Jasarat News:
2025-10-13@17:43:53 GMT

غزہ، خاندانوں کی آبائی علاقوں میں واپسی

اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ کی تباہ حال سرزمین پر مہینوں سے جاری اسرائی کی دہشت گردی کے بعد بالآخر امن کی ایک معمولی کرن نمودار ہوئی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے امن معاہدے کے پہلے مرحلے کی توثیق اور افواج کے جزوی انخلا کے بعد بے گھر فلسطینی خاندان شمالی غزہ کی جانب واپسی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ یہ منظر ایک طرف امید کی جھلک دکھاتا ہے، تو دوسری طرف اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ جنگ کے زخم بہت گہرے ہیں، اور حقیقی امن ابھی بہت دور ہے۔ قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق مغربی اور مرکزی غزہ کے علاقوں سے بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندان اب غزہ شہر اور شمالی علاقوں کی سمت واپس جا رہے ہیں۔ النصیرات کیمپ سمیت کئی پناہ گزین مراکز تقریباً خالی ہو چکے ہیں، جہاں مہینوں سے لوگ عارضی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ مگر ان کی واپسی آسان نہیں۔ وہ علاقے جہاں وہ لوٹ رہے ہیں، اب ملبوں کے ڈھیر ہیں، عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں، پانی، بجلی اور علاج جیسی بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔ اس کے باوجود فلسطینی عوام کا اپنے وطن سے لگاؤ اور عزم انہیں واپس کھینچ لا رہا ہے۔ وہ اپنے پیاروں کی قبروں اور اپنے اجڑے گھروں کی دہلیز پر لوٹ کر بھی امید تلاش کر رہے ہیں۔ امن معاہدے کے تحت اسرائیل کو جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں افواج کے کچھ حصے واپس بلانے اور قیدیوں کے تبادلا کرنا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے اس منصوبے کی منظوری 10 اکتوبر کی صبح دی، جس کے تحت 24 گھنٹوں میں جنگ بندی اور 72 گھنٹوں میں قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونا ہے۔ دوسری جانب حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ ثالث ممالک خصوصاً امریکا اور قطر نے ضمانت دی ہے کہ معاہدے کا پہلا مرحلہ دراصل جنگ کے خاتمے کی علامت ہے۔ تاہم، زمینی حقائق اس دعوے کی تائید نہیں کرتے ہیں۔ معاہدے کے باوجود اسرائیلی ڈرونز اور جنگی طیارے اب بھی فضا میں گردش کر رہے ہیں، اور مختلف مقامات پر حملوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ کئی خاندان جو شمالی علاقوں کی طرف واپس جا رہے تھے، ان پر بمباری کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ یہ واقعات اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ آیا اسرائیل واقعی امن کے لیے سنجیدہ ہے یا یہ محض بین الاقوامی دباؤ کم کرنے کی ایک وقتی چال ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 67 ہزار فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 69 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ہزاروں افراد ملبوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں، اور کئی خاندان ہمیشہ کے لیے اجڑ گئے ہیں۔ اسپتال، اسکول، عبادت گاہیں، حتیٰ کہ امدادی قافلے بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ اعداد و شمار کسی فوجی کامیابی کے نہیں، بلکہ انسانیت کی ناکامی کے گواہ ہیں۔ اب جبکہ لڑائی کے خاتمے اور انخلا کا عمل شروع ہو چکا ہے، عالمی برادری، خاص طور پر اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور عرب دنیا کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ انہیں محض بیان بازی سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ امن معاہدے کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق، حق ِ خود ارادیت، آزاد ریاست کا قیام، اور مقبوضہ علاقوں سے مکمل اسرائیلی انخلا، کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ اگر عالمی طاقتیں اس موقع کو ضائع کرتی ہیں، تو یہ عارضی امن بھی ایک نئے تصادم میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ فلسطینی قیادت کے لیے بھی یہ وقت اہم ہے۔ ایک متفقہ سیاسی لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا تاکہ عالمی سطح پر فلسطین کا مقدمہ مضبوطی سے پیش کیا جا سکے۔ اسرائیل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امن کی ضمانت طاقت سے نہیں بلکہ انصاف سے پیدا ہوتی ہے۔ جب تک فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق نہیں ملتے، اس خطے میں پائیدار سکون ممکن نہیں ہے۔ پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا پر بھی اخلاقی و انسانی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ فلسطین کے لیے اپنی حمایت کو عملی شکل دے۔ سفارتی سطح پر مضبوط آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ انسانی امداد، بحالی کے منصوبے اور سیاسی دباؤ کے ذریعے فلسطینی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ غزہ کے ملبوں سے ابھرنے والی یہ کمزور سی کرن شاید مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے عہد ِ امن کا آغاز بن سکے، بشرطیکہ دنیا اس روشنی کو بجھنے نہ دے۔ یہ امن صرف بندوقوں کے خاموش ہونے سے نہیں آئے گا، بلکہ جب انصاف، آزادی اور وقار کے اصولوں کو تسلیم کیا جائے گا۔ آج عالمی ضمیر ایک بار پھر آزمائش میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اس بار غزہ کے بچوں کی چیخوں پر کان دھرے گی یا حسب ِ روایت خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ یہی وقت ہے کہ انسانیت اپنے ضمیر کو جگائے، کیونکہ اگر غزہ میں امن کی یہ پہلی کرن بجھ گئی، تو شاید دنیا دوبارہ اندھیرے سے باہر نہ نکل سکے اور یہ اندھیرہ بھی وقت کیساتھ پھیلے گا۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

