سیاسی پیشرفت کے باوجود مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال بدستور سنگین ہے، عاصم افتخار
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
یو این او میں پاکستان کے مستقل مندوب نے کہا کہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے تین سو سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں، یہ ایک کڑوی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے، زبانی طور پر اعلان کردہ امن نے زمینی سطح پر ابھی تک مکمل تحفظ اور استحکام فراہم نہیں کیا۔ جانیں اب بھی ضائع ہو رہی ہیں، گھر اب بھی مسمار ہو رہے ہیں اور خاندان اب بھی خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ اور مسئلہ فلسطین پر بریفنگ کے دوران اپنے بیان میں کہا کہ مقبوضہ فلسطین میں سیاسی پیشرفت کے باوجود صورتحال بدستور نہایت سنگین ہے اور جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ عاصم افتخار نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ صدرِ محترم ہم نائب خصوصی کوآرڈی نیٹر برائے مشرق وسطیٰ امن عمل جناب رامیز الاکبروف کے جامع بریفنگ پر اُن کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو برسوں سے دنیا نے غزہ میں ایک تباہ کن جنگ کو کرب اور حیرت کے ساتھ دیکھا ہے، ایسی جنگ جس نے محصور، محاصرے میں جکڑے، بارہا بمباری کا شکار اور بھوک سے نڈھال فلسطینی عوام پر ناقابلِ بیان مصیبتیں ڈھا دی ہیں۔ 70 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ تقریباً پورا سماجی و معاشی ڈھانچہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ جنگ بندی کے مطالبات کو مسلسل نظرانداز کیا گیا اور احتساب کی پکاروں کا جواب مکمل استثنیٰ کے ساتھ دیا گیا۔
پاکستان کے سفیر کا کہنا تھا کہ اس ہولناک منظرنامے کے بیچ اور اسرائیلی جارحیت کے لگاتار حملوں کے باوجود، دو اہم پیش رفتیں سامنے آئیں، پہلی یہ کہ فلسطینی مسئلے کے پرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے جولائی میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جس کے بعد 12 ستمبر کو نیویارک اعلامیہ منظور کیا گیا اور اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران 22 ستمبر کو اس کانفرنس کے دوبارہ آغاز کا فیصلہ کیا گیا۔ اس اعلامیے میں ایک آزاد ریاستِ فلسطین کے قیام کے لیے ٹھوس، وقت مقررہ اور ناقابلِ واپسی اقدامات اٹھانے کا عزم ظاہر کیا گیا، جو عالمی برادری کی بھرپور خواہش کا مظہر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پھر دوسرا فیصلہ کن موڑ آیا، جو سیاسی روابط اور مسلسل سفارت کاری کا نتیجہ تھا، شرم الشیخ امن سربراہ اجلاس خطے اور عالمی شراکت دار ایک مشترکہ مقصد کے گرد جمع ہوئے، جنگ بندی کو برقرار رکھنا، انسانی تباہی کا ازالہ کرنا اور فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک قابلِ اعتماد سیاسی راستے کی بنیاد رکھنا۔
عاصم افتخار نے کہا کہ اسی عمل نے گذشتہ ہفتے اس کونسل کی جانب سے قرارداد 2803 کی منظوری کی راہ ہموار کی۔ اور یہ سب کچھ 23 ستمبر کو 8 عرب اسلامی ممالک کے صدر ٹرمپ کے ساتھ اجلاس سے شروع ہوا۔ اس اہم گروپ کا حصہ ہونے کے ناطے پاکستان نے صدر ٹرمپ کی اس پہل اور ذاتی کاوشوں کا خیرمقدم کیا، نیز جنگ کے خاتمے، غزہ کی تعمیرِ نو، بے دخلی کی روک تھام، جامع امن کے فروغ اور مغربی کنارے کے الحاق کو روکنے سے متعلق تجاویز کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تمام عرصے میں پاکستان نے تعمیری کردار ادا کیا ہے، جو فلسطینی عوام اور ان کے ناقابلِ تنسیخ حقوق کے لیے ہماری اصولی اور دیرینہ حمایت کا تسلسل ہے، لیکن اب بھی اسرائیلی فضائی حملوں میں شہریوں سمیت بچوں کے شہید اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
