Jasarat News:
2025-12-02@23:12:37 GMT

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہارجائوں گی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251203-03-8
اسماء صدیقہ
نئے دور کا یہ بڑا کھوکھلا سا شور ہے کہ اب وہ دور لد گیا جب عورتیں کبھی چولہا پھٹنے، اور کبھی دوپٹا جلنے سے ماری جاتی تھیں تو کبھی جسمانی اور ذہنی تشدد سے سلگ سلگ کے مرمر کے جیتی تھیں اب وہ گھروں میں مقید نہیں ان کو اپنے حقوق کا شعور آگیا ہے وہ نکل کر کیا نہیں کررہی ہیں خودمختار ہیں ہر شعبے میں خود کو منوارہی ہیں مرد کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں (مساوات کی چھاؤں میں بڑا نشہ ہے) ہے لیکن ٹی وی چینلوں سے سوشل میڈیا تک عورتوں پر تشدد بڑھتے جانے کی خبریں اب نئے انداز سے آ رہی ہیں غریب گھرانوں میں تو تشدد کے واقعات عام تھے ہی مگر مڈل کلاس مرد بھی بھی اچھا خاصہ گھونٹتے تھے مگر افسوس ناک اضافہ یہ ہے کہ اب ورکنگ وومن بھی نشانہ بنتی جا رہی ہیںکبھی پس دیوار تو کبھی سر راہ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ یہ تو امپاورمنٹ کا حصہ ہیں پھر کیوں زیر عتاب ہے یا شاید اپر کلاس، ایلیٹ کلاس کی عورت کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اس لیے کہ وہ تو خود مختار ہے کئی مرد اس کے پیچھے چلتے ہیں واقعی ایسی عورتیں تو راج کرتی ہوں امپاور منٹ کی چھاؤں میں سکھی ہوں گی راوی چین ہی چین لکھتا ہوگا مگر حقیقت کچھ اور ہے دراصل ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والا معاملہ ہے۔ اپنے گردو پیش پر نظر ڈالیے زمینی حقائق تو کچھ اور ہیں۔

پاکستان کی دو امپاورڈ خواتین کی کہانی سب کے سامنے ہے جس میں ان کی بے چارگی کا کڑوا سچ بھرپور انداز سے چیختا ہے کہ اس کھوکھلے نعرے کی ساری قلعی یک بیک اُترتی چلی جاتی ہے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ بھلائی جانے والی سچی کہانی ہے جو ایک سرد شام کی دردناک اور ہولناک داستان ہے پاکستان کی وہ عورت جو دو بار سب سے بڑی پوسٹ پہ فائز رہی بہت مقبول ہوئی منہ میں سونے کا چمچہ لے کر محل میں پیدا ہوئی جی بالکل حامیوں سے مخالفین تک سب مانتے ہیں کہ بینظیر بھٹو بہت بہادر بہت ذہین اور خاصی حد تک غیر سطحی تھیں بہت عوامی ہونے کے باوجود کئی برسوں کی جلا وطنی ختم کر کے وطن لوٹی تھیں تب انہوں نے آمریت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا اکتوبر 2007 اسی وقت ان پہ قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئی مگر دو ماہ بعد جب راولپنڈی لیاقت باغ میں واپس آتے ہوئے جان کی بازی ہار گئیں ان کا سفید دوپٹا بھرے مجمع میں ان کے خون سے سرخ ہو گیا یہ آمرانہ سازش تھی یا ان کے شریک حیات کی بے وفائی کا کوئی عملی اظہار جس کے چرچے اس وقت خبروں کا حصہ بن رہے تھے بے شک اس وقت کسی بڑی پوسٹ پہ نہیں تھیں مگر دو بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والی اپوزیشن لیڈر تھیں اور دنیا بھر میں مقبول تھیں یہ 27 دسمبر 2007 تھا ہجوم میں محافظوں کے درمیان ایک کھلی جگہ ہونے والا حادثہ تھا تب ایک اور باصلاحیت اور امپاورڈ خاتون کا کہا ہوا اک شعر ان پہ صادق آگیا۔

