غزہ جنگ کے 2 سال: امریکی یہودیوں کے اسرائیل مخالف جذبات میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
اسرائیل کی غزہ پر تباہ کن جنگ تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے اور اب اس کے خلاف مخالفت صرف عالمی سطح پر ہی نہیں بلکہ خود یہودی برادری کے اندر سے بھی اٹھنے لگی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی یہودیوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کھلے عام اسرائیل کی کارروائیوں کو ’جنگی جرائم‘ اور ’نسل کشی‘ قرار دے رہی ہے، جو ماضی میں غیر متزلزل سمجھی جانے والی اسرائیل کے لیے بیرون ملک مقیم یہودیوں کی جانب سے حمایت میں ایک بڑی دراڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہ تبدیلی دراصل 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملے کے بعد شروع ہونے والے طویل فوجی آپریشن کے خلاف عالمی ردعمل کا حصہ ہے، واشنگٹن سے سڈنی تک عوامی رائے اسرائیل کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ایک حالیہ سروے کے مطابق 42 فیصد امریکی بالغ افراد نے ٹرمپ انتظامیہ کی اس تنازعے سے نمٹنے کی پالیسی پر عدم اطمینان ظاہر کیا، جبکہ آسٹریلیا میں اسرائیلی قیادت پر پابندیوں کی حمایت بڑھ رہی ہے، خود اسرائیل میں بھی اکثریت اب سمجھتی ہے کہ غزہ کی جنگ ختم ہونی چاہیے۔
واشنگٹن پوسٹ کے ایک سروے کے مطابق 61 فیصد امریکی یہودیوں کا ماننا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگی جرائم کیے ہیں، جبکہ تقریباً 40 فیصد اسے فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
ایک تہائی کے قریب افراد کا کہنا ہے کہ امریکا اسرائیل کی حد سے زیادہ حمایت کر رہا ہے، جبکہ دو تہائی سے زیادہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی قیادت کو منفی انداز میں دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاطینی امریکا کے رہنما اسرائیل مخالف مؤقف کیوں اپناتے ہیں؟
اس کے باوجود بیشتر امریکی یہودی اسرائیل سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، اس کے وجود کو یہودی قوم کے مستقبل کے لیے ضروری سمجھتے ہیں اور امریکا کی فوجی امداد جاری رکھنے کے حامی ہیں۔ تاہم تقریباً ایک تہائی نے کہا کہ وہ خود امریکا میں محفوظ محسوس نہیں کرتے۔
سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ 80 فیصد یا اس سے زیادہ امریکی یہودی غزہ میں شہری ہلاکتوں، حماس کے قبضے میں اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیلی فوجیوں کی سلامتی پر تشویش رکھتے ہیں۔ اکثریت نے کہا کہ جنگ کے جاری رہنے کی ذمہ داری اسرائیل، حماس، نیتن یاہو اور امریکا سب پر عائد ہوتی ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے کے مطابق تقریباً 2 سال بعد امریکی عوام میں اسرائیل کی جنگی پالیسی اور حکومت کے بارے میں بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ امریکا، یہودیوں نے احتجاج کیوں کیا؟
اب 59 فیصد امریکی اسرائیلی حکومت کو منفی انداز میں دیکھتے ہیں، جو 2024 کے آغاز میں 51 فیصد تھی۔ 39 فیصد کا خیال ہے کہ اسرائیل غزہ میں حد عبور کرتا جا رہا ہے۔
سروے میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ 33 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ امریکا اسرائیل کو ضرورت سے زیادہ فوجی امداد دے رہا ہے، جبکہ 35 فیصد کے نزدیک غزہ کے شہریوں کے لیے انسانی امداد ناکافی ہے۔ تقریباً 80 فیصد امریکیوں نے فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں، بھوک اور یرغمالیوں کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی۔
مزید پڑھیں: امریکا اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ویزے کیوں روک رہا ہے؟
آسٹریلیا میں کیے گئے ایک پول کے مطابق 69 فیصد شہری اسرائیل کی غزہ پر فوجی کارروائی ختم کرنے کے حامی ہیں، جن میں سے 53 فیصد نے اس موقف کی ’پوری طرح‘حمایت کی۔ نصف سے زیادہ آسٹریلوی عوام چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت روس پرعائد پابندیوں کی طرح اسرائیل پر بھی سخت اقدامات کرے۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 66 فیصد اسرائیلی اب سمجھتے ہیں کہ جنگ ختم کرنے کا وقت آ چکا ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یرغمالیوں کی جانوں کو لاحق خطرہ ہے۔
