’’736 دن بعد آزادی: دنیا بدلی یا کہانی؟‘‘
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251015-03-6
محمد مطاہر خان
غزہ کی سرزمین ایک بار پھر عالمی خبروں کا مرکز بن چکی ہے۔ دو سال، یعنی 736 دن بعد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اگرچہ امن کی جانب ایک امید افزا قدم سمجھی جا رہی ہے، مگر تل ابیب اور یروشلم میں عوامی غصے کا لاوا پھٹ پڑا ہے۔ اسرائیلی شہری سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یہ معاہدہ آج ممکن تھا تو پہلے کیوں نہیں؟ یہ احتجاج محض جذباتی ردعمل نہیں بلکہ ایک سیاسی زلزلہ ہے، جس نے نیتن یاہو کی حکومت کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، حماس نے ریڈ کراس کی نگرانی میں 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا ہے، جبکہ 28 لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی گئیں۔ اس کے بدلے میں 1,716 فلسطینی قیدیوں کو آزادی ملی، جن میں خواتین، بچے اور عمر قید کے اسیر شامل ہیں۔ اس تبادلے کے مناظر نہایت جذباتی تھے غزہ میں قیدیوں کا فقید المثال استقبال کیا گیا، جبکہ اسرائیل میں خوشی کے بجائے غصے اور بے چینی کی فضا چھا گئی۔ تل ابیب کی سڑکوں پر احتجاجی نعروں کی گونج سنائی دی۔ عوام نے وزیر ِ اعظم نیتن یاہو سے سوال کیا: ’’یہ سب اتنی دیر سے کیوں ہوا؟ اگر معاہدہ پہلے ہو جاتا تو ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں‘‘۔ نیتن یاہو کے خلاف نعرے بازی اور شدید عوامی دباؤ نے اسرائیلی حکومت کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں۔
غزہ امن معاہدے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق ایلچیوں جیرڈ کْشنر اور اسٹیو وٹکوف کا کردار ایک بار پھر زیر ِ بحث ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اسرائیلی حکومت کی ’’تاخیری پالیسی‘‘ کی حمایت کی اور امن مذاکرات کو ذاتی شہرت کا ذریعہ بنایا۔ عوامی دباؤ کے سامنے ٹرمپ کے نمائندے بھی تنقید سے نہ بچ سکے۔ ٹرمپ کی حالیہ تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’’غزہ میں جنگ ختم ہو چکی ہے، یہ ایک نیا آغاز ہے‘‘۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ اختتام ہے یا محض ایک وقفہ؟ کیونکہ اسی روز اسرائیلی افواج نے مغربی کنارے میں چھاپوں کا سلسلہ تیز کر دیا۔ اس دوہرے رویے نے عالمی برادری کو شکوک میں ڈال دیا ہے کہ کیا اسرائیل امن چاہتا بھی ہے یا نہیں۔ شرم الشیخ میں ہونے والے امن معاہدے پر امریکا، ترکیہ، مصر اور قطر کے سربراہان نے دستخط کیے۔ وزیر ِ اعظم شہباز شریف کی شرکت نے پاکستان کے اصولی مؤقف کو ایک بار پھر نمایاں کیا کہ خطے کا پائیدار امن صرف فلسطینی ریاست کے قیام سے ممکن ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس معاہدے کا خیرمقدم کیا، مگر ان کا بیان واضح تھا: ’’اب وقت ہے کہ فریقین اپنے وعدوں پر عمل کریں، ورنہ یہ امن وقتی ثابت ہوگا‘‘۔ گوتریس نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ غزہ میں ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی لاشوں کو عزت و احترام کے ساتھ واپس کیا جائے۔
غزہ میں رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کے مناظر آنکھوں کو نم کر دینے والے تھے۔ نصر اسپتال کے صحن میں جب رہائی پانے والی خواتین نے اپنے بچوں کو گلے لگایا تو یہ منظر انسانی احساسات کی گہرائی کا مظہر تھا۔ مگر سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا یہ رہائی پائیدار امن کی ضامن ہے؟ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے واضح کیا ہے کہ ’’یہ تبادلہ ایک انسانی بنیاد پر کیا گیا، نہ کہ اسرائیل کے دبائو پر‘‘۔ حماس کے ترجمان کے مطابق، اگر اسرائیل دوبارہ جارحیت کرے تو فلسطینی مزاحمت دوبارہ سر اٹھائے گی۔ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیلی سیاست میں ایک نیا بحران جنم لے چکا ہے۔ نیتن یاہو کو نہ صرف حزبِ اختلاف بلکہ اپنی ہی پارٹی کے ارکان کی جانب سے بھی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ احتجاج ’’سیاسی زوال‘‘ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ٹرمپ کی تقریر کے دوران دو ارکان کا فلسطینیوں کے حق میں احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیلی معاشرہ اندر سے منقسم ہو چکا ہے۔ ایک طبقہ مسلسل جنگ اور قبضے کی پالیسی کا حامی ہے جبکہ دوسرا امن، انصاف اور فلسطینی ریاست کے قیام کو ضروری سمجھتا ہے۔
