data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251203-03-2
کیا کوئی اْس ماں کی حرماں نصیبی کا اندازہ لگا سکتا ہے جس کے جگر کا ٹکڑا اس کی آنکھوں کے سامنے چشم ِ زدن میں زندگی کا ہاتھ چھڑا کر موت کی آغوش میں چلاگیا ہو؟ کیا اْس باپ کے دکھ کا ادراک ممکن ہے جس کا ہمکتا ہوا کلوتا بیٹا لمحے بھر میں کچھ اس طور جدا ہوا ہوکہ روح تک کانپ اٹھے؟ جگر کو چیر کر رکھ دینے والے ایسے اندوہناک واقعے سے انسان کانپ اٹھتا ہے اور لرز کر رہ جاتا ہے، کوئی حرفِ تسلی اورکوئی حرفِ دعا سوگواران کے زخموں کا پھایا نہیں بن سکتے، مگر قسم ہے اربابِ اقتدار و اختیار کو کہ وہ ٹس سے مس تک ہوں!۔ گزشتہ روز کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں تین سالہ کمسن بچہ کھلے مین ہول میں گر کر لاپتا ہوگیا، حادثے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو 1122 اور ایدھی کی ٹیم جائے وقوعہ پہنچیں، بچے کی تلاش کا عمل شروع کیا، اس دوران ماں اپنے لخت جگر کو بچانے کی اپیل کرتی رہی اور جائے وقوعہ پر دہائیاں دیتی رہی مگر بچے کو کھلے مین ہول سے نہیں نکالا جاسکا۔ بچے کے والد شاہ فیصل کے رہائشی ہیں اور اپنی بیوی اور بیٹے کے ہمراہ نیپا شاپنگ مال آئے تھے۔ والد کا کہنا تھا کہ میری موٹر سائیکل گٹر کے مین ہول کے قریب پارک تھی جبکہ گٹر پر ڈھکنا موجود نہیں تھا۔ واقعہ اتوار کی رات 11 بجے کے قریب پیش آیا تھا جس کے بعد ریسکیو اہلکاروں نے بچے کی تلاش شروع کی تاہم وہ ناکام رہے۔ بعد ازاں ریسکیو آپریشن کو عارضی طور پر روک دیاگیا، ریسکیو آپریشن رکنے کے بعد لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہیوی مشینری منگوائی اور جائے وقوعہ پر کھدائی کی گئی۔ ریسکیو حکام کے مطابق بچے کی لاش 14 گھنٹے بعد نالے سے ملی ہے جسے جائے وقوعہ سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر دور نالے سے تلاش کیا گیا۔ واقعے کے بعد ایک لڑکے نے دعویٰ کیا کہ بچے کی لاش سرکاری اداروں کے عملے نے نہیں بلکہ اس نے نکالی ہے۔ لڑکے کا کہنا ہے کہ اس نے بچے کی لاش اٹھا کر دی تھی۔ پولیس والے نے مجھے کہا کہ تم کون ہو تو میں نے کہا بچے کو میں نے ڈھونڈا ہے تو انہوں نے مجھے تھپڑ مار کر گاڑی سے اُتار دیا۔ واقعے کے بعد مشتعل افراد نے احتجاج کیا اور سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کردی۔ اس المناک واقعے پر حسب ِ روایت سندھ اور شہری حکومت نے نیپا واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا، سندھ حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید کا کہنا تھا کہ مین ہول کا ڈھکن غائب ہونے کی انکوائری جاری ہے، غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ واقعے پرمیئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا پچھلے ایک سال میں 88 ہزار مین ہول کور لگائے ہیں، واٹر کارپوریشن نے 55 فی صد یوسی چیئرمینوں کو ڈھکن دیے ہیں، انکوائری کراؤں گا کہ شہرکے بیچ ڈپارٹمنٹل اسٹور اور اسپتال کے قریب مین ہول کیسے کھلا تھا، مین ہول کتنے دن سے کھلا تھا، یا کھولا گیا تھا، اس کو چیک کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ واٹر کارپوریشن کو کوئی شکایات نہیں ملی تھی۔ مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا اس علاقے کا ٹاؤن چیئرمین جماعت اسلامی کا ہے، اگر میں کہوں کہ ذمے داری جماعت اسلامی کی ہے تو لوگ ناراض ہوں گے، منافقت کو ایکسپوز کرنے سے پچھے نہیں ہٹوں گا۔ اتنا بڑا شہر ہے یو سی چیئرمین کو مسائل پر اپ ڈیٹ کرنا چاہیے۔ کمسن بچے کی مین ہول میں گر کر ہلاکت کے خلاف سٹی کونسل میں جماعت ِ اسلامی کے ارکان نے بھر پور احتجاج کیا اور مرتضیٰ وہاب کو واقعے کا ذمے قراردیتے ہوئے میئر کراچی سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ واقعے پر جماعت ِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ شہر کو ترقیاتی منصوبوں کے نام پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ بی آر ٹی کے نام پر کراچی والوں کی تذلیل کی جارہی ہے، 15 سال میں 3360 ارب روپے سندھ حکومت نے ہڑپ کرلیے، لیکن عوام تک نہ سڑک پہنچی نہ پانی، کراچی محض ایک شہر نہیں، پورے ملک کی تصویر ہے۔ یہاں رہنے والے مختلف قومیتوں کے لوگ مل کر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں، مگر حکمران جماعتیں اس شہر سے مسلسل ناانصافی کرتی آئی ہیں، واٹر بورڈ اور میئر کراچی بچے کی موت کے ذمے دار ہیں کیونکہ شہر میں کھلے مین ہولز کسی بھی وقت جان لے سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 3 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے شہر کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کھلے گٹروں اور مین ہولز میں گرنے سے ہلاکتوں کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں، خصوصاً کراچی جیسے بڑے شہروں میں، جہاں ناقص صفائی کا نظام، ٹوٹے یا غائب ڈھکن، اور گنجان آبادی والے علاقوں میں ناکافی روشنی پیدل چلنے والوں کے لیے خطرہ بنتی ہے، گٹروں میں زہریلا گندہ پانی بھرا ہوتا ہے اور آکسیجن کی کمی کے باعث چند منٹوں میں دم گھٹنے یا ڈوبنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ستمبر میں کراچی کے عثمان آباد علاقے میں صفائی کے دوران تین سینی ٹیشن ورکرز مین ہول میں گرنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ مئی میں کراچی میں ایک چھے سالہ بچہ کھلے مین ہول میں گر گیا تھا، جس پر شہریوں اور سیاستدانوں نے احتجاج کیا اور پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ اپریل میں لیاقت آباد کے ایک نالے سے ایک کمسن بچی کی لاش برآمد ہوئی تھی، جسے سچل تھانے کی حدود سے لاپتا ہونے کی اطلاع دی گئی تھی۔ گلشن ِ اقبال میں ہونے والے اس اندوہناک واقعے پر عوام کس قدر غم و غصے کا شکار ہیں اس کا اندازہ ایسے لگایا جاسکتا ہے کہ فاروق ستار جب وقوعے پر پہنچے تو مشتعل شہریوں نے انہیں اپنی گاڑی سے اُترنے نہیں دیا جس کے بعد ایم کیو ایم رہنما گاڑی سے اترے بغیر روانہ ہوگئے۔ مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ اتنا بڑا شہر ہے یو سی چیئرمین کو مسائل پر اپ ڈیٹ کرنا چاہیے جب کہ رپورٹ کے مطابق یوسی چیئرمین گلشن اقبال ٹاؤن ریاض اظہر نے کھلے مین ہول کی شکایت 29 اکتوبر کو بی آر ٹی آفس میں منعقدہ میٹنگ میں کی تھی۔ دستاویز کے مطابق مذکورہ میٹنگ میں یونیورسٹی روڈ پر مین ہولز پر ڈھکن لگانے، رنگ سلیب کی درخواست کی گئی تھی، کمیٹی میں یوسی چیئرمین ریاض اظہر کی درخواست کو نظرانداز کیا گیا۔ یوسی چیئرمین کی جانب سے اکتوبر میں کمیٹی کو 14 کھلے مین پوائنٹ کی نشان دہی کی گئی تھی رپورٹ کے مطابق شکایت پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا بلکہ یوسی چیئرمین گلشن ٹاؤن ریاض اظہر جواب دیا گیا ٹھیکے دار نے مزید کام کرنے سے منع کردیا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ شہر میں جب بھی اس نوع کے دلخراش واقعات رونما ہوتے ہیں تب غفلت میں مدہوش حکمران تھوڑا ہوش میں آتے ہیں، عوام کی جانب سے بھی کچھ ہاہاکار مچتی ہے اور کے بعد زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ کھلے گٹر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور گندگی کے انبار میئر کراچی کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں مگر میئر کراچی کسی بھی طور اس حادثے کی ذمے داری لینے کو تیات نہیں، وہ انتہائی ڈھٹائی سے اس واقعے کو جماعت ِ اسلامی کے سر تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مرتضیٰ وہاب جن 106 سڑکوں سے متعلق دعویٰ کرتے ہیں وہ کے ایم سی کے تحت ہیں وقوعے والی سڑک انہی 106 سڑکوں میں شامل ہے، یہاں اس امر کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب عوام کے مقدس ووٹ پر ڈاکا ڈال کر کراچی کی میئر شپ نااہلوں اور غاصبوں کے حوالے کی جائے گی جسے عوام نے منتخب ہی نہ کیا ہو تو یہ کچھ ہوگا جو کراچی میں ہورہا ہے۔کیا کوئی ادارہ ایسا ہے جو پھول سے معصوم بچوں کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کرے؟ کراچی کے ارباب اختیار اپنی نااہلیوں اور ناکامو ں کا الزام دوسروں پر عاید کر کے اس نوع کے واقعات کی ذمے داری سے بری الزمہ نہیں ہوسکتے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ یوسی چیئرمین کھلے مین ہول مین ہول میں میئر کراچی کے مطابق واقعے پر کے بعد کہ شہر کی لاش بچے کی
پڑھیں:
لاہور میں میٹرو بس حادثے کا شکار، سروس معطل کردی گئی
لاہور میں آزادی چوک کے قریب میٹرو بس کو حادثہ پیش آیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق میٹرو بس ٹریک کے کناروں پر لگے جنگلوں سے ٹکرا گئی۔
حکام کے مطابق بس میں سوار تمام مسافروں کو محفوظ طریقے سے باہر نکال لیا گیا۔
واقعے کے بعد آزادی چوک کے حصے میں میٹرو بس سروس عارضی طور پر روک دی گئی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ ایم اے او کالج سے شاہدرہ تک سروس معطل کردی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews حادثہ لاہور مسافر محفوظ میٹرو بس سروس وی نیوز