Express News:
2025-10-15@02:32:31 GMT

’’غربت ضروری ہے ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT

جماعت اسلامی کے ایک بزرگ نے کہا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ سے غربت کم نہیں ہوئی ہے، اس سے صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ موصوف انتہائی سادہ لوح اوربھولے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے تو ان موصول کی یہ غلط فہمی دورہونی چاہیے کہ آپ سے یہ کس صاحب نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا پی ٹی آئی دور کااحساس پروگرام، لنگر خانے،پناہ گاہیں پروگرامز وغیرہ غربت دورکرنے یا ختم کرنے کے لیے لانچ کیے گئے تھے۔

مجھے لگتا ہے کہ ان موصوف کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ ’’غربت‘‘ہی تو اس ملک ، اس کی حکومتوں اورلیڈروں کاسرمایہ‘ ذریعہ معاش اوروسیلہ ظفر ہے ، آج اگر اس ملک میں سے غربت دورہوجائے تو حکومت کیادھوئے گی، لیڈر کیا نچوڑیں گے اورسرکاری محکمے کیا سکھائیں گے ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے جلسوںمیں گلے کون پھاڑیں گے ، جلوسوں میں کون اچھلے کودیں گے اوردھرنوں میں کون بیٹھے گا۔اس لیے ’’غربت ‘‘ ہی تو ہماری سب سے بڑی اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی پراڈکس میں سے ایک ہے بلکہ واحد سرمایہ ہے اورذریعہ آمدن ہے بلکہ یوں کہیے کہ غربت ہی تو وہ سرچشمہ ہے جس سے بے شمار چشمے پھوٹنے ہیں۔اورسیاسی پارٹیاں تو پیداوار ہی غربت کی ہوتی ہیں۔

غربت نہ ہوتی تو پارٹی کس بنیاد پر بنتی،یہ سب کرامت روٹی کپڑا اورمکان ہی کی ہے جس نے اس ملک کو اس ’’جمہوری‘‘ شاہی کی ملکیت بنایا بلکہ وہ دوسرا متوازی’’ قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ریاست مدینہ‘تبدیلی آئی رے نظام مصطفی کی قوم پرستی کے نعروںکی پیدائش بھی اسی غربت کی گود میں ہوئی اورہاں یہ جو بانی اوراس کاوژن ہے ، یہ بھی تو اسی کثیرالاولاد ماں کی اولاد ہے جسے غربت کہتے ہیں،

یہ لیڈر لوگ تو بہت اونچے آسمان پر ہیں‘ اس لیے نیچے چیونیٹوں کی دنیا ان کی نظروں سے اوجھل ہے، اس نیچے کی دنیا میں بے نظیر انکم سپورٹس جواب خدا کے فضل سے بی آئی ایس پی ہوگیا ہے اور ماضی میں احساس پروگرام ہو گیا تھا‘ دور بانی میں لنگر خانے اور پناہ گاہیں قائم کر کے نشئیوں کے لیے جو آرام گاہیں بنائی گئیں‘ان کے نتیجے میں کیاکیا برکات پیدا ہورہی ہیں ،کتنے خاندانوں میں مردوں نے کام کرنا چھوڑدیا اور عورتوں نے ’’کام‘‘ شروع کردیا ہے ، مرد آرام سے حقے کے سوٹے لگارہے ہیں ۔یوں پورے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو نکھٹو بنا دیا گیا ہے۔ظاہر ہے جب مفت میں پیسے مل جائیں ‘لنگر خانے سے روٹی مل جائے اور سونے کے لیے پناہ گاہیں مل جائیں تو پھر مرد کام کیوں کریں گے۔

میرے پڑوس میں ایک خاندان ہے پہلے اچھی خاصی مزدوری کررہا تھا لیکن مالی امدادملنا شروع ہوئی تو اس نے کام چھوڑ کر نشہ کرنا شروع کیا اب ظاہرہے کہ بھیک بھی وہ چیز ہے جوچھٹتی نہیں منہ سے کافر لگی ہوئی۔میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ جس کسی کو بھی مفت خوری کی عادت پڑ جائے تو وہ کام بالکل نہیں کرتا ۔

