Express News:
2025-12-04@17:41:34 GMT

’’غربت ضروری ہے ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT

جماعت اسلامی کے ایک بزرگ نے کہا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ سے غربت کم نہیں ہوئی ہے، اس سے صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ موصوف انتہائی سادہ لوح اوربھولے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے تو ان موصول کی یہ غلط فہمی دورہونی چاہیے کہ آپ سے یہ کس صاحب نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا پی ٹی آئی دور کااحساس پروگرام، لنگر خانے،پناہ گاہیں پروگرامز وغیرہ غربت دورکرنے یا ختم کرنے کے لیے لانچ کیے گئے تھے۔

مجھے لگتا ہے کہ ان موصوف کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ ’’غربت‘‘ہی تو اس ملک ، اس کی حکومتوں اورلیڈروں کاسرمایہ‘ ذریعہ معاش اوروسیلہ ظفر ہے ، آج اگر اس ملک میں سے غربت دورہوجائے تو حکومت کیادھوئے گی، لیڈر کیا نچوڑیں گے اورسرکاری محکمے کیا سکھائیں گے ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے جلسوںمیں گلے کون پھاڑیں گے ، جلوسوں میں کون اچھلے کودیں گے اوردھرنوں میں کون بیٹھے گا۔اس لیے ’’غربت ‘‘ ہی تو ہماری سب سے بڑی اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی پراڈکس میں سے ایک ہے بلکہ واحد سرمایہ ہے اورذریعہ آمدن ہے بلکہ یوں کہیے کہ غربت ہی تو وہ سرچشمہ ہے جس سے بے شمار چشمے پھوٹنے ہیں۔اورسیاسی پارٹیاں تو پیداوار ہی غربت کی ہوتی ہیں۔

غربت نہ ہوتی تو پارٹی کس بنیاد پر بنتی،یہ سب کرامت روٹی کپڑا اورمکان ہی کی ہے جس نے اس ملک کو اس ’’جمہوری‘‘ شاہی کی ملکیت بنایا بلکہ وہ دوسرا متوازی’’ قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ریاست مدینہ‘تبدیلی آئی رے نظام مصطفی کی قوم پرستی کے نعروںکی پیدائش بھی اسی غربت کی گود میں ہوئی اورہاں یہ جو بانی اوراس کاوژن ہے ، یہ بھی تو اسی کثیرالاولاد ماں کی اولاد ہے جسے غربت کہتے ہیں،

یہ لیڈر لوگ تو بہت اونچے آسمان پر ہیں‘ اس لیے نیچے چیونیٹوں کی دنیا ان کی نظروں سے اوجھل ہے، اس نیچے کی دنیا میں بے نظیر انکم سپورٹس جواب خدا کے فضل سے بی آئی ایس پی ہوگیا ہے اور ماضی میں احساس پروگرام ہو گیا تھا‘ دور بانی میں لنگر خانے اور پناہ گاہیں قائم کر کے نشئیوں کے لیے جو آرام گاہیں بنائی گئیں‘ان کے نتیجے میں کیاکیا برکات پیدا ہورہی ہیں ،کتنے خاندانوں میں مردوں نے کام کرنا چھوڑدیا اور عورتوں نے ’’کام‘‘ شروع کردیا ہے ، مرد آرام سے حقے کے سوٹے لگارہے ہیں ۔یوں پورے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو نکھٹو بنا دیا گیا ہے۔ظاہر ہے جب مفت میں پیسے مل جائیں ‘لنگر خانے سے روٹی مل جائے اور سونے کے لیے پناہ گاہیں مل جائیں تو پھر مرد کام کیوں کریں گے۔

میرے پڑوس میں ایک خاندان ہے پہلے اچھی خاصی مزدوری کررہا تھا لیکن مالی امدادملنا شروع ہوئی تو اس نے کام چھوڑ کر نشہ کرنا شروع کیا اب ظاہرہے کہ بھیک بھی وہ چیز ہے جوچھٹتی نہیں منہ سے کافر لگی ہوئی۔میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ جس کسی کو بھی مفت خوری کی عادت پڑ جائے تو وہ کام بالکل نہیں کرتا ۔

