Juraat:
2025-10-09@03:29:35 GMT

غزہ کاامن اور انعام کا جنون

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

غزہ کاامن اور انعام کا جنون

حمیداللہ بھٹی

کیادوریاستی حل مشرقِ وسطیٰ کے امن کا ضامن ثابت ہو گا ؟اِس حوالے سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر امریکی صدر کے حماس پر دبائو سے واضح ہے کہ امن منصوبہ تسلیم کرلیاجائے گااورمصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے بالواسطہ مزاکرات میں قیدیوں کے تبادلے کا طریقہ کار بھی طے پاجائے گا۔ امن منصوبے کے نتائج کا دنیا کوہی شدت سے انتظار نہیں بلکہ امریکی صدر بھی یقینابے چین ہوں گے کیونکہ نوبل انعام تقسیم کرنے کے لیے نامزدگی کاعمل رواں ماہ چھ اکتوبر سے شروع ہوچکا ہے جو تیرہ اکتوبر مکمل ہوجائے گا جس کا حصول امن منصوبے کے نتائج پرہے مگر ایسے حالات میں جب قطر اور مصر کے اہلکار مزاکرات میں فریقین سے امن منصوبے پر عملدرآمد کے حوالے سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں پھربھی غزہ پر اسرائیل بمباری کررہا ہے۔ فضائی حملے جاری ہیں جنونی فوجی بھی قتل عام میں مصروف ہیں تاکہ سیز فائر سے قبل زیادہ سے زیادہ شہری آبادی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ وحشت و سفاکیت ہے جسے دفاع کا حق نہیں کہہ سکتے۔ یہ تو ایک طاقتور وحشی کا کمزور پرظلم وجبرہے۔ اِتنے جرائم میں شریکِ کارہونے کے باوجودٹرمپ کی طرف سے نوبل انعام کی آرزوباعث تعجب ہے۔
حق حکمرانی سے دستبرداری حماس کے لیے مشکل مرحلہ ضرورہے لیکن ناممکن نہیں کیونکہ ایسا کرنے کے سوا اُس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ البتہ غزہ سے اسرائیل کا مکمل طورپر فوجی انخلا ہونا کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ اُسے امریکی حمایت اور اسلحے کی فراہمی جاری ہے۔ اِس لیے آپشن بھی لامحدودہیں۔ سات اکتوبر 2023کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے حماس کو مسلسل مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ میرا شروع سے موقف رہا ہے کہ حماس نے حملے کی حماقت کی ہے اب اِس کے نتائج غزہ کے عام مکین بھگتیں گے ۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا اسرائیل نے وحشیانہ حملوں سے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ا سکولوں ،ہسپتالوں ،رہائشی عمارتوں اور امدادی مراکز کو ملبے کا ڈھیر بنا دیااور اب ناکہ بندی سے معصوم شہریوں کو بھوک و پیاس سے ماررہا ہے۔ یہ درندگی ہی دنیا کو جگانے کا باعث بنی دنیا کے چوالیس ممالک کے رضا کار اپنی حکومتوں کی لاتعلقی کے باوجودغزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ صمودفلوٹیلا کے نام سے حال ہی میں پچاس کشتیوں کے ذریعے پانچ سو رضا کارغزہ کے قریب گرفتار ہوئے۔ اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اورایران میں حماس رہنمااسمعیل ہانیہ کو نشانہ بنایا۔ امریکی اتحادی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس وفد پر حملہ کیا ۔خطے کاامن برباد کرنے کے لیے امریکہ نے اسرائیل کو دفاع کے نام پرکُھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ غزہ میں امن کے لیے جب بھی اقوامِ متحدہ میں قرارداد پیش کی گئی۔ امریکہ مسلسل ویٹو کررہاہے۔ ٹرمپ غزہ نسل کشی کے جُرم میں شریک کار ہے۔ اِن حالات میں امن کا نوبل انعام دنیا انصاف نہیں طاقتور کے آگے جھکنا ہوگا۔