چنانچہ اوربھی جہاں کہیں ’’سپورٹ‘‘مل سکتا ہے‘آدمی چاہے اسے دسیوں میل پیدل کیوں نہ چلنا پڑے‘تپتی دوپہر میں گھنٹے لائن میں کیوں نہ لگنا پڑے‘وہ وہاںلازمی پہنچے گااور امداد وصول کر کے رہے گا۔ ساتھ ہی بچوں کاپر وڈکشن بھی زوروں پر ہے۔ ایک دن میں نے کہا،کم ازکم یہ بچوں کا پروڈکشن تو کم کردو۔بولا‘ نہیں !کیونکہ سرکاری امداد میں بچے جتنے زیادہ ہو ںپیسے بھی زیادہ ملتے ہیں۔ ادھر خدا کے فصل وکرم سے، حکومتوں کی مہربانیوں سے اور اس، ’’ناہموار ترین‘‘ معاشرے کی برکت سے معاشرہ انتہائی دینداراوررزق حلال سے بھی بھرچکا ہے، اس لیے ’’رشوت‘‘ دینے کاسلسلہ بھی زوروں پرچل رہا ہے۔

یوںرشوت لینے والے بھی امداد میں سے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں اور مفت خور بھی جو مل جائے وہ صبر شکر کر کے لے لیتے ہیں۔مفت خوروں کی ایک اور قسم بھی منگوں پر مشتمل ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو سرکاری افسر اہلکار رشوت لیتے ہیں وہ بھی ایک طرح سے بھیک منگے ہی ہوتے ہیں۔آج کل جس طرح مانگنے والے گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹا کر بڑے روب کے ساتھ بھیک مانگتے ہیں ،سرکاری ملازم بھی سائل سے بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ اتنا نذرانہ دے دو تو تمہارا کام ہو جائے گا ۔اس لیے دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر طرف بھکاری ہی بھکاری نظر آتے ہیں۔

امرا نے بھی ایسے بھیک خانے کھولے ہوئے ہیں،جہاںہر ہفتے دس بیس لوگوں کوکھانا کھلایا جاتا ہے‘ ان کی وجہ سے اکثر مزدوروں نے مزدوری ترک کردی ہے اورصبح نکل کر ۔ خاص طورپر خواتین۔ تو دوپہر یاشام کو لدی پھندی آتی ہیںاورمخیر حضرات کے گھر کے دروازوں کے سامنے بیٹھ جاتی ہیں۔درباروں پر بھی ایسے لوگ کثرت سے نظر آتے ہیں۔ کئی خواتین تو بچوں کے ساتھ آتی ہیں اور شاپروں میںکھانا بھر کے گھر لے جاتی ہیں اور پھر پورا گھرانہ بڑے شوق سے اور مزے سے کھاتا ہے۔

ایک مرتبہ ایک ایسی خاتون سے ہم نے پوچھا جس کاشوہر یوکے یعنی برطانیہ میں تھا کہ تمہارا شوہر وہاں کیا کام کرتا ہے ۔ تو بولی۔ ’’الاونس ‘‘ پر ہے ، اسی سے معلوم ہوا کہ ان ممالک میں بے روزگاری الاونس اتنا ہوتا ہے کہ اکثر لوگ چھوٹی موٹی نوکری کرتے ہی نہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد اسی دھندے کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ کوئی بیروز گاری الاؤنس لے رہا ہے اور کوئی زیادہ بچوں کی وجہ سے اچھا گھر لے کر بیٹھا ہے۔ایسی صورت میںانھیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

اپنے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے ،  مال حرام کو حلال کرنے والے بھی بہت ہیں ۔ایک جگہ سے نقد مل جاتے ہیں دوسری جگہ سے اجناس ، تیسری جگہ کپڑے، چوتھی جگہ سے علاج ، کیا وہ پاگل ہیں جو مزدوری میں پسینہ بہائیں۔اب آپ ہی انصاف سے کہیں کہ اگر ملک سے غربت دورہوجائے تو کوئی ووٹ ، ضمیر ، ایمان ، یاعصمت بیچے گا ؟ جلسوں جلوسوں ، دھرنوں وغیرہ میں گلاپھاڑ پھاڑ کر زندہ باد مردہ باد کون کرے گا ۔

اس ملک کی اشرافیہ ، سیاست اورایک خاص طبقے کے لیے غربت اتنی ضروری ہے جتنی کسی مرنے والے کو سانس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے جب بھی کوئی لیڈر پاکستان میں غربت ختم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے یا کوئی پارٹی غربت ختم کرنے کے لیے منشور پیش کرتی ہے تو سمجھ لیں کہ غربت ختم نہیں ہو گی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بڑھے گی کیونکہ اگر غربت ختم ہو گئی تو پھر سب کو کام کرنا پڑے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جائے تو ہیں اور کے لیے اس ملک اس لیے ہے اور سے بھی

پڑھیں:

کشور دا

کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں صرف زندہ رہنے نہیں آتے، وہ وقت کے افق پر اپنی روح کی آواز ثبت کرنے آتے ہیں۔ کشور کمار بھی ایسا ہی ایک جادو تھا جو نہ کسی فن کی قید میں رہا، نہ شہرت کی، اور نہ ہی زمانے کے کسی پیمانے میں سماتا تھا۔ وہ ہنستا تھا، گاتا تھا، روتا تھا، مگر ہر لمحہ جیسے خود زندگی کا ترانہ بن جاتا۔

آج جب اُس کی آواز کی بازگشت وقت کے شور میں بھی سنائی دیتی ہے، تو لگتا ہے کشور کمار نہیں گئے، بس پردہ بدل گیا ہے۔

’زندگی ایک سفر ہے سہانا‘ مسکراہٹ کے پیچھے چھپی مسافت

کشور نے یہ گیت ایسے گایا جیسے زندگی خود مسکرا کر گنگنا اٹھی ہو۔ اس ایک مصرعے میں اُس کی پوری زندگی سمٹ آتی ہے۔ وہ ایک مسافر تھا، جو کبھی منزل کی فکر نہیں کرتا تھا۔ اس کے نزدیک اصل حسن سفر میں تھا، اور شاید اسی لیے اس کا فن کسی انجام تک نہیں پہنچا، وہ ہمیشہ جاری رہا۔ زندگی اُس کے لیے گیت تھی، اور گیت ہی اُس کی سانس۔

’پَل پَل دل کے پاس‘ وہ آواز جو دل کی دھڑکن بن گئی

کشور کی آواز میں ایک عجیب قربت تھی۔ جیسے کوئی تمہارے پاس بیٹھا، دل کی بات کہہ رہا ہو۔ یہ گیت صرف محبت کا اقرار نہیں، ایک عہد ہے کہ احساس کبھی مرتے نہیں۔

کشور نے الفاظ کو دل کے لہجے میں ڈھالا، اور سُر کو سانس کی نرمی میں۔ تبھی تو آج بھی کوئی تنہا شام میں یہ گیت سنتا ہے تو دل دھڑکنے لگتا ہے۔

’چلا جاتا ہوں کسی کی دُھن میں‘ خواب، جدائی اور وقت کا سفر

یہ وہ گیت ہے جو وقت کے چلتے پہیوں کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ کشور کی آواز یہاں ایک مسافر کی طرح ہے جو ہر موڑ پر رخصت کے درد کو مسکراہٹ میں بدل دیتا ہے۔

یہ گیت شاید اُس کی اپنی زندگی کا عکس بھی تھا، وہ مسلسل چلتا رہا، کبھی رُکا نہیں۔ محبت، شہرت، تنہائی۔ سب کے بیچ وہ خود کو تلاش کرتا رہا۔

’رُوپ تیرا مستانہ‘ وہ لمحہ جب دھن، دل اور دیوانگی ایک ہوئے

جب یہ گیت گونجتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے خود موسیقی ناچ اٹھی ہو۔
کشور کمار نے اس نغمے میں دیوانگی کو فن میں بدل دیا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب آواز اور جذبات ایک دوسرے میں گھل جاتے ہیں۔ نہ اداکار نظر آتا ہے، نہ گلوکار، صرف جذبہ رہ جاتا ہے۔ یہ کشور کی پہچان تھی، دیوانگی میں کمال، اور کمال میں دیوانگی۔

’کوئی ہوتا جس کو ہم اپنا کہہ لیتے‘ کشور کی تنہائی کا المیہ

روشنیوں کے اس شہزادے کے اندر ایک خاموش اندھیرا بھی تھا۔ یہ گیت اُس کے دل کی گہرائیوں سے نکلا دکھ ہے۔ وہ شخص جس کے گانے نے دنیا کو مسکرانا سکھایا، خود اندر سے تنہائی کا قیدی رہا۔

کشور محبت مانگتا نہیں تھا، بس یاد کرتا تھا۔ اور شاید اسی لیے یہ نغمہ ہر اس دل کو چھو لیتا ہے جو کبھی کسی کے بغیر رہنے کی اذیت سے گزرا ہو۔

’ہمیں تم سے پیار کتنا‘ فن سے عشق کی وہ گہرائی جس کا کوئی سرا نہیں

یہ گیت صرف ایک محبوب سے محبت کا نہیں، بلکہ فن سے محبت کا اعتراف بھی ہے۔ کشور نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اسی عشق میں گزارا، گانے میں، ہنسنے میں، حتیٰ کہ خاموشی میں بھی۔