چنانچہ اوربھی جہاں کہیں ’’سپورٹ‘‘مل سکتا ہے‘آدمی چاہے اسے دسیوں میل پیدل کیوں نہ چلنا پڑے‘تپتی دوپہر میں گھنٹے لائن میں کیوں نہ لگنا پڑے‘وہ وہاںلازمی پہنچے گااور امداد وصول کر کے رہے گا۔ ساتھ ہی بچوں کاپر وڈکشن بھی زوروں پر ہے۔ ایک دن میں نے کہا،کم ازکم یہ بچوں کا پروڈکشن تو کم کردو۔بولا‘ نہیں !کیونکہ سرکاری امداد میں بچے جتنے زیادہ ہو ںپیسے بھی زیادہ ملتے ہیں۔ ادھر خدا کے فصل وکرم سے، حکومتوں کی مہربانیوں سے اور اس، ’’ناہموار ترین‘‘ معاشرے کی برکت سے معاشرہ انتہائی دینداراوررزق حلال سے بھی بھرچکا ہے، اس لیے ’’رشوت‘‘ دینے کاسلسلہ بھی زوروں پرچل رہا ہے۔

یوںرشوت لینے والے بھی امداد میں سے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں اور مفت خور بھی جو مل جائے وہ صبر شکر کر کے لے لیتے ہیں۔مفت خوروں کی ایک اور قسم بھی منگوں پر مشتمل ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو سرکاری افسر اہلکار رشوت لیتے ہیں وہ بھی ایک طرح سے بھیک منگے ہی ہوتے ہیں۔آج کل جس طرح مانگنے والے گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹا کر بڑے روب کے ساتھ بھیک مانگتے ہیں ،سرکاری ملازم بھی سائل سے بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ اتنا نذرانہ دے دو تو تمہارا کام ہو جائے گا ۔اس لیے دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر طرف بھکاری ہی بھکاری نظر آتے ہیں۔

امرا نے بھی ایسے بھیک خانے کھولے ہوئے ہیں،جہاںہر ہفتے دس بیس لوگوں کوکھانا کھلایا جاتا ہے‘ ان کی وجہ سے اکثر مزدوروں نے مزدوری ترک کردی ہے اورصبح نکل کر ۔ خاص طورپر خواتین۔ تو دوپہر یاشام کو لدی پھندی آتی ہیںاورمخیر حضرات کے گھر کے دروازوں کے سامنے بیٹھ جاتی ہیں۔درباروں پر بھی ایسے لوگ کثرت سے نظر آتے ہیں۔ کئی خواتین تو بچوں کے ساتھ آتی ہیں اور شاپروں میںکھانا بھر کے گھر لے جاتی ہیں اور پھر پورا گھرانہ بڑے شوق سے اور مزے سے کھاتا ہے۔

ایک مرتبہ ایک ایسی خاتون سے ہم نے پوچھا جس کاشوہر یوکے یعنی برطانیہ میں تھا کہ تمہارا شوہر وہاں کیا کام کرتا ہے ۔ تو بولی۔ ’’الاونس ‘‘ پر ہے ، اسی سے معلوم ہوا کہ ان ممالک میں بے روزگاری الاونس اتنا ہوتا ہے کہ اکثر لوگ چھوٹی موٹی نوکری کرتے ہی نہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد اسی دھندے کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ کوئی بیروز گاری الاؤنس لے رہا ہے اور کوئی زیادہ بچوں کی وجہ سے اچھا گھر لے کر بیٹھا ہے۔ایسی صورت میںانھیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

