جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ ٹیم کا پہلا گروپ لاہور پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کا پہلا گروپ لاہور پہنچ گیا، ٹیم کا دوسرا گروپ صبح لاہور پہنچے گا۔
لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچنے پر جنوبی افریقہ کے اسکواڈ کو سخت سیکیورٹی حصار میں ہوٹل پہنچایا گیا۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان دو ٹیسٹ میچز کی سیریز شیڈول ہے۔
دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹیسٹ 12 اکتوبر سے لاہور اور دوسرا ٹیسٹ 20 اکتوبر سے پنڈی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جنوبی افریقہ
پڑھیں:
معدنیات اور سیاسی دائو پیچ
دنیا کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے صدیوں سے ایک ہی کہانی بار بار لکھی گئی ہو، طاقت کی ہوس، دولت کی حرص، زمین کی لوٹ مار اور انسان کا خون بہانے کی۔
فرق صرف یہ ہے کہ پہلے یہ سب کچھ تلواروں اور گھوڑوں کے ساتھ ہوتا تھا اور آج انھی حملوں کو نئے نام دیے گئے ہیں، سرمایہ کاری، استحکام، جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کی پاسداری مگر جو آنکھ دیکھنا چاہے اسے صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس نئی دنیا میں بھی پرانے زمانے کی سلطنتوں کی روح زندہ ہے اور اس کے ہاتھ اب بھی خون آلود ہیں۔
آج کے دور کا سب سے بڑا کھیل جس کے گرد پوری دنیا کی سیاست گھوم رہی ہے، وہ ہے زمین میں چھپے وہ قیمتی معدنیات جن پر ہماری جدید زندگی کی ہر سانس ٹکی ہوئی ہے، سونا چاندی، تیل، تانبا ،لیتھیم، کوبالٹ ،پلاٹینم جن سے افریقہ کے پہاڑ اور ریگستان بھرے پڑے ہیں۔ دنیا کے بادشاہوں، کارپوریشنز اور طاقتور ممالک نے ایک ایسا کھیل شروع کیا ہے جس کی بساط افریقہ ہے، مہرے لوگ ہیں اور انعام دنیا کی دولت۔
مگر انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ سوال اٹھایا جائے، کیا یہ کہانی آج شروع ہوئی ہے؟ نہیں۔ صدیوں پہلے جب یورپ ابھی اندھیروں میں تھا، افریقہ کی ریت اور اس کے دریا روشنی میں نہائے ہوئے تھے۔
مالی کی سرزمین وہ تھی جہاں مملکت مالی کا سورج چمکتا تھا ،ایک ایسے دور کی بادشاہت جس کے قصے دنیا کے جہاں گرد آج بھی حیرت سے سناتے ہیں اور پھر اس سلطنت کے سینے سے ایک نام ابھرتا ہے مانسا موسٰی۔
کہتے ہیں کہ مانسا موسٰی وہ شخص تھا جس کی دولت کا کوئی شمار نہ تھا۔ سونا اس کے دربار میں ایسے بہتا تھا جیسے پانی۔ وہ جب سفر پر نکلا تو راستے بھر سونا بانٹتا گیا اور اس کی سخاوت نے مصر اور حجاز کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔
مورخین لکھتے ہیں کہ دنیا نے کبھی اس قدر مالدار انسان نہیں دیکھا۔ یہ بھی تاریخ کا تلخ طنز ہے کہ جس سرزمین سے دنیا کا امیر ترین انسان اٹھا، آج اسی ’’مالی‘‘ میں لوگ ننگے پاؤں، بھوکے پیٹ اور شکستہ امیدوں کے ساتھ دن گزارتے ہیں۔
مگر یہ زوال خود بخود نہیں آیا۔ اسے پیدا کیا گیا ، پہلے نوآبادیات کے نام پر یورپ نے افریقہ کی دولت نوچی۔ فرانس، برطانیہ، پرتگال، بیلجیم ، ہر جھنڈے کے نیچے لٹا پٹا افریقہ خون تھوکتا رہا ، پھر دنیا بدل گئی جھنڈے اتر گئے لیکن کھیلنے والوں کے ہاتھ نہ بدلے صرف ان کی شکلیں بدلیں۔ آج وہی قبضہ ملٹی نیشنل کارپوریشنز، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور سفارتی دباؤ کے پردے میں جاری ہے۔
