کے کنٹرول کی کہانی، امریکی افسر کی زبانی

اسلام ٹائمز: سابق امریکی افسر کے مطابق چارلی کرک کے قتل کا مقصد ممکنہ طور پر امریکہ میں موجود اسرائیل کے ناقدین کو راستے سے ہٹانا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ قطر پر حالیہ حملوں اور فلسطین اور غزہ کے خلاف جارحیت سمیت دنیا بھر میں اسرائیل کی بہت سی کارروائیاں امریکی وسائل اور ساز و سامان کی حمایت اور فراہمی سے کی جاتی ہیں۔ اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امداد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل امریکہ سے روزانہ 10 ملین ڈالر وصول کرتا ہے، جبکہ ہمارے اپنے ملک میں بے گھر افراد اور سابق فوجی بے سہارا ہیں، لیکن ہمارے تمام وسائل اسرائیل جاتے ہیں۔ خصوصی رپورٹ:

پریس ٹی وی کو انٹرویو میں امریکی قانون سازوں پر اسرائیل کے سیاسی اور مالی اثر و رسوخ کا حوالہ دیتے ہوئے یو ایس ایس لبرٹی کے سابق افسر نے کہا ہے کہ کانگریس میں تقریبا تمام ریپبلکن اور ڈیموکریٹس اسرائیلی ادارے اے آئی پی اے سی (American Israel Public Affairs Committee) کے زیر اثر ہیں۔ اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والے امریکی جہاز میں سے اتفاقی طور پر زندہ بچ جانے والے یو ایس ایس لبرٹی کے سابق افسر فلپ ٹورنی نے 1967 کے اسرائیلی حملے کے بارے میں کہا ہے کہ ہمیں "وسیع پیمانے پر واقعہ کی پردہ پوشی" کے لئے وارننگ دی گئی تھی۔ اس حملے کی تفصیل کے علاوہ ٹورنی نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی اداروں پر اسرائیل کے سیاسی اور مالی اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکی حکومت نے سچائی بتانے سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ 

پریس ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ٹورنی نے وضاحت کی کہ یو ایس ایس لبرٹی 7 جون 1967 کو جزیرہ نما سینا کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں تعینات تھا، اور اسے شروع سے ہی اسرائیلی جاسوسی طیاروں نے دیکھ لیا تھا، صیہونی ستارے کے نشان والے طیارے آئے اور اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے ہمارے لئے دوستی کی علامت ظاہر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خطے میں داخل ہونے سے پہلے دو بار تباہ کن جہاز کے اسکارٹ مہیا کرنے کے لئے کہا، لیکن دو بار ہی مسترد کردیا گیا کہ جہاز پر امریکی پرچم لہرا رہا ہے اور آپ بین الاقوامی پانیوں میں ہیں، لہذا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن اسرائیلی طیاروں نے امریکی جہاز کو نشانہ بنایا۔

ٹورنی کے مطابق اسرائیلی جاسوس پروازیں کئی دن تک جاری رہیں، طیارے اتنے نیچے اترے تھے کہ ڈیک ہل جاتا تھا اور ہمارا اسٹاف اسرائیلی پائلٹوں کو دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک منظم حملہ تھا، یہ اتفاق نہیں تھا، پہلے تین سیکنڈ میں، تمام اینٹینا اور مواصلاتی آلات کو نشانہ بنایا گیا، ہماری مشین گنیں اور توپیں بھی غیر فعال ہوگئیں۔ سابق امریکی افسر کا کہنا تھا کہ امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں سے فضائی مدد بھیجی گئی تھی، لیکن پھر انہیں حکم آیا کہ لبرٹی کی مدد نہ کریں، اڈے پر واپس آجائیں، ہم اپنے اتحادی اسرائیل کو شرمندہ نہیں کرینگے، یہ فیصلہ جہاز کو بمباری اور میزائلوں سے نشانہ بنوانے کے تناظر میں کیا گیا تھا۔