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

اور مسلسل کٹھ پتلی بنائے جانے کے باوجود کٹھ پتلی نہیں بن سکی تھی، آخر تین سبجیکٹ میں ماسٹر تھیں جن میں ایک فلسفہ بھی شامل تھا کیا اسے پڑھنے والی عورت کٹھ پتلی بن سکتی ہے؟ ان کے پہلے دور میں دنیا نے اس اہم منصب پر فائز امپاورڈ خاتون کی شدید بے بسی دیکھی ہزار اختلاف سہی مگر ان کا اپنا بھائی سڑک پر پولیس مقابلے میں شدید زخمی ہو کر رگڑتا ہوا مارا گیا قطع نظر اس کے کہ وہ بڑا دہشت گرد تھا کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ پولیس کو روک سکے، نہ اس کی بہن کو خبر تھی بہرحال اطلاع ملنے پر بڑے منصب پر فائز وہ عورت بے ساختہ روتے ہوئے دوڑی چلی آئی کیا کسی مرد وزیراعظم کے دور میں ایسا ہو سکتا تھا؟ تب سماج نے اس کھوکھلے نعرے کی قلعی کھلتے ہوئے دیکھی۔

دوسری امپاورڈ خاتون کی کہانی اس سے بھی تیرہ سال پہلے کی ہے اتفاق دیکھیے تاریخ اس سے ایک روز پہلے کی 26 دسمبر 1994 کی بہت جینئس اور معروف شاعرہ تھیں جو سول سروس کے اعلیٰ عہدے پہ فائز تھیں جی یہ شعرو ادب کا بڑا نام مرحومہ پروین شاکر تھیں ان کی المناک حادثاتی موت کی کہانی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی سے دور بھاگتی تھیں زندگی کے المیوں سے لڑتے ہوئے اپنی دنیا آپ بنانے والی خاتون کی کہانی ان کی نظم ’’ورکنگ وومن‘‘ بھی ایک آئینہ ہے جس میں امپاورمنٹ کا سچا عکس شکوہ سنج ہے۔ محض 24 سال کی عمر میں ان کی کتاب ’’خوشبو‘‘ پہ آدم جی ایوارڈ دیاگیا امریکا کی ہارڈورڈ یونی ورسٹی علم کا مقطع کہی جاتی ہے انہوں نے وہاں سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی اس سے پہلے انگلش میں ڈبل ماسٹر کیا تھا اور اردو کی پائے کی شاعرہ تھیں اہم منصب پہ فائز ہونے کے باوجود ’’منصب دلبری‘‘ ایک ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں ان سے چھن چکا تھا جس کا دکھ ان کی شاعری میں جابجا ملتا ہے۔

ہمارے قحط بھی اور بارشیں بھی پوری ہوئیں
ہمارے نام کا اب تو کوئی عذاب نہ ہو
بس ایک نام کا تارہ سدا چمکتا رہے
گلہ نہیں جو مقدر میں ماہتاب نہ ہو
……
گھر کے مٹنے کا غم تو ہوتا ہے
اپنے ملبے پہ کون سوتا ہے
……
جس طرح خواب میں میرے ہوگئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے نہ بکھرے کوئی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

