لاہور: ای چالان نادہندگان کے خلاف بڑا ایکشن، ڈھائی ہزار سے زیادہ گاڑیاں بلیک لسٹ قرار
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
ٹریفک پولیس لاہور نے ای چالان نادہندہ گاڑیوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرتے ہوئے 2546 گاڑیاں بلیک لسٹ میں شامل کر دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد میں ای چالان کا نفاذ، عدم ادائیگی کی صورت میں کیا ہوگا؟
چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) لاہور ڈاکٹر اطہر وحید نے حکم دیا ہے کہ سیف سٹی اتھارٹی کے تعاون سے ان بلیک لسٹڈ گاڑیوں کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
سیف سٹی اور ٹریفک پولیس کا مشترکہ ایکشن پلان
سی ٹی او لاہور کے مطابق ٹریفک پولیس لاہور اور پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے مل کر ایک جامع ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بلیک لسٹ گاڑیوں کو خودکار نظام سے ٹریس کیا جائے گا۔ شہر بھر میں نصب کیمرے ان گاڑیوں کی نقل و حرکت پر فوری نظر رکھیں گے۔
ادائیگی تک گاڑیاں بند رہیں گی
ڈاکٹر اطہر وحید نے کہا کہ بلیک لسٹ میں شامل گاڑیاں اس وقت تک بند رکھی جائیں گی جب تک ان کے تمام واجب الادا چالان ادا نہیں کر دیے جاتے۔
پولیس اہلکاروں کو خصوصی ہدایات
سی ٹی او لاہور کے مطابق ٹریفک پولیس کی تمام نفری کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ وہ دورانِ ڈیوٹی ہر گاڑی کے ای چالان سسٹم کے ذریعے چیک کریں۔ خلاف ورزی کی صورت میں موقع پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ای چالان کی ادائیگی ہر شہری کی ذمہ داری
ڈاکٹر اطہر وحید کا کہنا تھا کہ لاہور میں نصب جدید کیمرے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ہر گاڑی کا بلاتفریق ای چالان کرتے ہیں، جس کی ادائیگی ہر شہری کے لیے لازم ہے۔
پچاس یا زائد چالان والی گاڑیاں پہلے مرحلے میں بلیک لسٹ
ابتدائی طور پر وہ گاڑیاں بلیک لسٹ کی جا رہی ہیں جن کے پچاس یا اس سے زائد ای چالان واجب الادا ہیں۔ ان گاڑیوں کے مالکان کو فوری طور پر اپنے جرمانے ادا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی سے ٹریفک ڈسپلن میں بہتری
سی ٹی او لاہور نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی اور خودکار نظام کے استعمال سے ٹریفک نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی ہے، اور روڈ سیفٹی کے معیار میں اضافہ ہوا ہے۔
سیف سٹی ٹیموں کو مکمل تعاون کی ہدایت
ڈاکٹر اطہر وحید کے مطابق سیف سٹی اتھارٹی میں تعینات ٹریفک پولیس ٹیموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بلیک لسٹڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائی میں فیلڈ اسٹاف کو مکمل تعاون فراہم کریں۔
خلاف ورزیوں کی روک تھام میں مددگار اقدام
سی ٹی او لاہور نے کہا کہ بلیک لسٹ گاڑیوں کے خلاف یہ سخت کارروائی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرے گی۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی جدید کیمروں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹریفک پولیس لاہور کو مکمل معاونت فراہم کر رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ای چالان بلیک لسٹ چیف ٹریفک آفیسر لاہور ڈاکٹر اطہر وحید.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ای چالان بلیک لسٹ ڈاکٹر اطہر وحید ڈاکٹر اطہر وحید سی ٹی او لاہور ٹریفک پولیس گاڑیوں کے بلیک لسٹ کے خلاف سیف سٹی
پڑھیں:
ای چالان کو جلد صوبے بھر میں نافذ کردیں گے، آئی جی سندھ
کراچی:آئی جی سندھ نے کہا ہے کہ ای چالان ٹریکس کا آغاز کراچی سے کیا گیا ہے تاہم جلد ہی صوبے بھر میں اس کے دائرہ کار کو وسعت دی جائے گی۔