پاکستان سمیت آٹھ اسلامی ممالک نے غزہ جنگ بندی کے لیے حماس کے مثبت ردِ عمل کا خیر مقدم کیا ہے مگر حکومتوں کی طرف سے سراہنے کے باوجودعوام کو تحفظات ہیں ۔خیر حماس کے پاس ایسا متبادل ہی نہیں کہ وہ اِس کے سواکچھ اور سوچ سکے جب ہر بار اقوامِ متحدہ میں امن کی قرارداد کو امریکہ ویٹو کر دیتا ہے اور ایک برس سے غزہ میں ادویات ،کھانے پینے کی اشیا سمیت صاف پانی تک کی قلت ہے۔ ایسے حالات میں حماس کی رضامندی ایک قسم کی مجبوری ہے ۔یہ مجبوری ہی امریکی صدر کی ناپسندیدہ شرائط کو تسلیم کرنے کا موجب ہے۔ حماس کی طرف سے اپنااسلحہ خود مختار فلسطینی ریاست کے حوالے کرنے کا وعدہ معاملات سے الگ ہونے کی طرف اِشارہ ہے لیکن ایسے حالات میںجب دنیا کے تجزیہ کار متفق ہیں کہ ایک مکمل طور پر آزاد وخود مختار فلسطینی ریاست کا ظہور ناممکن ہے توسوال یہ ہے کہ حماس اپنا اسلحہ کس کے حوالے کرے گی؟ اسرائیل کیسے اور کب فوجی انخلا کرے گا؟ بظاہر ایسے کئی سوالات ہیں جن کاکسی کے پاس جواب نہیں توسوال یہ ہے کہ جب غزہ کا امن بحال نہیں ہو نا تو امن کا نوبل انعام کا جنون کیونکرہے؟
79سالہ امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی ذہانت اور معاملہ فہمی پر ناز ہے وہ ایک متکبر اور نمود ونمائش کا رسیا ایسا شخص ہے جسے اپنی ذات کے سواکسی کی کم ہی پرواہ ہوتی ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ٹرمپ سے زیادہ سوئیڈن کی بائیس سالہ گریٹا تھون برگ عوام میں زیادہ قابلِ اعتبار اور لائقِ احترام ہے جومظاہرے کی پاداش میں اپنے ملک میں بگرفتار ہوئی اورتمام تر نامساعد حالات کے باوجود غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کی عملی کوشش کی۔ ٹرمپ سے تو اُن کے اپنے ملک کی عوامی اکثریت بدظن ہے۔ فلسطینی تو ویسے بھی اُنھیں ناپسند کرتے ہیں ۔عین ممکن ہے مسلم حکمرانوں کی حمایت سے ٹرمپ ناانصافی پر مبنی اپنا امن منصوبہ منوا لے اور امن کا نوبل انعام بھی حاصل کر لے لیکن خطے میںحقیقی امن ملنے کے آثار کم ہیں۔ کیونکہ امن کی آڑ میں انھیں اسرائیل کومحفوظ و مستحکم بنانے کا جنون ہے۔ اسی لیے غزہ میں سیز فائر کی ہر کوشش کو ویٹوپاور سے ناکام بناکر اسرائیل کو قتل عام کے مواقع دیے سترہزار معصوم شہریوں کی خونریزی کرانے کے بعد امن کانوبل انعام لیناویسے ہی بے معنی ہوجاتا ہے۔
1994میں اوسلوامن معاہدے کے تین اہم کرداروں پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات ، اسرائیل کے دو سابق وزرائے اعظم شمعون پیریز اور اسحاق رابن کو بھی امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اِ ن میں اسحاق رابن کو تو ایک جنونی یہودی نے قتل کر دیا۔مزیدحیرانگی کی بات یہ کہ اِس قتل پر اسرائیل میں خوشیاں منائی گئیں۔اِس واقعہ سے اسرائیلیوں کی سوچ آشکارہوتی ہے کہ امن کے علمبرداروں کو وہ پسند نہیں کرتے اِسی لیے فلسطینیوں کو امن نصیب نہیں ہورہا۔غزہ کا قتلِ عام جدید دنیا کا ہولوکاسٹ ہے۔ خیر ٹرمپ کی بھی مسلم دشمنی کسی سے پوشید ہ نہیں ۔وہ نفرت چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اِس کے باوجود مسلم ممالک کی طر ف سے نام نہادامن منصوبہ قبول کرنا سمجھ سے باہرہے اور ہاں غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانا یا توڑنا تو اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی ذمہ داری تھی مگر یہ دونوں اِدارے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکے جب سب کومعلوم ہے کہ ٹرمپ قتلِ عام کا سرپرست اور مذہبی تعصب رکھتاہے تو امن کا نوبل انعام حاصل کرنے میں مسلم ممالک کی سہولت کاری ناقابلِ فہم ہے۔

