ابھی جو میرا آخری مضمون تھا، وہ میں نے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) پر لکھا تھا۔ میرا دل چاہا کہ اسی بات کو آگے بڑھاؤں کیونکہ جب بات انسان اور مشین کے رشتے تک پہنچتی ہے تو پھر شناخت، آزادی اور قیدکا فرق مٹنے لگتا ہے۔
یہی خیال اس نئے مضمون کی بنیاد ہے۔ مجھے نہیں معلوم آنے والے زمانے میں انسان کتنا آزاد ہوگا۔ شاید ریاست اور حکومت کے لیے یہ بائیو میٹرک ٹیکنالوجی بہت کارآمد ہو مگر فرد کے لیے اُس کی ذاتی آزادی اور خود مختاری کے لیے اس کا انجام کیا ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔ شاید آنے والے دنوں میں ہم اتنے بندھے ہوئے ہوں گے کہ بولنے، سوچنے یا اختلاف کرنے کی گنجائش ہی نہ بچے۔
ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں انسان کی شناخت اُس کے چہرے انگلیوں کے نشانات آنکھوں کی پتلی اور آواز سے جڑی جا رہی ہے۔ ہر شہری کے جسم کا ایک حصہ اب ریاست کے ریکارڈ میں ہے۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک اکاؤنٹ، سوشل میڈیا، موبائل فون سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ حکومتیں اسے ڈیجیٹل ترقی کہتی ہیں مگر دراصل یہ ایک ایسی دیوار ہے جو بتدریج ہمارے گرد اٹھ رہی ہے۔
یورپی یونین میں حال ہی میں ایک قانون منظور ہوا ہے جسے Digital Identity Regulation eIDAS 2.
ایک لمحے کو رک کر سوچیے اگر ہر شہری کے چہرے حرکات اور ترجیحات کا مکمل ڈیٹا ریاست یا چند بڑی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہو تو آزادی کہاں باقی رہ جاتی ہے؟ کیا ہم اُس وقت بھی اپنے حکمرانوں کے خلاف بول سکیں گے؟ کیا ہم اُس وقت بھی اختلاف کی جرات کریں گے جب ہمارے ہر لفظ ہر جملے اور ہر قدم پہ نظر اور نگرانی ہوگی۔ یہ وہی لمحہ ہے جہاں انسان کی جسمانی قید سے زیادہ خطرناک ایک غیر مرئی قید وجود میں آتی ہے۔ ایسی قید جس میں دیواریں نہیں ہوتیں، قفل نہیں ہوتے مگر قیدی ہر طرف بکھرے ہوتے ہیں۔
ریاست ہمیشہ اپنے وجود کو دوام دینے کے لیے نئی صورتیں تراشتی ہے۔ کبھی مذہب کے نام پرکبھی تحفظِ وطن کے نام پر اور اب ڈیجیٹل تحفظ کے نام پر مگر ہر بار اُس کی اصل خواہش ایک ہی رہتی ہے کنٹرول۔یہ بائیومیٹرک نظام بھی کنٹرول کا ایک نیا ہتھیار ہے۔ اب شناخت محض کاغذ پر لکھی ایک لائن نہیں رہی، یہ ہمارے جسم کا حصہ بن چکی ہے انگلیوں کے نشان چہرے کی بناوٹ آنکھوں کی روشنی سب ریاست کی ملکیت بن رہے ہیں۔ کل تک جو آدمی اپنی زبان سے بولتا تھا، آج وہ اپنی آنکھوں سے شناخت ہوگا۔کل تک جو آدمی اپنی سوچ سے پہچانا جاتا تھا، آج وہ اپنی انگلیوں کے نشان سے جانچا جائے گا اور یہ سب کچھ ترقی کے نام پر ہو رہا ہے۔
