کراچی کی 80 فیصد عمارتیں فائر سیفٹی نظام سے محروم: شہریوں کی زندگیوں کو خطرات
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر) شہر قائد میں فائر سیفٹی کا بحران سنگین صورت اختیار کرگیا ہے، جہاں 80 فیصد عمارتوں میں آگ سے بچاؤ کا کوئی نظام موجود نہیں جبکہ 90 فیصد عمارتوں میں ایمرجنسی راستے تک نہیں، جس کے باعث لاکھوں شہری روزانہ خطرے کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ انکشاف فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن آف پاکستان کے زیر اہتمام تیسری نیشنل فائر سیفٹی کانفرنس اور رسک بیسڈ ایوارڈز کی تقریب میں کیا گیا، جہاں ماہرین نے خبردار کیا کہ بدعنوانی، غفلت اور قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث کراچی کسی بھی وقت بڑے سانحے سے دوچار ہوسکتا ہے۔
آباد کے چیئرمین حسن بخشی نے کہا کہ جن عمارتوں کی تعمیر کے دوران فائر سیفٹی کوڈز کا خیال نہیں رکھا گیا، انہیں این او سی جاری نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق غیر محفوظ عمارتوں کو اجازت دینا شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
ریسکیو 1122 کے سی ای او ڈاکٹر عابد جلال نے بتایا کہ نومبر 2024 سے اب تک کراچی میں 1700 سے زائد آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر کی وجہ شارٹ سرکٹ اور ناقص وائرنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ “جب تک آگ کی روک تھام کو ترجیح نہیں دی جائے گی، واقعات بڑھتے رہیں گے۔”
ریسکیو 1122 کی رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں اب تک 2700 سے زائد آگ لگنے کے واقعات، 1041 ٹریفک حادثات، دس لاکھ سے زیادہ میڈیکل ایمرجنسیز اور 448 ڈوبنے کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔
فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے صدر کنور وسیم نے بتایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) پہلے ہی 500 سے زائد عمارتوں کو غیر محفوظ قرار دے چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے کئی عمارتوں کو چند گھنٹوں میں آگ سے زمین بوس ہوتے دیکھا ہے، اگر احتیاط نہ کی گئی تو جانی نقصان کئی گنا بڑھ جائے گا۔”
انہوں نے بتایا کہ 80 فیصد آگ کے واقعات کی وجہ ناقص وائرنگ ہے جبکہ گیس سلنڈر دھماکوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “فائر فائٹنگ نہیں بلکہ فائر پریوینشن ہی اصل حل ہے۔”
کراچی کے چیف فائر آفیسر محمد ہمایوں نے کہا کہ پورے شہر میں صرف 28 فائر اسٹیشنز ہیں، حالانکہ آبادی کے لحاظ سے کم از کم 200 ہونے چاہئیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک 34 فائر فائٹرز اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔ “ہمارا ریسپانس ٹائم ڈیڑھ منٹ تک کم ہے، مگر ٹریفک، بند راستے اور اداروں کی عدم ہم آہنگی تاخیر کا باعث بنتی ہے، شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔”
سی ای او حسین حبیب کارپوریشن فواد باری نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ 10 سے 15 ہزار آگ کے واقعات پیش آتے ہیں جن سے 800 ارب روپے تک کے مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ “ہر 38 فٹ سے اونچی عمارت میں فائر الارم، ہائیڈرنٹس، ایکزٹ ڈورز اور ہنگامی راستے لازمی ہونے چاہئیں، مگر کراچی کی 80 فیصد عمارتوں میں یہ سہولتیں غائب ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ کرپشن اور کمزور قانون نافذ کرنے والے ادارے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، “جہاں فائر کوڈز موجود ہیں وہاں بھی رشوت کے ذریعے غیر محفوظ عمارتوں کو اجازت نامے دے دیے جاتے ہیں۔”
پی آئی اے کے کیپٹن محسن نے کہا کہ ملک میں برن سینٹرز کی شدید کمی ہے، “آگ کے بڑھتے واقعات کے باوجود علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمیں کم آتش گیر میٹیریلز کے استعمال کو لازمی قرار دینا ہوگا۔”