خاصی آزاد خیال لگنے کے باوجود ایک تہذیب سے جڑی تھیں ان کی ہم عصر فیمنسٹ خواتین ان پہ شدید تنقید کرتیں کہ انہوں نے مردوں کا دماغ خراب کیا ہے ان کے مداحوں بلکہ معتقدین میں اس وقت سے آج تک کے بہت مرد شامل ہیں اس لیے کہ ان کا تصور مرد بہت عظیم تھا شکوہ اپنی جگہ یہ بات بھی ان کی انفرادیت کا باعث تھی حادثاتی موت سے پہلے حادثاتی زندگی نے ان کو نڈھال کردیا تھا محض 42 سال کی عمر میں المناک ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگئیں مذکورہ دونوں خواتین سے آپ شدید اختلاف رکھتے ہوئے بھی یہ بات مانیں گے کہ یہ دیواروں کے اندر تشدد سے نہیں ختم ہوئیں بلکہ کھلی شاہراہ پہ جان کی بازی ہاری تھیں ان کی زندگیاں نہ چولہا پھٹنے سے ختم ہوئیں نہ کسی اور گھریلو تشدد سے ایسی اور بھی بہت پاور فل خودمختار مانی جانے والی عورتیں ہیں مگر ان کے اندر کوئی شدید محرومی، کوئی نارسائی، کوئی بڑا المیہ ان کو ملول اور بے بس رکھتا ہے گھر کے اندر تحفظ عزت اور سکھ کی چھاؤں اور ایک محرم کے مان کو تڑپتی ہیں یہ کمزور کے سچ کی طاقتور جھوٹ کے مقابل بے نام سی ہار ہے محض مرد عورت کی بات نہیں طاقت سچ کا بڑا حق ہے سماجی، معاشی، سیاسی، اخلاقی سارے مسائل اسی سبب سے لاینحل ہیں بہرحال اس میں ان کا قصور ہویا نہیں الگ بحث ہے مگر

ناحق ہم مجبوروں پہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

کا معاملہ ہے اس لیے کہ محرم نگران کی پناہ اس کی وفا اور اعتبار بڑی پاور ہے وہ اس سے ذرا پیچھے چل کر بڑا راج حاصل کرتی ہے یہاں آکر قوامون علی النساء کے آسمانی حکم کو چومنے گلے لگانے اور پھر اس کی عملی تکمیل کو دل کرتا ہے اور اس کی شدید ضرورت ہے۔

جی ہاں یہ دومثالیں کہانیاں نہیں بڑی ہیڈلائن تھیں تشدد کی کھلی سچائی تحفظ عزت اور سکون کے مثلث کی تلاش میں وہ کیا نہیں کرگئیں بڑا مقام بھی مل گیا مگر دونوں کی بے بس زندگی سے بے بس اموات پوچھ رہی ہیں کہ آخر! یہ وومن امپاورمنٹ کیا ہے؟

مگر… ہر چند کہ کہیں ہے مگر نہیں ہے۔

اسماء صدیقہ سیف اللہ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے باوجود کی کہانی رہی ہیں ہے مگر

پڑھیں:

برائی کا دفاع؟

یہ بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اسلامی نظریۂ حیات کی بنیاد پر بننے والے پاکستان میں چند دہائیوں کے بعد ایسا وقت بھی آئے گا کہ اس کے میڈیا پر کچھ مغرب زدہ مرد اور عورتیں برائیوںکی حمایت کریں گی اور کوئی ان کا منہ بند کرنے والا نہیں ہوگا۔

پہلے بھی اس طبقے کی خواہش تو یہی تھی مگر قدرے دبی ہوئی تھی، مگر مشرف دور سے اس طبقے کو کھلی چھٹی مل گئی اور اب تو وہ کھل کر کہنے لگے ہیں کہ مرد اور عورت بغیر نکاح کے اکٹھے رہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی تعلق استوار کریں تو بھلے کریں، انھیں اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ مغربی ممالک میں جہاں مرد کو مرد سے اور عورت کو عورت سے شادی کی اجازت ہے، اور جہاں زنا بالرضا جرم نہیں ہے، وہاں بے شمار جوڑے اس طرح رہتے ہیں۔ مگر ایشیائی معاشرت میں بالعموم اور اسلامی معاشرے میں بالخصوص اسے غلط، ناپسندیدہ اور جرم سمجھا جاتا ہے۔

مغرب میں بغیر نکاح کے اکٹھے رہنے کو Live in relationship کہا جاتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغربی کلچر کی کوئی ایسی برائی نہیں جسے ہماری احساسِ کمتری کی ماری ہوئی اشرافیہ فوراً اچک نہ لے اور اس پر عملدرآمد نہ شروع کردے، لہٰذا ہمارے ہاں بھی اب ایسے واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔ نئی نسل کو اس کے بھیانک اثرات کا ضرور ادراک کرنا چاہیے اور یہ معاملہ معاشرتی اصلاح کرنے والوں کے لیے ایک اہم موضوع ہے جس پر انھیں اپنے حلقوں میں گفتگو کرنی چاہیے۔