اپنے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے ،  مال حرام کو حلال کرنے والے بھی بہت ہیں ۔ایک جگہ سے نقد مل جاتے ہیں دوسری جگہ سے اجناس ، تیسری جگہ کپڑے، چوتھی جگہ سے علاج ، کیا وہ پاگل ہیں جو مزدوری میں پسینہ بہائیں۔اب آپ ہی انصاف سے کہیں کہ اگر ملک سے غربت دورہوجائے تو کوئی ووٹ ، ضمیر ، ایمان ، یاعصمت بیچے گا ؟ جلسوں جلوسوں ، دھرنوں وغیرہ میں گلاپھاڑ پھاڑ کر زندہ باد مردہ باد کون کرے گا ۔

اس ملک کی اشرافیہ ، سیاست اورایک خاص طبقے کے لیے غربت اتنی ضروری ہے جتنی کسی مرنے والے کو سانس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے جب بھی کوئی لیڈر پاکستان میں غربت ختم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے یا کوئی پارٹی غربت ختم کرنے کے لیے منشور پیش کرتی ہے تو سمجھ لیں کہ غربت ختم نہیں ہو گی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بڑھے گی کیونکہ اگر غربت ختم ہو گئی تو پھر سب کو کام کرنا پڑے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جائے تو ہیں اور کے لیے اس ملک اس لیے ہے اور سے بھی

پڑھیں:

آئینی ترامیم،اصل فائدہ کس کا؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251203-03-6
(دوسرا اور آخری)

انیسویں ترمیم کے تحت 22 دسمبر 2010 کو عدالت عالیہ اسلام آباد قائم کی گئی اور عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے قانون وضع کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ آج بھی حلق کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔ اس کے بعد بیسویں ترمیم لائی گئی 14 فروری 2012 کو ’’صاف شفاف‘‘ انتخابات کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا۔ اکیسویں ترمیم میں 7 جنوری 2015 کو سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں۔ آرمی پبلک اسکول کے ذمے داروں کا کیا بنا یہ الگ قصہ ہے لیکن فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل آج بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ آئین پاکستان میں بائیسویں ترمیم 8 جون 2016 کو ہوئی، اس میں بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو دیے گئے، چیف الیکشن کمشنر کی اہلیت کا دائرۂ کار تبدیل کیا گیا، جس کے تحت بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بن سکیں گے۔ تیئیسویں ترمیم 7 جون 2017 کو منظور ہوئی، 2015 میں قومی اسمبلی نے 21 ویں ترمیم میں دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں، یہ دورانیہ 6 جنوری 2017 کو ختم ہوا، اس ترمیم میں فوجی عدالتوں کے دورانیے کو مزید دو سال کے لیے، 6 جنوری 2019 تک بڑھایا گیا۔ جس طرح سندھ میں رینجرز کے قیام کی مدت بڑھائی جاتی ہے اسی طرح یہ کام بھی کردیا گیا۔ آئین پاکستان میں چوبیسویں ترمیم 22 دسمبر2017 کو ہوئی، وفاقی اکائیوں کے مابین نشستوں کے تعین کا اعادہ اور 2017 کی خانہ و مردم شماری کی روشنی میں نئے انتخابی حلقوں کی تشکیل، عمل میں آئی۔ پچیسویں ترمیم 31 مئی 2018 کو لائی گئی اور فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کیا گیا۔