مستقل مندوب نے کہا کہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے تین سو سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں، یہ ایک کڑوی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے، زبانی طور پر اعلان کردہ امن نے زمینی سطح پر ابھی تک مکمل تحفظ اور استحکام فراہم نہیں کیا۔ جانیں اب بھی ضائع ہو رہی ہیں، گھر اب بھی مسمار ہو رہے ہیں اور خاندان اب بھی خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ عاصم افتخار نے کہا کہ مغربی کنارہ بھی کسی لحاظ سے کم تباہ کن صورتحال کا شکار نہیں ہے۔ اسرائیلی آبادکاروں اور فوجی جارحیت میں بے مثال اضافہ ہوا ہے اور اکتوبر وہ مہینہ ثابت ہوا، جس میں 2006ء میں اقوامِ متحدہ کی نگرانی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ آبادکارانہ حملے ریکارڈ کیے گئے۔ بندشوں، چھاپوں اور بڑھتے ہوئے خوف و ہراس کے ماحول میں پورے کے پورے دیہات بے گھر کر دیئے گئے ہیں، خصوصاً شمالی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دی جانی چاہیئے، اور کمیونٹی کو مستقل خوف کے بغیر معمول کے مطابق چلنے کے قابل ہونا چاہیئے۔
پاکستانی سفیر نے کا کہنا تھا کہ صدرِ محترم امن کی کوششوں میں حقیقی پیش رفت کیلیے چند اہم ترجیحات کو آگے بڑھانا ناگزیر ہے۔ اول، قرارداد 2803 پر نیک نیتی کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے، تاکہ شرم الشیخ سربراہ اجلاس سے پیدا ہونے والی رفتار برقرار رہے، خصوصاً فلسطینیوں کی قیادت میں اور ان کی ملکیت میں حکمرانی، تعمیرِ نو اور ادارہ جاتی صلاحیت کو آگے بڑھایا جائے۔ فلسطینی اتھارٹی کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے؛ امن فلسطینی عوام کو نظرانداز کرکے نہیں بنایا جا سکتا۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں قرارداد 2803 کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں مزید وضاحت سامنے آئے گی۔ عاصم افتخار نے کہا کہ میں ایک بار پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ اور دیگر عرب-اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان نے اس عمل میں شمولیت اس لیے اختیار کی کہ یہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک واضح راستہ فراہم کرتا ہے۔
دوم، جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور کسی بھی یکطرفہ اقدام کے لیے زیرو ٹالرنس برقرار رکھی جائے، تاکہ جنگ کا مستقل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا ممکن ہوسکے۔ ہم غزہ بھر میں اسرائیلی قابض افواج کے حملوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ سوم، انسانی امداد تک بلا تعطل رسائی کی ضمانت دی جائے۔ سردیوں کے قریب آتے ہی غزہ کی تھکی ہوئی، بے گھر اور شدید زخمی و صدمہ زدہ آبادی کو مکمل تحفظ اور بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے۔ انسانی امداد میں رکاوٹ بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے اور اسے فوراً ختم ہونا چاہیے۔ چہارم، غزہ کی بحالی اور تعمیرِ نو کا عمل بغیر کسی تاخیر کے شروع ہونا چاہیئے۔ پنجم، کسی بھی حالت میں نہ الحاق کیا جائے اور نہ ہی جبراً بے دخلی ہو۔ غزہ کی جغرافیائی وحدت اور اس کا مغربی کنارے کے ساتھ تسلسل ایک قابلِ عمل، خود مختار اور آزاد ریاستِ فلسطین کے لیے ناگزیر ہے۔
ششم، اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری کے پھیلاؤ کو اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی آبادیاتی یا قانونی حیثیت تبدیل کرنے کی ہر کوشش کو فوراً روکا جائے۔ اس میں الحرام الشریف کی تاریخی حیثیت کو تبدیل کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ ہفتم، بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں پر احتساب یقینی بنایا جائے۔ کیونکہ انصاف کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔ ہشتم، تشدد کے اس چکر کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیلی قبضہ تمام عرب علاقوں سے ختم ہو، جن میں فلسطین، شام اور لبنان شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی اُفق ضروری ہے، ایک ایسا معتبر، وقت کا پابند سیاسی عمل، جو متعلقہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر مبنی ہو اور جس کا مقصد ایک خود مختار، آزاد اور جغرافیائی طور پر مربوط ریاستِ فلسطین کا قیام ہو، جو 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر قائم ہو اور القدس الشریف اس کا دارالحکومت ہو۔