 میں نے صرف ایک elder کی حیثیّت سے والدین اور معاشرے کی توجہ ایک ایسی برائی کی جانب مبذول کرائی ہے جس کی ہمارے تمدّن اور معاشرت میں کوئی گنجائش نہیں، ایسی خرافات مغربی کلچر کی پیداوار ہیں اور مغرب کی ہر چیز کو برتر سمجھنے والی ہماری ایلیٹ کلاس ایسی ہر برائی کو قبول بلکہ اپنے ہاں رائج کررہی ہے۔

اس جائز اور بروقت نصیحت پر اپنے آپ کو لبرل کہنے والا طبقہ ضرور تلملا اٹھے گا اور اس مشورے پر غور کرنے اور سنجیدگی سے عمل کرنے کے بجائے تنقید شروع کردے گا، اور دوسری طرف وہ Live in relation یعنی بغیر نکاح کے ساتھ رہنے کا دیدہ دلیری سے دفاع کر گے گا اور کوئی بھی اس کا نوٹس نہیں لے گا۔ یہ کون لوگ ہیں جو ایک جرم اور گناہ کا دفاع کررہے ہیں، یہ لوگ جس عمل کی حمایت کررہے ہیں کیا وہ مقامی کلچر کا حصہ ہے؟ ہر گز نہیں۔ کیا اس عمل کی ہمارے ملکی کلچر میں گنجائش ہے؟ بالکل نہیں۔

کیا وہ عمل ایشیائی معاشرت میں پسندیدہ سمجھا جاتا ہے؟ اس کا جواب بھی ناں میں ہے، پورے ایشیا میں بغیر نکاح کے مرد وزن کے ایک ساتھ رہنے کو برائی اور جرم سمجھا جاتا ہے، پھر ایک مخصوص نظریے اور خیالات کا حامل گروہ ایک معاشرتی اور قانونی برائی اور جرم کی حمایت پر کیوں تلا ہوا ہے؟ حیرت ہے کہ یہ لوگ مکھن کو ٹھنڈی جگہ پر رکھنے کے بجائے آگ کے قریب لے جاتے ہیں اور اگر وہ پگھل جائے تو آگ کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیتے ہیں، ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’گوشت کو ڈھانپ کر رکھو ورنہ اس پر کتوں اور بلیوں کا حملہ لازمی ہوگا‘‘۔ یہ مخصوص لوگ گوشت کو ڈھانپنے کے بجائے کھلا رکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور اگر اس پر کتا منہ مارلے تو نہ صرف کتے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، بلکہ گوشت ڈھانپنے کا مشورہ دینے والوں پر بھی تنقید شروع کردیتے ہیں۔

جرائم کو کنٹرول کرنے اور نپٹنے کے ذمے دار پولیس افسران یا مقدمے کی سماعت کرنے والے جج صاحبان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ جرم کا نشانہ بننے والے فرد کی کسی کوتاہی کی نشاندہی کرتے ہوئے دوسروں کو متنبّہ کرے تاکہ وہ مکمل حفاظتی انتظامات اختیار کریں اور اس ضمن میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔ اگر متعلقہ افراد ایسا مشورہ دیں یا اس نوعیت کے جرائم کے انسداد کے لیے نصیحت یا انتباہ کریں تو اسے Victrim blaming نہیں سمجھا جاتا، مہذّب معاشرے ایسی نصیحت یا انتباہ کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، میڈیا بھی ایسی ہمدردانہ نصیحت کو سپورٹ کرتا ہے۔

آج کے جدید دور میں کوئی بھی معاشرہ rules of game یا ڈسپلن کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، اس کے لیے ہر ملک اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق آئین اور قوانین بناتا ہے، ہر شہری جن پر عملدرآمد کا پابند ہوتاہے۔ بدکاری کے حامیوں کو پوچھا جانا چاہیے کہ آخر وہ کس بنیاد پر ایک جرم کی حمایت کررہے ہیں، جب کہ ملک کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، ہماری اخلاقی اور معاشرتی اقدار ان کی نفی کرتی ہیں، ہمارا معاشرہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور ہمارے آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہر کام کی کوئی دلیل ہونی چاہیے۔