آج افریقہ وہ براعظم ہے جس سے دنیا کے موبائل فون ،گاڑیاں، جہاز، فوجی آلات اور خلائی ٹیکنالوجی بنتی ہے۔ کانگو کا کوبالٹ نائجیریا کا تیل، مالی کا سونا، نائجر کا یورینیم، جنوبی افریقہ کا پلاٹینم یہ سب وہ معدنیات ہیں جن پر پوری دنیا کی ٹیکنالوجی کھڑی ہے۔
فرانس کی جوہری توانائی کا ایک بڑا حصہ آج بھی نائجر کے یورینیم سے چلتا ہے مگر نائجر کے بچے آج بھی بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ ہے عالمی انصاف کا چہرہ اور یہ ہے معدنیات کا کھیل۔
آج بھی طاقتور ممالک افریقہ کی سرزمین کے نیچے چھپی دولت کے لیے ایک دوسرے سے چھپ کر اور کبھی کھل کر جنگیں لڑ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پردہ ہو یا امن مشن کا بہانہ ہر قدم کے پیچھے وہی پرانی لوٹ کی خواہش چھپی ہوئی ہے۔
افریقی ممالک کو قرضوں کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنا بجٹ کم کرو، عوامی سہولتیں ختم کرو، مگر کانیں ہمارے حوالے کرو۔ یہ نئی قسم کی غلامی ہے جس میں زنجیر نظر نہیں آتی مگر پاؤں زخمی رہتے ہیں۔
امریکا، چین ،روس، یورپ سب کی نظریں افریقہ کی انھی معدنیات پر ہیں۔ چین ،افریقہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ امریکا اپنے فوجی اڈوں اور سفارتی دباؤ کے ذریعے اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔
یورپ اپنی پرانی نوآبادیاتی ڈوریں دوبارہ کس رہا ہے اور روس نئے تعلقات قائم کرکے اپنا حصہ کھوج رہا ہے، یوں افریقہ آج بھی جنگوں کے درمیان پسا ہوا ایک ایسا براعظم ہے جسے دنیا ترقی کی منزل سمجھتی ہے مگر جس کے اپنے لوگ آج بھی زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
افریقہ کے بچے جب مٹی کی سڑکوں پر ننگے پاؤں چلتے ہیں تو ان کے قدم اسی زمین کو چھوتے ہیں جس میں دنیا کے سب سے قیمتی معدنیات دفن ہیں۔ یہ وہ المیہ ہے جسے سمجھنے کے لیے دل بھی چاہیے اور ضمیر بھی۔ جدید دنیا کی ترقی دراصل افریقہ کی غربت کے اندھیرے سے روشنی چراتی ہے۔
یہی کھیل اب صرف افریقہ تک محدود نہیں رہا۔ لاطینی امریکا، افغانستان، مشرق وسطیٰ ، وسطی ایشیا ہر جگہ یہی معدنیات کی دوڑ جاری ہے۔ کہیں تیل، کہیں لیتھیم، کہیں گیس۔ قومیں ترقی کا خواب دیکھتی ہیں مگر جاگتی ہیں تو ان کے ہاتھوں میں قرضوں کی زنجیر اور زمین میں بیرونی کمپنیوں کا قبضہ ہوتا ہے۔
آج کی دنیا ایک نئے نوآبادیاتی دور میں داخل ہوچکی ہے۔ جنگیں اب بندوق سے کم اور معاہدوں قرضوں اور کان کنی کے ٹھیکوں سے زیادہ لڑی جاتی ہیں، مگر نقصان وہی پرانا ہے، غریب قومیں، اجڑی ہوئی زمینیں، بدحال بچے اور وہ دولت جو ان کے ہاتھ میں آنے کے بجائے طاقتور ملکوں کے بینکوں میں چلی جاتی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ کھیل ہمیشہ ایسے ہی چلے گا؟ تاریخ کہتی ہے کہ نہیں۔ مالی کی مملکت ختم ہوگئی مگر اس کی عظمت کی گونج آج بھی زندہ ہے۔ اسی طرح افریقہ کے لوگ آج بھی لڑ رہے ہیں، اپنے حق کے لیے، اپنی زمین کے لیے اپنی آزادی کے لیے۔
ان کے ہاتھ خالی ضرور ہیں مگر ان کی آنکھوں میں وہ چمک موجود ہے جو غلامی کی زنجیروں کو توڑ دینے کا عزم رکھتی ہے۔آج پاکستان بھی اسی عالمی کھیل کے بیچ کھڑا ہے۔ ہمارے پہاڑ، ریگستان اور وادیاں ایسی دولت اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں جن پر جدید دنیا کا پہیہ چلتا ہے۔