دو ریاستی حل پر بین الاقوامی کانفرنس، اس کا نیویارک اعلامیہ اور امن منصوبہ ایک دوسرے کے تکمیلی ہیں اور انہیں ایک متحد، ہم آہنگ اور مشترکہ عمل کے ذریعے ان وعدوں کی تکمیل کو آگے بڑھانا چاہیئے، جن کا مقصد ایک مشترکہ اور حتمی ہدف بین الاقوامی قانونی جواز کے مطابق ریاستِ فلسطین کا قیام کو حقیقت بنانا ہے۔ پائیدار امن اور استحکام کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں یہ لازم ہے اور ہمیں اس کوشش میں کامیابی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جناب صدر، پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کرتا ہے۔ ناقابلِ تصور مصائب کے باوجود ان کی ثابت قدمی عالمی برادری کی طرف سے اسی درجے کے عزم اور یقین کی متقاضی ہے۔ پاکستان کے سفیر عاصم افختار نے کہا کہ یہ یقینی طور پر ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ اب کیے گئے وعدوں کو ٹھوس عملی اقدامات میں بدلنا ہوگا۔ پاکستان عزت، انصاف، حقِ خود ارادیت، اور ایک آزاد ریاست کے قیام کی جدوجہد میں فلسطین کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عاصم افتخار نے کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فلسطینی عوام پاکستان کے کے باوجود نے کہا کہ کے قیام کرتا ہے رہے ہیں کے ساتھ کیا گیا غزہ کی اب بھی کے بعد کے لیے اور اس ہے اور
پڑھیں:
قابض حکام مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں سیاسی قیدیوں کو ہراساں کر رہے ہیں
مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی کارکنوں سمیت کشمیری قیدیوں کے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی جاری ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اجتماعی سزا کی قابض حکام کی وسیع تر پالیسی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض حکام نے بنیاد پرستی کو روکنے کی آڑ میں جیلوں میں ظالمانہ اقدامات اور کشمیری نظربندوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے اور ان کی نگرانی مزید سخت کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات سیاسی اختلاف کو دبانے اور مزاحمت کو جرم قرار دینے کی وسیع تر بھارتی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ قابض حکام نے کشمیری اور غیر ملکی قیدیوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا شروع کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے کشمیری سیاسی قیدیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارتی ایجنسیوں نے جیلوں کے اندر اچانک چھاپوں اور تلاشی کارروائیوں، گشت اور نگرانی کا سلسلہ تیز کر دیا ہے جبکہ اشیائے ضروریہ فراہم کرنے والے دکانداروں کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔ کشمیری سول سوسائٹی نے نئے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جیلوں کو طویل عرصے سے ہراساں کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات کشمیریوں کی سیاسی آواز دبانے کے لیے بھارت کی نئی حکمت عملی کی نشاندہی کرتے ہیں اور اختلاف رائے کو بین الاقوامی برادری کے سامنے دہشت گردی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ میں خوف و دہشت پھیل رہا ہے اور انصاف کی راہیں مزید مسدود ہو رہی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی کارکنوں سمیت کشمیری قیدیوں کے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی جاری ہے جس سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اجتماعی سزا کی قابض حکام کی وسیع تر پالیسی کی عکاسی ہوتی ہے۔