پاکستان میں عدلیہ کے پر کاٹنے بلکہ اسے عضو معطل بنانے والی ترمیم 26 ویں ترمیم کہلاتی ہے۔ 20 اکتوبر 2024 کی اس ترمیم میں چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کرنے کی تجویز دی گئی۔ یہ پوری ترمیم، عدالت عظمیٰ، ججوں کے تقرر، تبادلے، ریفرنسز، مدت ملازمت، عمر کی حد، عدالت کے اختیارات کی حد بندیوں وغیرہ کے گرد گھومتی ہے۔ اور یہ عدلیہ پر کھلا حملہ تھا لیکن عدلیہ کے رکھوالوں اور ججوں کے درمیان اختلافات اور چھوٹے چھوٹے مفادات نے انہیں اس پر کوئی رکاوٹ ڈالنے سے روک دیا اور انہیں اس کا اندازہ بھی تھا، انہیں چند مہینوں میں غلطی کا احساس ہوگیا لیکن اب دیر ہوچکی تھی، فائدہ اٹھانے والوں نے فائدہ اٹھا لیا، کچھ ججوں کو کچھ فوائد بھی مل گئے۔ اور تمام اختیارات قومی اداروں سے چھیننے کا کام کرنے والوں نے اپنا کام جاری رکھا اور اب ستائیسویں ترمیم بھی آگئی بلکہ چھاگئی ہے۔ یوں عدالت عظمیٰ پر حکومت کا اور اس کے ذریعہ اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول قائم ہوگیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں جے یو آئی نے جس چیز کا ذکر کامیابی کے طور پر کیا تھا وہ معیشت سے سود کے خاتمے کا اعلان ہے۔ پاکستان میں بینکنگ اور کسی بھی قسم کے لین دین سے سود کے خاتمے کے لیے آرٹیکل 38 میں کی گئی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 تک ملک سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ یہ ہوگا یا نہیں، ویسے تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ حکمران حکومت اور اپوزیشن ایسا کرنے والے نہیں ہیں، یہ بچھڑے (سودی نظام) کی قربانی نہیں دیں گے، بس کفار کی طرح نشانیاں ہی پوچھتے رہیں گے، ایک اور کارنامہ چھبیسویں ترمیم میں ہے، وہ یہ کہ آئین میں ایک نئی شق آرٹیکل نو اے بھی متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت ماحولیاتی تحفظ کو بنیادی شہری حقوق میں شامل کردیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ دیگر بنیادی حقوق سے قوم کی بڑی اکثریت محروم ہے۔

سوال یہ ہے کہ ستائیسویں ترمیم میں کیا ہوا ہے، ہنگامہ کیوں بپا ہے؟ بظاہر تو اس ترمیم

سے پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر 2030 تک فوج کے سربراہ ہوگئے ہیں، آرمی، ائر فورس اور نیوی ترمیمی بلز کی قومی اسمبلی میں منظوری سے چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہوگیا ہے۔ مجوزہ آرمی ایکٹ کے مطابق آرمی چیف کا بطور چیف آف ڈیفنس فورسز نیا نوٹی فکیشن جاری ہو گا جس کے بعد آرمی چیف کی مدت بطور چیف آف ڈیفنس فورسز دوبارہ سے شروع ہوگی۔ وزیراعظم آرمی چیف، چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر کمانڈر نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ تعینات کریں گے۔ کمانڈر نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈر کی مدت ملازمت 3 سال ہوگی۔ قومی اسمبلی میں وضاحتی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی منظوری کے بعد آرمی چیف کے عہدے کی مدت 5 سال ہوگی اور تعیناتی کی تاریخ سے مدت شمار ہوگی۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے اور موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی اپنی ریٹائرمنٹ تک اس عہدے پر برقرار رہیں گے۔ مجوزہ آرمی ایکٹ میں کہا گیا کہ آرمی چیف، چیف آف ڈیفنس فورسز پاک فوج کے تمام شعبوں کی ری اسٹرکچرنگ اور انضمام کریں گے۔ کمانڈر نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کو 3 سال کے لیے دوبارہ تعینات کیا جا سکے گا۔ مجوزہ آرمی ایکٹ میں کہا گیا کہ 27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہو جائے گا۔ اس ترمیم پر صدر مملکت نے دستخط کردیے ہیں اور یہ آئین کا حصہ بن گیا ہے، یہاں زیادہ تنقید کا نشانہ فیلڈ مارشل اور عدلیہ کو بنایا جارہا ہے، جو اس اعتبار سے درست ہے کہ فوج کے سربراہ کو کس چیز کا خوف ہے، عدلیہ کے ججوں نے چھبیسویں ترمیم کے موقع پر جس دوہرے روئیے کا مظاہرہ کیا اور خاموش رہے، ستائیسویں ترمیم اسی روئیے کا شاخسانہ ہے۔ اس ترمیم میں وزرائے اعظم کو بھی استثنیٰ دینے کی بات ہوئی تھی لیکن اس صورت میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی استثنیٰ مل جاتا۔ لہٰذا اسے وزیر اعظم کے نمبر بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے لیے استثنیٰ لینے سے انکار کرتے ہوئے وزرائے اعظم کا لفظ نکلوا دیا۔