پاکستان نے افغان مہاجرین کی پروقار وطن واپسی یقینی بناکر مثال قائم کردی

اسلام آباد:

پاکستان نے عالمی سطح پر افغان مہاجرین کی پروقار وطن واپسی کے ذریعے مثال قائم کردی۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات جاری ہیں، وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ہم آہنگی سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی ممکن بنائی جا رہی ہے۔

ایف سی اور سول انتظامیہ کی کاوشوں سے یہ عمل شفاف اور مؤثر انداز میں ہو رہا ہے، 45 سال پاکستان میں گزارنے والے افغان مہاجرین نے وطن واپسی پر اپنے جذبات کا خوبصورتی سے اظہار کیا۔

افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ باوقار وطن واپسی پر حکومتِ پاکستان اور ایف سی کے انتہائی مشکور ہیں، ہم کسی دباؤ کے بغیر  اپنی مرضی سے وطن واپس جا رہے ہیں۔

 افغان مہاجرین کے مطابق خوراک اور سرحد تک سامان کی ترسیل میں حکومت اور ایف سی اہلکاروں نے بھرپور تعاون فراہم کیا، ہمیں ہماری خواہش کے مطابق تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، پاکستان میں بہت اپنائیت ملی، ہمیں کبھی مہاجر نہیں سمجھا گیا۔

 افغان مہاجرین نے کہا کہ پاکستان اور اداروں نے وطن واپسی کو عزت دار اور منظم انداز میں ممکن بنایا، بلوچستان میں 40 سال گزارنے کے بعد بہترین یادوں کے ساتھ وطن لوٹ رہے ہیں، حکومت ہر حد تک افغان مہاجرین کی سرحد تک رہنمائی، خوراک، اور ضروری سامان کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چمن، پاک افغان بارڈر مہاجرین کی واپسی کیلئے کھول دیا گیا
  • سندھ بلڈنگ،وسطی کے رہائشی علاقوں کی تنگ گلیوں میں غیر قانونی تعمیرات
  • غزہ کی حکمرانی فلسطین کا داخلی معاملہ ہے، غیر ملکی سرپرستی قبول نہیں: حماس
  • ٹرمپ امن منصوبے پر حماس کا جواب
  • پاکستان میں دہشت گردی کی واپسی کا ذمہ دار عمران خان ہے، مریم اورنگزیب
  • پاکستان میں دہشت گردی کی واپسی کا ذمہ دار بانی پی ٹی آئی ہے، مریم اورنگزیب
  • پاکستان نے افغان مہاجرین کی پروقار وطن واپسی یقینی بناکر مثال قائم کردی
  • سیز فائر کے بعد ہزاروں فلسطینیوں کی گھر واپسی
  • بیوہ ماں کی دعا اور سیلابی علاقوں کی امداد