ریکوڈک کا سونا اور تانبہ، تھر کا کوئلہ ، خیبر پختونخوا کا گریفائٹ، شمالی علاقوں کی نایاب دھاتیں، بلوچستان کے پہاڑوں میں لیڈ زنک اور کرومائیٹ یہ سب وہ خزانے ہیں جن کی چمک دور بیٹھے ممالک تک پہنچتی ہے لیکن دکھ یہ ہے کہ اس چمک نے ہمیشہ ہمیں نہیں ،دوسروں کے آنگن کو روشن کیا۔
پاکستان کی معدنی دولت پر چین سب سے زیادہ نظریں رکھے ہوئے ہے۔ سی پیک کے نام پر تعمیر و ترقی کی کہانی ضرور سنائی جاتی ہے مگر ہر بڑی کہانی کے پیچھے ایک مصلحت بھی چھپی ہوتی ہے۔ چین کو پاکستان میں وہ معدنیات مل رہے ہیں جن کی اسے اپنی صنعت اور عالمی منڈی میں موجودگی کے لیے اشد ضرورت ہے۔
جدید بیٹریوں کے لیے لیتھیم، اسٹیل کی صنعت کے لیے لوہا اور کرومائیٹ ٹیکنالوجی کے آلات کے لیے کاپر، یہ سب وہ وسائل ہیں جو چین کو طاقتور رکھتے ہیں اور جن کے لیے وہ پاکستان جیسے ملک میں بھاری سرمایہ بھی لگا رہا ہے اور اثر و رسوخ بھی بڑھا رہا ہے،مگر چین اکیلا نہیں خلیجی ممالک بھی پاکستان کی معدنیات میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بلوچستان کے معدنی وسائل اور تھر کے کوئلے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ بھی اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کے جواب میں پاکستان کے وسائل کی اہمیت کو سمجھ چکے ہیں، یوں پاکستان ایک ایسی دوڑ کا حصہ بن چکا ہے جس میں قدم ذرا سا بھی لڑکھڑایا تو منزل ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔
یہ المیہ صرف وسائل کا نہیں بلکہ فیصلوں کا بھی ہے۔ پاکستان کے لوگ آج بھی غربت بے روزگاری اور ناانصافی کا شکار ہیں جب کہ ان کی زمین کے نیچے وہ دولت چھپی ہے جس پر دنیا جھپٹ کر آتی ہے۔
جن پہاڑوں سے عالمی کمپنیاں اربوں ڈالر کماتی ہیں، وہاں بسنے والے لوگ پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ دنیا کے طاقت ور ممالک پاکستان سے کہتے ہیں ہم سرمایہ لائیں گے، ٹیکنالوجی دیں گے، ترقی کے دروازے کھولیں گے۔
مگر ہر معاہدے میں کوئی نہ کوئی شرط ایسی ہوتی ہے جو ہمیں اپنے ہی وسائل سے دور لے جاتی ہے۔ قرضوں، معاہدوں اور سرمایہ کاری کے نام پر وہی پرانی زنجیریں نئے رنگ میں ہمارے پیروں میں ڈال دی جاتی ہیں۔ سب ایک ہی کھیل کی مختلف چالیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہمیشہ اپنی زمین کی قیمت پر دوسروں کی ترقی دیکھتے رہیں گے؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وسائل وہی قومیں استعمال کر پاتی ہیں جو خود مختاری، انصاف اور مضبوط حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں۔
پاکستان کے پاس دولت ہے مگر اسے اپنے فیصلوں میں طاقت بھی پیدا کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر یہ معدنیات ہمارے لیے نعمت نہیں ایک ایسی کشمکش بن جائیں گی جو ہمیں ہمیشہ دوسروں کے کھیل کا مہرہ بنائے رکھے گی۔
دنیا طاقت کے اس کھیل میں اپنا حصہ چاہتی ہے مگر پاکستان کو یہ فیصلہ خود کرنا ہوگا کہ وہ تماشائی رہے گا مہرہ بنے گا یا اپنے وسائل کا مالک بن کر کھڑا ہوگا۔ زمین کے سینے میں چھپی دولت تب ہی ہمارے کام آئے گی جب اس پر پہلا حق ہم اپنے لوگوں کو دیں۔