اسرائیل پر عدم اعتماد، حماس نے مذاکرات کیلئے ٹرمپ سے ضمانت طلب کرلی
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قاہرہ/شرم الشیخ: فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور اسرائیل کے درمیان مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری بالواسطہ مذاکرات آج بھی جاری رہے، جہاں قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے سمیت جنگ بندی کے مستقل حل پر پیش رفت کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
حماس کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ خلیل الحیہ نے تصدیق کی کہ ان کی جماعت نے اسرائیل کے ساتھ طے شدہ فہرست کے مطابق قیدیوں اور یرغمالیوں کی فہرست کا تبادلہ مکمل کر لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حماس امن معاہدے کے لیے سنجیدہ اور مثبت رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، تاہم ڈیل اسی وقت ممکن ہے جب امریکہ اور ثالث ممالک اس بات کی ضمانت دیں کہ غزہ پر جنگ ہمیشہ کے لیے ختم کر دی جائے گی۔
ادھر ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ترکی حماس کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور صدر ٹرمپ کی قیادت میں جاری امن کوششوں کی حمایت کرتا ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ غزہ ہر حال میں فلسطین کا حصہ رہے گا۔
ذرائع کے مطابق آج کے مذاکرات میں قطر کے وزیراعظم، امریکی مندوبین اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر سمیت ترکی کے انٹیلی جنس سربراہ ابراہیم قالن کی قیادت میں ترک وفد بھی شریک ہوگا۔ ان مذاکرات کو خطے میں ممکنہ جنگ بندی اور انسانی بحران کے خاتمے کی سمت اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اگر حماس سے مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ پھر شروع کردیں گے، اسرائیلی فوجی سربراہ
تل ابیب: اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جاری مذاکرات ناکام ہوئے تو اسرائیل غزہ میں فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دے گا۔
جنرل ضمیر نے اپنی فوجی کمانڈروں سے خطاب میں کہا کہ موجودہ وقت جنگ بندی نہیں بلکہ "آپریشنل صورتحال میں تبدیلی" ہے اور مذاکرات ناکامی کی صورت میں آپریشنز پھر بحال کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی کارروائیوں سے حاصل ہونے والی فیلڈ میں کامیابیاں سیاسی مذاکرات میں وزن دے رہی ہیں، مگر اگر سیاسی راستہ ناکافی رہا تو فورسز کو دوبارہ میدان میں لانا پڑے گا۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب حماس اور بین الاقوامی ثالث یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں۔
بعد ازاں امریکی صدارت کی جانب سے بھی اشارہ دیا گیا تھا کہ حماس اگر غزہ کا کنٹرول چھوڑنے سے انکار کرے تو سخت نتیجے بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ عسکری اور سیاسی قیادت کی یہ پیشین گوئیاں مذاکراتی عمل اور کشیدگی دونوں کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