یہ بات انہوں ںے منظم جرائم کے خلاف قومی حکمت عملی کے عنوان سے منعقدہ ایک روزہ سیمینار میں شرکت کے موقع پر خطاب میں کہی۔ سندھ پولیس میوزیم کراچی میں منعقدہ سیمینار کا اہتمام اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم، حکومت برطانیہ، حکومت پاکستان اور سندھ پولیس کے تعاون سے کیا گیا۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ٹریفک ای چالان، ٹریکس کا آغاز بھی ایسی ہی اصلاحات کی بہترین مثال ہے ابھی ٹریکس کا آغاز کراچی سے کیا ہے تاہم جلد ہی صوبے بھر میں اس کے دائرے کو وسعت دی جائے گی، ٹریفک کی کسی بھی خلاف ورزیوں کے لیے ٹریکس فعال کردار ادا کریگا۔ اب ٹریفک پولیس کو مینؤل چیکنگ یا دستی چالان کی اجازت ہر گز نہیں ہے اس اقدام سے ٹریفک پولیس کے خلاف مختلف قسم کے الزامات اور منفی تاثر یکسر ختم ہوجائیں گے، ٹریکس ایک کیمرا بیسڈ ٹیکنالوجی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تھانہ بجٹ کے استعمال کے اختیارات ایس ایچ او کے پاس ہیں سب انسپیکٹر رینک کا افسر ایس ایچ او لگ سکتا ہے مالیاتی استحکام اور خود مختاری سے تھانہ کلچر میں نمایاں بہتری آئے گی۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ پاکستان میں منظم جرائم کے خلاف قومی حکمت عملی کی ترتیب ناگزیر ہے ایسے جرائم کے خلاف، سول سوسائٹیز، اکیڈمیز، سول سروینٹس، تاجربرادری، میڈیا اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کا تعاون اور سپورٹ اشد ضروری ہے، ایسے سیمنارز، تقاریب سے معاشی عدم استحکام اور منظم جرائم کے خاتمے کا راستہ و حکمت عملی کا تعین ہوتا ہے۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ منظم جرائم دراصل کسی گروہ یا جرائم پیشہ افراد کے جتھوں کی ایک منفی سوچ کا نام ہے جو مختلف نیٹ ورک کے تحت مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں ایسے جرائم عام شہریوں میں خوف و ہراس کا باعث بنتے ہیں جس سے معاشی عدم استحکام تقویت پاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کراچی ایک گلوبل سٹی ہے جہاں سرمایہ کاری کے مواقع زیادہ ہیں مقابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کے لیے کراچی ایک بہترین شہر ہے کراچی جو سال 2013 میں ورلڈ کرائم انڈیکس پر چھٹے نمبر پر تھا، قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایجنسیز، پولیس کی شب و روز محنت اور اشتراک سے اس شہر کا امن واپس آیا، آج ہم ورلڈ کرائم انڈیکس میں دہلی، ڈھاکا، تہران، کوالالمپور، پیرس، واشنگٹن و دیگر ممالک سے بدرجہ بہتر ہیں، آج ورلڈ کرائم انڈیکس پر کراچی کا نمبر 19 پلس ہے تاہم گزشتہ سال کراچی 128 ویں نمبر پر تھا منظم جرائم کے خلاف آج تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پلیٹ فارم پر ہیں، اس حوالے سے سی پی ایل سی اور پولیس کا اشتراک انتہائی کارآمد رہا ہے۔
آئی جی نے کہا کہ منظم جرائم، اغوا برائے تاوان الحمداللہ اب اس شہر میں انتہائی کم ہوگئے ہیں ہم نے بھتہ خوری کے خلاف بھی بہتر کام کیا ہے جوکہ اس شہر کا ایک عام جرم تھا کرمنل جسٹس سسٹم کی تقویت سے متاثرین کو انصاف جبکہ ملزمان کو سزائیں یقینی ہوتی ہیں۔ ہم پولیس اسٹیشنز کی سطح پر پبلک سروس میں بہتری لارہے ہیں شہادتوں کو اکٹھا کرنے اور انویسٹی گیشن جیسے امور کو بہتر کررہے ہیں ہمارا بنیادی مقصد بہترین اور مؤثر تفتیش کی بدولت ملزمان کی سزاؤں کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جس نے تھانہ جات و تفتیشی آفیسر کے لیے براہ راست بجٹ مختص کیا ہے، اس وقت 485 پولیس اسٹیشنز کا اپنا بجٹ ہے میں جانتا ہوں کہ تبدیلی ایک رات میں نہیں آتی تاہم اس کے لیے چھوٹی چھوٹی کاوشیں کرنا ضروری ہے ،ڈرائیونگ لائسنس برانچ اس کی ایک بہترین مثال ہے تین سال قبل اسے جدید اور ماڈرن تیکنیکس سے آراستہ کیا آج اس کی تعریفیں زبان زد عام ہے اور ہر ادارہ اسکی کارکردگی کا معترف ہے۔
پانچ سیشنز پر مشتمل سیمینار میں سابق انسپکٹر جنرلز، نمائندہ ایف پی سی سی آئی، کاٹی، آباد، کے سی سی آئی، سینیئر صحافیوں، سماجی رہنماؤں، اساتذہ، محققین اور دیگر نے شرکت کی اور گفتگو کی۔
سیمینار کا مقصد منظم جرائم کے خلاف سندھ کی سول سوسائٹی، اکیڈمیا اور تاجربرادری کو آگاہی فراہم کرنا تھا۔ مقررین نے منظم جرائم کے خلاف قومی حکمت عملی، تاجروں کی بھتہ خوری، قبضہ، عدم تحفظ کے خلاف شکایات، اسٹریٹ کرائم، گاڑی چوری، منشیات اسمگلنگ اور پانی چوری کے خلاف سول سوسائٹی کے کردار، منظم جرائم کے خلاف اور روک تھام میں نوجوانوں، اکیڈمیا، انسانی حقوق کے رہنماؤں کے کردار اور دیگر موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی اور اظہار خیال کیا۔
سابق آئی جی سعود احمد نے افتتاحی جبکہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین اور یو این او ڈی سی کے بیت اللہ خان نے اختتامی کلمات ادا کیے۔