ہلال احمر سندھ کے چیئرمین ریحان ہاشمی نے کہا کہ “شہر کی خستہ سڑکیں، ناقص منصوبہ بندی اور غیر مربوط ادارے آگ کے پھیلاؤ کو بڑھا رہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو فوری طور پر بااختیار بنانا ہوگا۔ کراچی کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔”
اسکاوٹس کے سیکریٹری اختر میر نے تجویز دی کہ فائر سیفٹی کو اسکولوں میں بطور لازمی مضمون شامل کیا جائے۔ “ہر شہری کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایمرجنسی میں کیا کرنا ہے، باشعور شہری ہی محفوظ شہر کی ضمانت ہیں
مقررین نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ حکومت ایک جامع قانون بنائے، سخت نگرانی کرے، عوامی آگاہی بڑھائے اور فائر پریوینشن میں سرمایہ کاری کرے تاکہ پاکستان کا معاشی مرکز مزید کسی بڑے سانحے کا شکار نہ ہو۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نے بتایا کہ فائر سیفٹی عمارتوں کو کے واقعات نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
اہل کراچی کیلیے ای چالان برقرار؛ صوبائی وزیر نے جرمانوں میں کمی کا امکان مسترد کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ نے واضح اعلان کر دیا ہے کہ ای چالان کا نظام صرف کراچی کے شہریوں کے لیے ہے اور حکومت اس میں کسی قسم کی نرمی یا جرمانے کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کو بہتر نظم و نسق، جدید شہری انتظام اور نظم و ضبط کی جانب لے جانے کے لیے ایسے اقدامات ناگزیر ہیں اور جو شہری قوانین پر عمل نہیں کریں گے وہ پابند ہوں گے کہ مقررہ فیس اور جرمانے ادا کریں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ناصر حسین شاہ نے بتایا کہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے اہم اجلاس میں شہر کے مختلف ڈویژنز میں بورڈ کو زیادہ فعال بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جا بجا کچرا جمع ہوتا ہے، اس لیے گھروں سے باقاعدہ کچرا اٹھانے کے نظام کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت شہر کے ہر حصے میں بہتری کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے اور اگلے چند ہفتوں میں واضح تبدیلیاں سامنے آنا شروع ہو جائیں گی۔
سیاسی ماحول پر بات کرتے ہوئے وزیر بلدیات نے کہا کہ بعض جماعتیں محض سیاسی فائدے کے لیے ایسے بیانات دیتی رہتی ہیں جو زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتے۔ انہوں نے خاص طور پر ایم کیو ایم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو مضبوط دکھانے کے لیے مختلف قسم کی باتیں اچھالتی رہتی ہے۔
ناصر شاہ نے کہا کہ انہوں نے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی سمیت سب سے رابطہ کیا ہے، مگر بعض عناصر پرانی روش سے باز نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر موسم گرم ہوتا تو شاید انہیں ٹھنڈا شربت پلا کر بات سمجھانے کی کوشش کرتے، لیکن فی الحال انہیں ایسی باتوں پر ہی رہنے دیں۔
ای چالان کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ یہ نظام کراچی کے شہریوں پر ہی لاگو رہے گا اور اس کے جرمانوں میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ اگر کراچی کو صاف، محفوظ اور قانون کے مطابق چلنے والا شہر بنانا ہے تو سب کو مل کر قوانین پر عمل کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ لوگ اکثر جرمانوں میں کمی کی توقع رکھتے ہیں مگر ایسا کرنے سے شہر میں قانون شکنی کے رجحانات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
بلدیاتی نظام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت لوکل گورنمنٹ کو مکمل بااختیار بنانے کی جانب بڑھ رہی ہے، لیکن بعض جماعتیں اس عمل سے مسلسل پیچھے ہٹتی رہی ہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کر چکی ہے، جب کہ پی ٹی آئی نے پنجاب میں پورا بلدیاتی نظام ہی ختم کر دیا تھا، جس سے شہری انتظام کو بہت نقصان پہنچا۔