 

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: امن کا نوبل انعام امریکی صدر ناکہ بندی حالات میں حماس کے ہیں کہ کے لیے کی طرف غزہ کی

پڑھیں:

حماس کو مٹانے کی دھمکی دینے والا اسرائیل آج مذاکرات پر مجبور ہے، مشاہد حسین

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: سینیٹر مشاہد حسین کاکہنا  ہے کہ اسرائیل نے ماضی میں حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے  کی بات کی تھی مگر اب وہ خود مذاکرات کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق مشاہد حسین نے حماس کے مجاہدین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پُختہ مزاحمت نے معاملات کی سمت بدل دی ہے، دو سال قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ حماس کو مٹا دیں گے، لیکن آج اسرائیل اور حماس مذاکرات کر رہے ہیں اور یہ مذاکرات در حقیقت امریکہ کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حماس کے ٹویٹس کو ری ٹویٹ کر رہے ہیں، 22 ستمبر کو  بائیڈن اور مودی  نے اعلان کیا کہ نیا کوریڈر بن رہا ہے جبکہ 24 ستمبر کو نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو نقشہ دکھایا اس میں فلسطین کا نام شامل نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں ہر ایک گھنٹے میں ایک فلسطینی بچہ شہید ہوا اور اسرائیل نے متعدد ممالک پر حملے کیے، عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں تبدیلی آئی ہے اور پاکستان کا علاقائی سیاسی مقام مضبوط ہو رہا ہے۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کو جنگ میں شکست دی اور بھارت کے پیچھے اسرائیل تھا؛ ایران نے بھی اسرائیل کو ہرایا اور اسرائیل کے پیچھے بھارت تھا۔

 انہوں نےمزید کہا کہ ایران کے سلامتی مشیر علی لاریجانی اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے،پاکستان کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں،سینیٹر نے تصدیق کی کہ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے اور افغانستان کے معاملے میں چین، پاکستان اور افغانستان مشترکہ کوششیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بگرام ایئربیس امریکا کو نہیں دیا جائے گا اور افغان طالبان اسے کبھی تسلیم نہیں کریں گے، مجھے نہیں لگتا کہ اب بھارت دوبارہ پاکستان پر جنگ مسلط کرے گا کیونکہ گزشتہ جھڑپوں میں بھارت کو  واضح مار پڑی ہے اور اگر دوبارہ کوئی جارحیت ہوگی تو پاکستان کڑا جواب دے گا،  مغرب اور امریکا کی عالمی ساکھ میں کمی آ رہی ہے جبکہ پاکستان کی خطے میں پوزیشن مضبوط ہوتی جارہی ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • امن کا سارا بوجھ حماس پر ڈالنا ٹھیک نہیں، اسرائیل کو حملے بندکرنا ہوں گے، اردوان
  • اسرائیل پر اعتبار نہیں، حماس ، مذاکرات کیلئے ٹرمپ سے ضمانت مانگ لی
  • حماس اسرائیل مذاکرات کا  دوسرا دور ختم، جنگ  بندی کی  ضمانت پر سوال؟
  • گجرات :غزہ پرمسلسل حملے کے 2 برس طارق سلیم کی زیرقیادت ریلی
  • صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں لیکن اسرائیل نے نسل کشی نہیں روکی، حماس
  • دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
  • حماس کو مٹانے کی دھمکی دینے والا اسرائیل آج مذاکرات پر مجبور ہے، مشاہد حسین
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ یا دفاعِ اسرائیل روڈ میپ؟
  • غزہ کا منظر نامہ اور ملین مارچ