مزید پڑھیں: جان ایف کینیڈی کے قتل کی کہانی میں اسرائیل کا نام، مارجری گرین ٹیلر نے نئی بحث چھیڑ دی
فارن پالیسی میگزین کے ایک تجزیے کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے واقعات نے اسرائیل کو بنیادی طور پر بدل کر رکھ دیا، اگرچہ بڑے پیمانے پر تباہی اور بحران کی پیش گوئیاں جزوی طور پر درست ثابت نہیں ہوئیں، لیکن اسرائیل کو اقتصادی سست روی اور سیاسی بےاعتمادی کا سامنا ضرور ہے۔
اسرائیل کی نسل کش جنگ میں گزشتہ 2 سالوں کے دوران 67 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ حماس کے مطابق 7 اکتوبر کا حملہ ’فلسطینی مزاحمت کو مٹانے کی کوششوں کے جواب میں تاریخی کارروائی‘ تھی، اسرائیلی اعدادوشمار کے مطابق اس حملے میں 1,219 افراد مارے گئے تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ ٹرمپ انتظامیہ جنگی جرائم عدم اطمینان نسل کشی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹرمپ انتظامیہ جنگی جرائم امریکی یہودی فیصد امریکی میں اسرائیل مزید پڑھیں اسرائیل کی کے مطابق سے زیادہ کے خلاف رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
امریکا نے پاکستان سمیت 30 سے زائد ممالک کو جدید ایمریم میزائل فروخت کرنےکی اجازت دے دی
فوٹو: فائلامریکا نے پاکستان کو میزائل ایمریم کے خریداروں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ نے امریکی دفاعی کمپنی ریتھیون کے جاری کردہ خریداروں کی فہرست میں ترمیم کردی ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی دفاعی کمپنی اب پاکستان کو بھی جدید درمیانے فاصلے کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ایمریم فروخت کرسکے گی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ترمیم کے بعد معاہدے کی مجموعی مالیت 2 اعشاریہ 47 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 2 اعشاریہ5 ارب ڈالرز ہو گئی ہے۔
برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت پاکستان سمیت 30 سے زائد ممالک کی افواج کو عسکری سامان فروخت کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ، پولینڈ، جرمنی، فن لینڈ، آسٹریلیا، رومانیہ، قطر، عمان، کوریا، یونان، سوئٹزرلینڈ ،پرتگال، سنگاپور، ہالینڈ، جمہوریہ چیک، جاپان، سلوواکیہ، ڈنمارک، کینیڈا، بیلجیم، بحرین، سعودی عرب، اٹلی، ناروے، اسپین ،کویت، سویڈن، فن لینڈ، کویت، سویٹزرلینڈ، ہنگری سمیت دیگر ممالک کی افواج کو عسکری سامان فروخت کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے بھارت کے خلاف پاکستانی میزائلوں کی کامیابی نے امریکی میزائل پروگرام کو تیز کردیا، بھارتی طیاروں کو 100 میل دور سے مار گرایا گیا دشمن پر ہیبت طاری کرنے والا فتح-ون میزائل کن خصوصیات کا حامل ہے؟ پاکستانی ’الفتح میزائل‘ کی لانچ شہید پاکستانی بچوں کے ناممیڈیا رپورٹ میں امریکی فضائیہ کے حوالے سے بتایا گیا کہ ایمریم اے آئی ایم- 120 جدید درمیانے فاصلے کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ہیں، جو ہر موسم میں نظر کی حد سے دور اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان میزائلوں کو امریکی ایئر فورس، بحریہ اور امریکا کے اتحادیوں کے لیے بنایا جاتا ہے، یہ میزائل 40 ممالک خرید چکے ہیں، یہ میزائل ایف-15، ایف-16 فیلکن طیاروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ میزائل ایف-18 فپر ہورنیٹ اور جدید ایف-35 سمیت متعدد لڑاکا طیاروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈی تھری 120 میزائل 180 کلومیٹر کی دوری تک مار کر سکتے ہیں، اسے چینی پی ایل 15 میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے پاکستان کو ایمریم میزائلوں کے خریداروں کی فہرست میں شامل کرنے کو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی گرمجوشی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