یورپ میں شہری تنظیمیں اور ماہرینِ قانون چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ قدم خطرناک ہے۔ ڈیجیٹل شناخت کے نام پر ہر انسان کی نجی زندگی پر ریاستی اور کارپوریٹ اداروں کا قبضہ بڑھ جائے گا مگر حکومتیں اسے نظر انداز کر رہی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ شفافیت ضروری ہے تحفظ ضروری ہے مگر وہ یہ نہیں بتاتیں کہ شفافیت اور تحفظ کی قیمت کیا ہوگی۔جب ہر چیز ڈیجیٹل ہو جائے گی، تو ایک چھوٹی سی غلطی یا ڈیٹا چوری کسی شہری کو ساری عمر کے لیے نظام سے خارج کرسکتی ہے۔ ایک غلط فائل ایک غلط نشان ایک غلط شناخت اور آپ کا وجود گویا مٹ گیا۔ بینک بند صحت کارڈ ناکارہ پاسپورٹ غیر فعال شناخت ختم۔ یہ وہ لمحہ ہوگا جب انسان ریاست کے رحم و کرم پر ہوگا۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ سب صرف مغرب کا معاملہ نہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افریقہ ہر جگہ بایو میٹرک نظام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ شناختی کارڈ، موبائل سم، بینک اکاؤنٹ، سوشل میڈیا سب میں فنگر پرنٹ فیس اسکین اور آنکھوں کی شناخت لازمی قرار دی جا رہی ہے۔ہماری ریاستیں بھی اب یہی منطق پیش کرتی ہیں، یہ دہشت گردی کے خلاف ضروری ہے، یہ شفاف انتخابات کے لیے ضروری ہے، یہ عوامی مفاد میں ہے۔لیکن جو سوال ابھر رہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ریاست ہر شہری کے ڈیٹا کی مالک بن جائے گی تو فرد کہاں جائے گا؟ کیا انسان اپنی نجی زندگی کا حق محفوظ رکھ پائے گا؟
یہ سب کچھ مجھے اُس پرانے زمانے کی یاد دلاتا ہے جب غلاموں کے جسموں پر مالکان اپنے نشان کندہ کیا کرتے تھے، ایک داغ ایک نمبر ایک علامت۔ آج کا زمانہ زیادہ مہذب ہے مگر نشان وہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب یہ نشان ہمارے جسم پر نہیں ہمارے ڈیجیٹل وجود پر لگایا جا رہا ہے۔ اب ہر انسان ایک ڈیٹا سیٹ ہے فائلوں میں محفوظ، سرورز میں قید اور الگورتھمز کے رحم پر۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ سب ہماری آسانی کے لیے ہے مگر دراصل یہ آسانی ایک نئے غلامی نظام کی بنیاد رکھ رہی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب خوفزدہ خیالات ہیں، ترقی کو روکا نہیں جا سکتا مگر سوال یہ نہیں کہ ترقی رکے یا بڑھے۔ سوال یہ ہے کہ ترقی کی سمت کیا ہے؟ کیا ہم ٹیکنالوجی کے مالک ہیں یا اُس کے ماتحت؟ کیا یہ نظام انسان کی خدمت کرے گا یا اُس کو ایک عدد بنا کر اُس کی انفرادیت ختم کر دے گا؟ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ڈیجیٹل شناخت انسان کے لیے ضروری بنا دی گئی ہے، جو اس شناخت سے باہر ہے وہ گویا ریاست کے نقشے سے مٹا ہوا ہے۔ وہ تعلیم، صحت، روزگار یہاں تک کہ اظہارِ رائے کے حق سے بھی محروم ہو سکتا ہے۔ یہی ہے وہ ان سیئن پرِزن ایک غیر مرئی قید جو نہ دیواروں میں بند ہے نہ تالوں میں مگر ہر طرف موجود ہے۔
ایک لمحے کو سوچیے اگر کل کوئی حکومت آ جائے جو اختلاف کو جرم قرار دے تو کیا وہ آپ کے چہرے آواز یا مقام کے ذریعے آپ کو ڈھونڈ نہیں نکالے گی؟ کیا وہ کسی احتجاج کسی جمہوری آواز کسی سچ کو خاموش نہیں کر سکے گی؟ آزادی کا مطلب صرف بولنے کا حق نہیں بلکہ اپنے وجود پر اختیار کا حق بھی ہے۔ جب شناخت ہماری نہیں رہے گی تو آزادی بھی ہماری نہیں رہے گی۔