پاکستان میں ہونے والی آئینی ترامیم کے ظاہری نتائج اور فائدہ اٹھانے والوں کا بہت ذکر ہوتا ہے، نام تک لیے جاتے ہیں، 1973 کے آئین اور اس کی قادیانیوں سے متعلق ترمیم کے ایک ایک مرحلے سے قوم واقف ہے۔ آئین کی تیاری، تنازعات، ترامیم تجاویز ہر مرحلہ ریکارڈ پر ہے لیکن آٹھویں ترمیم کے بعد سے پراسرار انداز نے جگہ لے لی، راتوں رات پیچیدہ شقوں میں ترامیم تجویز ہوتیں اور چند گھنٹوں میں پیش کرنے سے لے کر منظوری تک کا عمل مکمل ہو جاتا، آخر یہ کیسا جادو ہے، وہ کون جادوگر ہے جو لمحوں میں ترامیم لاتا اور منظور کراتا ہے، دستور کے ابتدائی خاکے اور منظوری تک کے سارے عمل کے برخلاف نئی ترامیم کا کوئی خالق سامنے نہیں آتا، کوئی حفیظ پیرزادہ، کوئی مفتی محمود، کوئی پروفیسر غفور، کوئی مولانا نورانی سامنے نہیں آتا، بس ترامیم آتی ہیں اور منظور ہوجاتی ہیں، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ پہلے ان اسمبلیوں میں کچھ لوگ مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں، سو انہیں اسمبلیوں سے باہر کردیا گیا، کبھی آر ٹی ایس بیٹھا، کبھی فارم 47 آگیا، کبھی زبردستی نتیجہ تبدیل کیا گیا۔ اب پارلیمنٹ میں ایسے لوگ موجود نہیں ہیں اور ان کو غیر موجود رکھنے کے ذمے دار وہی ہیں جو یہ سارے جادو کرتے ہیں۔ بس ان کا نام نہیں آتا، بے چارے نام نہاد سیاستدان سارا الزام چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اپنے سر لے لیتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ساری ترامیم سے آرمی چیف اور عدلیہ کے فائدے کی بات کررہے ہیں، لیکن سب سے زیادہ خطرے میں جو شخصیت تھی اور جو اپنے بارے میں خدشات کا شکار تھی، وہ صدر مملکت کی شخصیت ہے، خطرہ بھی انہیں تھا اور اصل فائدہ بھی وہی اٹھائیں گے، آرمی چیف یا فوج کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟ ذرا گرد بیٹھنے دیں پھر پتا چلے گا کہ کون سب سے زیادہ فائدے میں ہے۔ عوام کو تو بیش تر آئینی ترامیم میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

مظفر اعجاز سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • بچے کا قتل اور زنجیر عدل کی بوسیدہ طوالت
  • سب سے بلند چیخ…
  • راہداری تجارتی مصنوعات کی بارڈر پر کسٹم ڈیوٹی کی وصولی کی نگرانی ضروری ہے: وزیراعظم
  • ملک کے تمام حصوں میں مقیم لوگوں کی مساوی ترقی ضروری ہے: ملک احمد خان
  • غربت، پابندیاں اور سفاک حکمرانی، طالبان کی پالیسیوں نے افغانستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا
  • افغان طالبان رجیم کے تحت انسانی حقوق کی پامالیاں اور بڑھتی غربت، افغان عوام مشکلات کا شکار
  • میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہارجائوں گی
  • آئینی ترامیم،اصل فائدہ کس کا؟
  • حادثے کا ذمے دار کون؟
  • یاد کا موسم