ٹورنی نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد جہاز کو ڈبو کر مصر کیخلاف امریکہ کو تیسری جنگ عظیم میں شامل کرنے اور ان زمینوں کو دوبارہ حاصل کرنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر جہاز ڈوب جاتا تو 294 افراد ہلاک ہوجاتے اور تیسری جنگ عظیم شروع ہوتی، خدا کی مدد سے ہم بچ گئے اور ایک عالمی تباہی رک گی، اسی وقت میں نے اپنے 34 بھائیوں کو مرتے ہوئے دیکھا، یہ الزامات 1967 کے واقعے تک محدود نہیں مصری قیدیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا اور اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔ انہوں نے سچائی کو دبانے میں امریکی حکومت کے کردار کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ زندہ بچ جانے والے امریکی اسٹاف کی گواہی کو تبدیل یا چھپا دیا گیا ہے اور انہیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خاموش رہنے کے لئے کہا گیا تھا یا جیل یا اس سے بھی بدتر کی دھمکی دی گئی، ہر کوئی جانتا تھا کہ اس بدتر کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ امریکی قانون سازوں پر اسرائیل کے سیاسی اور مالی اثر و رسوخ کے بارے میں ٹورنی نے کہا کہ کانگریس میں تقریبا تمام ریپبلکن اور ڈیموکریٹس اسرائیلی لابی، اے آئی پی اے سی (American Israel Public Affairs Committee) کے زیر اثر ہیں، وہ لابی کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرتے ہیں اور 90 فیصد سے زیادہ قانون ساز کسی نہ کسی طرح اسرائیل کے مقروض ہیں، یہ مداخلت امریکی سیاست میں ایک کینسر بن چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا حل بدعنوان سیاستدانوں کا خاتمہ اور اسرائیل کو ایک غیر ملکی ریاست اور غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر شناخت کروانا ہے۔

سابق امریکی افسر نے حالیہ مسائل کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چارلی کرک کے قتل کا مقصد ممکنہ طور پر امریکہ میں موجود اسرائیل کے ناقدین کو راستے سے ہٹانا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ قطر پر حالیہ حملوں اور فلسطین اور غزہ کے خلاف جارحیت سمیت دنیا بھر میں اسرائیل کی بہت سی کارروائیاں امریکی وسائل اور ساز و سامان کی حمایت اور فراہمی سے کی جاتی ہیں۔ اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امداد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل امریکہ سے روزانہ 10 ملین ڈالر وصول کرتا ہے، جبکہ ہمارے اپنے ملک میں بے گھر افراد اور سابق فوجی بے سہارا ہیں، لیکن ہمارے تمام وسائل اسرائیل جاتے ہیں۔

انہوں نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی اور مالی تعلقات کا جائزہ لینے اور اسے ایک غیر ملکی ریاست اور غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ امریکی حکومت ایک بار پھر امریکی عوام کے اختیار میں آ جائے۔ ٹورنی نے کہا کہ امریکی خارجہ پالیسی پر اسرائیل کے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ مشرق وسطیٰ میں لامتناہی جنگوں میں الجھا ہوا ہے اور پہلی خلیجی جنگ سے لے کر آج تک اس کا فائدہ صرف اسرائیل کو ہوا ہے۔ انہوں نے "گریٹر اسرائیل" منصوبے کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج لبنان، شام، عراق اور اردن سمیت آس پاس کے تمام علاقوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے، یہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہے، اور صیہونی اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔

ٹورنی نے بیروت بم دھماکے سمیت دیگر تاریخی مثالوں کا حوالہ دیا، جس میں 242 امریکی میرینز ہلاک ہوئے تھے، اور اسے "اسرائیل کے لئے ایک قربانی" قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب اسرائیل سمندر میں امریکیوں کو مار سکتا ہے تو صیہونیوں کے سامنے کوئی حد نہیں رہتی اور ان کے لئے کوئی بھی کارروائی ممکن ہے۔ آخر میں ٹورنی نے پالیسی سازوں اور رائے عامہ کو متنبہ کیا کہ جب تک امریکہ پر اسرائیل کا اثر و رسوخ باقی گا، امریکیوں کی سلامتی اور آزادی کی کوئی ضمانت نہیں، امریکہ پر اسرائیلی قبضہ ختم کروانے کا واحد راستہ بدعنوان سیاستدانوں کو ہٹانا اور اسرائیل کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کا نیا اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ، پینٹاگون اس ہفتے کمپنی کا انتخاب کرے گا
  • غزہ جنگ کے 2 سال: امریکا کی جانب سے اسرائیل کو 21.7 ارب ڈالر کی فوجی امداد کا انکشاف
  • پنجاب یونیورسٹی میں اساتذہ کی اسرائیل کیخلاف ریلی، ملازمین و طلبہ کی شرکت
  • فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسائل حل کیے بغیر امن ممکن نہیں: پاکستان
  • ملتان، آئی ایس او پاکستان کے زیراہتمام غاصب اسرائیل ریاست نامنظور احتجاجی ریلی 
  • غزہ میں جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے تشخص کو شدید نقصان پہنچا، امریکی وزیرخارجہ کا اعتراف
  • حکومت سینیٹر مشتاق کی بحفاظت واپسی کیلئے ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے، سینیٹر محمد عبدالقادر
  • امریکہ پر اسرائیلی لابی کے کنٹرول کی کہانی، امریکی افسر کی زبانی
  • امریکہ پر اسرائیلی لابی کے کنٹرول کی کہانی