 اس معاملے میں لبرلز کے پاس ایک ناپسندیدہ فعل کا دفاع کرنے کی دلیل اور جواز کیا ہے؟ دراصل جواز بھی ایک ہے اور دلیل بھی ایک۔ کہ یہ فعل چونکہ مغربی معاشرے میں ہوتا ہے اور وہاں اسے جرم نہیں سمجھا جاتا اور چونکہ ان کی چمڑی سفید ہے اور وہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں اس لیے ان کا ہر کام اعلیٰ ہے، اور ان کے طرزِ زندگی کی تقلید کی جانی چاہیے، یہ ہے ان کی سوچ۔ یہی ہماری سب سے بڑی بیماری ہے یعنی مرعوبیّت، غلامانہ سوچ اور احساسِ کمتری۔ اسی بیماری سے نجات کے لیے اقبالؒ جدوجہد کرتے رہے۔ تیری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ طبقہ مغرب کے دسترخوان سے ہی ہڈیاں چُنتا ہے، انھوں نے اپنی این جی اوز کے نام پر مغربی ممالک سے ہی ڈالر اور یورو اینٹھنے ہوتے ہیں لہٰذا یہ لوگ انتہائی تابعدار اور وفادار غلاموں کی طرح ان کا ایجنڈا پھیلانے کا ٹاسک بھی پورا کرتے ہیں۔ ایجنڈا کیا ہے؟ ان کا ایجنڈا ہے اسلامی تہذیب کی جگہ مغربی کلچر کا فروغ اور معاشرے سے پاکیزگی اور شرم وحیا کا مکمّل خاتمہ۔ ان کا دل ضرور کہتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ غلط اور حرام ہے۔ ہر مذہب اور ہر الہامی کتاب نے اسے حرام اور جرم قرار دیا ہے مگر چونکہ انھوں نے ایک نوکر اور غلام کی طرح اپنے مالک اور آقا کا حکم بجا لانا ہے اور ان کی ہدایات پر من وعن عمل کرنا ہے۔ اس لیے وہ اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں لیکن اگر وہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو خود محسوس کریں گے کہ وہ جو کام کررہے ہیں وہ انتہائی گھٹیا اور شرمناک ہے۔

میں نے کئی خواتین وحضرات سے خود پوچھا ہے کہ کسی جوڑے کا بغیر نکاح کے ساتھ رہنے کے بارے میں ان کا نظریہ یا خیال کیا ہے۔ اس پر نوّے فیصد کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں اس قسم کا کلچر قبول نہیں، ہم اپنی بیٹیوں یا بیٹوںکو دوستوں کے ساتھ راتیں گزارنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ مغربی تہذیب کا سب سے تاریک پہلو یہی ہے کہ اس میں پاکیزگی نہیں ہے اور وہ حیا سے محروم ہے۔ جس تہذیب میں پاکیزگی اور حیا نہ ہو وہ کسی انسانی معاشرے کے لیے مضر تو ہوسکتی ہے مفید نہیں ہوسکتی۔

متعلقہ مضامین

  • آئینی ترامیم،اصل فائدہ کس کا؟
  • حادثے کا ذمے دار کون؟
  • برائی کا دفاع؟
  • یاد کا موسم
  • مشکل تجربات نے مجھے مضبوط بنایا، مادھوری
  • بچہ مین  ہول میں گر کر لاپتا؛ ٹاؤن چیئرمین جماعت اسلامی کا ہے، کچھ کہوں تو لوگ ناراض ہونگے، میئر کراچی
  • گورنر راج کوئی نئی بات نہیں، علی امین کے جانے سے پہلے بھی یہ باتیں ہوتی تھیں، شیخ وقاص اکرم
  • برصغیر کا پولینڈ
  • دو نوجوانوں نے حریم فاروق کو کیسے بچایا؟ اداکارہ نے اپنے بچپن کا واقعہ سنادیا