میں جانتی ہوں کچھ لوگ کہیں گے، یہ خدشے بڑھا چڑھا کر بیان کیے جا رہے ہیں مگر میں اُن سب سے یہی کہوں گی، آزادی کبھی یکدم نہیں چھینی جاتی، وہ آہستہ آہستہ سہولت کے نام پر تحفظ کے وعدے پر اور خوشنمائی کے پردے میں چھن جاتی ہے، آج اگر ہم نے سوال نہیں اٹھایا تو کل شاید ہمیں اجازت ہی نہ ہو کہ کوئی سوال کریں ہم شاید محفوظ ہو جائیں گے مگر آزاد نہیں رہیں گے اور جب انسان محفوظ تو ہو مگر آزاد نہ رہے تو وہ زندہ ضرور ہوتا ہے مگر انسان نہیں رہتا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہر شہری کے انسان کی رہے ہیں ا نکھوں رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کو نسلی تعصب ڈوبو رہا ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251015-03-4
حبیب الرحمن
پاکستان کی تاریخ پر اگر غور کیا جائے تو یہ ’’دو نظریات‘‘ کی بنیاد پر بنا تھا لیکن اس کے مسلسل انحطاط کی وجہ نہ صرف اللہ سے کیے گئے وعدے سے انحراف ہے بلکہ سخت نسلی تعصب بھی ہے۔ برِصغیر میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے سامنے جو وعدہ کیا تھا وہ یہی تھا ہم ایک ایسا خطہ زمین چاہتے ہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول کے دین کو نافذ کریں گے، لیکن پاکستان بن جانے کے بعد ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں اس عہد سے انکار کر تے ہوئے پورے ملک میں اسی فرنگی نظام کو رائج کر دیا گیا تھا جس سے نجات کے لیے کم از کم ڈھائی سو برس سے مسلمانانِ ہند قربانیاں پیش کرتے آئے تھے اور 1940 کے بعد سے تو ان قربانیوں میں اتنا اضافہ ہو گیا تھا کہ 20 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہادتیں پیش کرنا پڑیں۔ جو عزتیں لٹیں، جائدادیں چھینی گئیں اور مالی نقصان ہوا اس کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان بن جانے کے اگلے ہی لمحے نسلی اور لسانی تعصبات نے جنم لینا شروع کر دیا تھا۔ پاکستان کی ساری مقتدر ہستیاں بجائے یہاں اپنے کیے گئے عہد پر قائم رہتیں، اپنے اپنے اندازِ فکر کو رائج کرنے میں لگ گئیں۔ سب سے پہلے تو اپنے کافرانہ نظریات کو پاکستان میں مروج کرنے کے لیے اپنی راہ سے ان ہستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا شروع کر دیا جن سے اس بات کا خطرہ تھا کہ وہ نظامِ کفر کی راہ میں ان کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
قائد ِ اعظم کی ہدایات کو سرے سے نہیں ماننا اور لیاقت علی خان کو بھرے جلسے میں گولی کا نشانہ بنانا اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے بجائے بکنگھم پیلس بنایا جائے گا۔ ان ہستیوں کے راستوں سے ہٹانے اور ایوب خان کے ماشل لا نافذ کرنے کے بعد اگر ان کی نظروں میں کوئی اور ہستی بڑی رکاوٹ ہو سکتی تھی تو وہ محترمہ فاطمہ جناح ہو سکتی تھیں۔ چنانچہ ایوب خان نے ان کو پاکستان کا غدار اور انڈین ایجنٹ کے نام سے اتنا مشہور کیا کہ پاکستان کے اس وقت کے دوسرے اور اِس وقت کے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں کتیوں کے گلوں میں فاطمہ جناح کے نام کی تختیاں تک لٹکوائی گئیں۔ مادر ملت یا قائد کی بہن کا احترام نہ بھی کیا جاتا تو شاید کتیوں کے گلوں میں ’’فاطمہ‘‘ نام کی تختیاں لٹکانا اتنا مکروہ فعل نہ ہوتا جتنا اْس ہستی کے نام کی تذلیل تھی جو آپؐ کی صاحب زادی کے نام کی ہوئی۔ یہ تھا اس نسلی تعصب کا آغاز جو پورے پاکستان میں اسلام کو نظریہ اسلام کو پس ِ پشت ڈال کر یہاں علاقائیت اور لسانیت کے زہر کو پھیلایا گیا۔