غزہ امن معاہدے کے باوجود مغربی ممالک کے رویے میں تضاد برقرار ہے۔ امریکا اسرائیل کو سفارتی تحفظ فراہم کرتا رہتا ہے، جبکہ یورپی ممالک انسانی حقوق کے بیانات تک محدود ہیں۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے بجا طور پر کہا کہ ’’ٹرمپ کا مشرقِ وسطیٰ امن منصوبہ صرف غزہ تک محدود ہے، فلسطینی ریاست کے قیام پر ابہام موجود ہے‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک عالمی طاقتیں مسئلہ فلسطین کو انصاف کی بنیاد پر حل نہیں کرتیں، تب تک کوئی بھی امن معاہدہ عارضی ہوگا۔ یرغمالیوں کی رہائی کا انسانی پہلو سب سے اہم ہے۔ چاہے وہ اسرائیلی خاندان ہوں یا فلسطینی، دونوں نے اپنے پیاروں کو کھونے کا درد سہا ہے۔ غزہ میں تباہ حال عمارتوں اور یتیم بچوں کی چیخیں انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ ایک فلسطینی ماں نے کہا، ’’میرے بیٹے کو 12 سال بعد واپس پایا ہے، مگر میرا گھر، میرا شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے‘‘۔ یہ جملہ کسی سیاسی نعرے سے زیادہ گہرا ہے۔ یہ اس جنگ کی اصل قیمت ہے جو طاقت، انا اور مفاد کے نام پر انسانیت سے وصول کی جا رہی ہے۔
736 دن بعد یرغمالیوں کی رہائی یقینا ایک بڑی پیش رفت ہے، مگر یہ تب ہی پائیدار ثابت ہوگی جب انصاف کو فوقیت دی جائے گی۔ جنگ کا خاتمہ صرف اس وقت ممکن ہے جب اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرے، قبضہ ختم کرے اور انسانی مساوات کے اصولوں پر عمل کرے۔ دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ امن توپ و تفنگ سے نہیں، بلکہ ضمیر کی بیداری سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر عالمی طاقتیں واقعی امن چاہتی ہیں، تو انہیں طاقتور کے نہیں، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ غزہ میں قیدیوں کے تبادلے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ طاقت سے نہیں بلکہ مذاکرات اور انسانی ہمدردی سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔ مگر اسرائیلی قیادت کی تاخیر، مغربی دنیا کی منافقت اور عالمی اداروں کی بے بسی نے اس حقیقت کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اب فیصلہ عالمی ضمیر کو کرنا ہے آیا وہ انصاف کے ساتھ کھڑا ہوگا یا مفاد کے ساتھ۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کے قیام یرغمالیوں کی رہائی ایک بار پھر نیتن یاہو کے ساتھ
پڑھیں:
غزہ سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی آج شروع ہوگی، تمام تیاریاں مکمل
غزہ: فلسطینی تنظیم حماس آج 20 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا عمل شروع کرے گی، جبکہ معاہدے کے مطابق اسرائیلی مغویوں کی رہائی کے فوراً بعد فلسطینی قیدیوں کو بھی آزاد کیا جائے گا۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ وہ 28 دیگر یرغمالیوں کی لاشیں وصول کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جن کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے۔
ترجمان اسرائیلی حکومت کے مطابق، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اسی وقت ممکن ہوگی جب غزہ سے یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے۔
دوسری جانب حماس کے سیاسی بیورو کے سینئر رکن غازی حماد نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کی فہرست میں بار بار تبدیلیاں کر رہا ہے، جس سے عمل میں تاخیر ہو رہی ہے۔
غازی حماد نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر عالمی دباؤ کم ہوا تو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو دوبارہ جارحیت پر اتر سکتے ہیں۔ انہوں نے عرب ممالک اور ثالثی کردار ادا کرنے والے ممالک سے اپیل کی کہ غزہ امن معاہدے پر مکمل عملدرآمد یقینی بنائیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حماس مصر، قطر اور ترکی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور معاہدے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی کی تمام تیاریاں مکمل کر چکی ہے، تاہم اسرائیل کی جانب سے دستاویزات کی تصدیق میں تاخیر نے رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں۔