یہ وہ محبت تھی جو نہ زبانی تھی نہ وقتی، بلکہ سانس کی طرح تھی۔ شاید اسی لیے وہ فنکاروں میں ایک صوفی لگتا ہے، دنیاوی نہیں، الوہی۔

’میرے سپنوں کی رانی‘ مقبولیت کی دوڑ میں ایک شرمیلا شہزادہ

یہ گیت اُس کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ عوامی دیوانگی، شہرت کا طوفان، اور ایک نیا چہرہ جو سب کے دلوں پر چھا گیا۔ مگر پردے کے پیچھے وہی شرمیلا، انوکھا، اور خود میں گم کشور چھپا بیٹھا تھا۔

وہ اس شہرت کو بوجھ کی طرح اٹھاتا رہا، جیسے اسے معلوم ہو کہ شہرت روشنی نہیں، جلتا ہوا چراغ ہے۔

’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘ شاعری کی صورت میں سچائی

یہ گیت کسی نرمی سے نہیں، کسی سچائی سے نکلتا ہے۔ کشور نے اسے گاتے ہوئے عشق کو فلسفے میں بدل دیا۔ اس کے لہجے میں ایک ٹھہراؤ، ایک ندامت، اور ایک دعا چھپی ہے۔ یہی اُس کے فن کا کمال تھا وہ گاتا نہیں تھا، زندگی کو محسوس کراتا تھا۔

’چھو کر میرے من کو‘ زندگی کو گنگنانے کا فن

اگر کسی کو یہ جاننا ہو کہ خوشی کی آواز کیسی ہوتی ہے تو یہ گیت سن لے۔ کشور کی ہنسی، اُس کی شرارت، اور زندگی سے اس کا عشق یہاں جھلکتا ہے۔ یہ وہ فنکار تھا جو ہر درد کو گیت میں بدل دیتا تھا۔ جہاں دوسرے لوگ سانس لیتے ہیں، وہ گاتا تھا۔

’یہ جو محبت ہے‘ وہ گیت جو ہمیشہ زندہ رہے گا

محبت۔ وہ لفظ جو کشور کی پہچان بھی ہے، اس کا انجام بھی۔ یہ گیت اُس کی روح کی ترجمانی کرتا ہے، جیسے وہ دنیا سے کہہ رہا ہو کہ محبت ختم نہیں ہوتی، صرف شکل بدلتی ہے۔

کشور کی آواز بھی محبت کی طرح ہے نہ پرانی ہوتی ہے، نہ مدھم۔ وقت گزر جاتا ہے، مگر اُس کے گانے دل میں یوں تازہ رہتے ہیں جیسے ابھی ابھی سنے ہوں۔

’زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام‘ ایک نغمہ، اک یاد

کشور کمار کی زندگی ایک سفر تھی۔ ہنسی اور دکھ کے بیچ، عشق اور جنون کے بیچ، فن اور خاموشی کے بیچ۔ وہ صرف گلوکار نہیں تھا، انسانی احساسات کی ڈائری تھا، جو دھنوں میں لکھی گئی۔

آج جب دنیا بدل چکی ہے، جب آوازیں مشینوں سے بن رہی ہیں، کشور کی آواز اب بھی زندہ ہے کیونکہ وہ صرف سُر نہیں، روح کی گونج تھی۔ کشور کمار 13 اکتوبر 1987 کو راہی عدم ہوئے، مگر اس کی آواز وقت کی قید سے آزاد ہو کر آج بھی گونجتی ہے۔ جیسے زندگی خود گنگنا رہی ہو:

’جب تک میں نے سمجھا، جیون کیا ہے ۔ ۔ ۔ ‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

آر ڈی برمن، ابھاس کمار گنگولی کشور دا کشور کمار لتا منگیشکر، مشکورعلی وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • شناخت کا نیا جال
  • ڈوڈلسٹن کے پراسرار پیغامات
  • افغانستان سے کشیدگی، دہشت گردی بڑھنے کا خطرہ سیاسی حل ضروری ہے، عمران خان
  • غزہ کا رنگ تاحدِ نگاہ مٹیالا ہے
  • افغان پالیسی پر نظرثانی ناگزیر، دہشتگردی کے حل کیلئے عوامی مشاورت ضروری ہے: سہیل آفریدی
  • نئے وزیراعلیٰ سے حلف لینا ضروری، تاخیر نہیں کی جاسکتی، سلمان اکرم راجا
  • کشور دا
  • پت جھڑ
  • کراچی سے چھینے گئے موبائل کہاں جاتے ہیں، انہیں واپس لینے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