کراچی پر پاکستان کے ایک شمالی صوبے کے لوگوں سے باقائدہ حملے کرائے گئے اور وہ لوگ جن کی قربانیوں سے اس ملک نے جنم لیا تھا ان کو غداروں کی فہرست میں ڈال دیا گیا جس میں خود قائد ِ اعظم کی بہن کو سر فہرست رکھا گیا۔ نسلی، لسانی اور علاقائیت کا یہ سلسلہ رکا نہیں۔ پاکستان کی شمالی سرحدوں کی مستقل سرحدیں نہ بنانا اور کشمیر کی سرحد کو کنٹرول لائین کا نام دینا اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں آباد پختونوں اور بھارت کے کشمیریوں کو تو اپنا سمجھا جائے لیکن کھوکھراپار کا راستہ بند کرکے ہندوستان اور پاکستان میں مقیم خونی رشتوں کو غدار تصور کیا جائے، نسلی عصبیت نہیں ہے تو کیا ہے۔ سب سے پہلے بنگالی مسلمانوں کے خلاف طاقت کو استعمال کرکے اور سیاسی اور سماجی حقوق سے محروم کر کے ذہنی طور پر ان کو پاکستان کے خلاف بنا گیا اور پھر ان کو راہ راست پر لانے کے لیے گولی و گولہ بارود کے زور پر اپنا بنانے کی کوشش آخر کار ان کو پاکستان ہی سے دور لے گئی۔ ان سب کے باوجود تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے بجائے پاکستان میں سندھی و مہاجر فسادات کو حکومتی سطح پر ابھارا گیا جس کا سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ جنوبی وزیرستان کے آپریشنوں اور افغانستان کے خراب حالات کی وجہ سے جو گروہ بھی پاکستان میں داخل ہوئے ان کو کراچی کے چپے چپے پر لا کر بے ہنگم انداز میں بسا یا گیا اور شہر کا حلیہ بری طرح بگاڑا گیا۔ اْس وقت یہاں ایم کیو ایم کا توتی بولتا تھا، انہوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ جو بھی یہاں آ رہے ہیں ہم صرف ان کو رجسٹرڈ کرنا چاہتے ہیں، تاکہ حساب رکھا جا سکے کہ یہاں کون کون اور کتنی تعداد میں آئے ہیں تو پورے پاکستان نے اس کو لسانیت کا رنگ دے کر سارے جنوبی وزیرستانیوں اور افغانیوں کو ایم کیو ایم کا نام دے کر اہل کراچی کا دشمن بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
نسلی تعصب کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ پاکستان کے آئین میں وہ شق قانون کا حصہ بنادی گئی جس کی وجہ سے کراچی و حیدرآباد کے لوگ تیسرے کیا، دسویں درجے کے شہری بھی نہیں گنے جاتے جس کو کوٹا سسٹم کے نام سے تاریخ ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھے گی۔
اب صرف پوچھنا یہ ہے کہ جن کی وفاداریاں آپ کے نزدیک قرآن و حدیث سے بڑھ کر تھیں، وہ پاکستان کے غداروں سے بھی زیادہ بڑھ کر غداری پر اترے ہوئے ہیں یا کھوکھراپار کی طرف سے پاکستان میں داخل ہونے والے۔ جب تک نسلی تعصب کا سلسلہ بند نہیں ہوگا اور اصل پاکستانیوں کے ساتھ متعصبانہ اور منفی رویہ ختم نہیں کیا جائے گا، اس وقت پاکستان کا پاکستان بننا، ایک رہنا اور اسلام کا قلعہ بننا ایک خواب کے سوا اور کچھ نہیں۔