Jasarat News:
2025-12-02@23:12:28 GMT

آئینی ترامیم،اصل فائدہ کس کا؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251203-03-6
(دوسرا اور آخری)

انیسویں ترمیم کے تحت 22 دسمبر 2010 کو عدالت عالیہ اسلام آباد قائم کی گئی اور عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے قانون وضع کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ آج بھی حلق کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔ اس کے بعد بیسویں ترمیم لائی گئی 14 فروری 2012 کو ’’صاف شفاف‘‘ انتخابات کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا۔ اکیسویں ترمیم میں 7 جنوری 2015 کو سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں۔ آرمی پبلک اسکول کے ذمے داروں کا کیا بنا یہ الگ قصہ ہے لیکن فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل آج بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ آئین پاکستان میں بائیسویں ترمیم 8 جون 2016 کو ہوئی، اس میں بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو دیے گئے، چیف الیکشن کمشنر کی اہلیت کا دائرۂ کار تبدیل کیا گیا، جس کے تحت بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بن سکیں گے۔ تیئیسویں ترمیم 7 جون 2017 کو منظور ہوئی، 2015 میں قومی اسمبلی نے 21 ویں ترمیم میں دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں، یہ دورانیہ 6 جنوری 2017 کو ختم ہوا، اس ترمیم میں فوجی عدالتوں کے دورانیے کو مزید دو سال کے لیے، 6 جنوری 2019 تک بڑھایا گیا۔ جس طرح سندھ میں رینجرز کے قیام کی مدت بڑھائی جاتی ہے اسی طرح یہ کام بھی کردیا گیا۔ آئین پاکستان میں چوبیسویں ترمیم 22 دسمبر2017 کو ہوئی، وفاقی اکائیوں کے مابین نشستوں کے تعین کا اعادہ اور 2017 کی خانہ و مردم شماری کی روشنی میں نئے انتخابی حلقوں کی تشکیل، عمل میں آئی۔ پچیسویں ترمیم 31 مئی 2018 کو لائی گئی اور فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کیا گیا۔

پاکستان میں عدلیہ کے پر کاٹنے بلکہ اسے عضو معطل بنانے والی ترمیم 26 ویں ترمیم کہلاتی ہے۔ 20 اکتوبر 2024 کی اس ترمیم میں چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کرنے کی تجویز دی گئی۔ یہ پوری ترمیم، عدالت عظمیٰ، ججوں کے تقرر، تبادلے، ریفرنسز، مدت ملازمت، عمر کی حد، عدالت کے اختیارات کی حد بندیوں وغیرہ کے گرد گھومتی ہے۔ اور یہ عدلیہ پر کھلا حملہ تھا لیکن عدلیہ کے رکھوالوں اور ججوں کے درمیان اختلافات اور چھوٹے چھوٹے مفادات نے انہیں اس پر کوئی رکاوٹ ڈالنے سے روک دیا اور انہیں اس کا اندازہ بھی تھا، انہیں چند مہینوں میں غلطی کا احساس ہوگیا لیکن اب دیر ہوچکی تھی، فائدہ اٹھانے والوں نے فائدہ اٹھا لیا، کچھ ججوں کو کچھ فوائد بھی مل گئے۔ اور تمام اختیارات قومی اداروں سے چھیننے کا کام کرنے والوں نے اپنا کام جاری رکھا اور اب ستائیسویں ترمیم بھی آگئی بلکہ چھاگئی ہے۔ یوں عدالت عظمیٰ پر حکومت کا اور اس کے ذریعہ اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول قائم ہوگیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں جے یو آئی نے جس چیز کا ذکر کامیابی کے طور پر کیا تھا وہ معیشت سے سود کے خاتمے کا اعلان ہے۔ پاکستان میں بینکنگ اور کسی بھی قسم کے لین دین سے سود کے خاتمے کے لیے آرٹیکل 38 میں کی گئی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 تک ملک سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ یہ ہوگا یا نہیں، ویسے تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ حکمران حکومت اور اپوزیشن ایسا کرنے والے نہیں ہیں، یہ بچھڑے (سودی نظام) کی قربانی نہیں دیں گے، بس کفار کی طرح نشانیاں ہی پوچھتے رہیں گے، ایک اور کارنامہ چھبیسویں ترمیم میں ہے، وہ یہ کہ آئین میں ایک نئی شق آرٹیکل نو اے بھی متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت ماحولیاتی تحفظ کو بنیادی شہری حقوق میں شامل کردیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ دیگر بنیادی حقوق سے قوم کی بڑی اکثریت محروم ہے۔

سوال یہ ہے کہ ستائیسویں ترمیم میں کیا ہوا ہے، ہنگامہ کیوں بپا ہے؟ بظاہر تو اس ترمیم

سے پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر 2030 تک فوج کے سربراہ ہوگئے ہیں، آرمی، ائر فورس اور نیوی ترمیمی بلز کی قومی اسمبلی میں منظوری سے چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہوگیا ہے۔ مجوزہ آرمی ایکٹ کے مطابق آرمی چیف کا بطور چیف آف ڈیفنس فورسز نیا نوٹی فکیشن جاری ہو گا جس کے بعد آرمی چیف کی مدت بطور چیف آف ڈیفنس فورسز دوبارہ سے شروع ہوگی۔ وزیراعظم آرمی چیف، چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر کمانڈر نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ تعینات کریں گے۔ کمانڈر نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈر کی مدت ملازمت 3 سال ہوگی۔ قومی اسمبلی میں وضاحتی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی منظوری کے بعد آرمی چیف کے عہدے کی مدت 5 سال ہوگی اور تعیناتی کی تاریخ سے مدت شمار ہوگی۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے اور موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی اپنی ریٹائرمنٹ تک اس عہدے پر برقرار رہیں گے۔ مجوزہ آرمی ایکٹ میں کہا گیا کہ آرمی چیف، چیف آف ڈیفنس فورسز پاک فوج کے تمام شعبوں کی ری اسٹرکچرنگ اور انضمام کریں گے۔ کمانڈر نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کو 3 سال کے لیے دوبارہ تعینات کیا جا سکے گا۔ مجوزہ آرمی ایکٹ میں کہا گیا کہ 27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہو جائے گا۔ اس ترمیم پر صدر مملکت نے دستخط کردیے ہیں اور یہ آئین کا حصہ بن گیا ہے، یہاں زیادہ تنقید کا نشانہ فیلڈ مارشل اور عدلیہ کو بنایا جارہا ہے، جو اس اعتبار سے درست ہے کہ فوج کے سربراہ کو کس چیز کا خوف ہے، عدلیہ کے ججوں نے چھبیسویں ترمیم کے موقع پر جس دوہرے روئیے کا مظاہرہ کیا اور خاموش رہے، ستائیسویں ترمیم اسی روئیے کا شاخسانہ ہے۔ اس ترمیم میں وزرائے اعظم کو بھی استثنیٰ دینے کی بات ہوئی تھی لیکن اس صورت میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی استثنیٰ مل جاتا۔ لہٰذا اسے وزیر اعظم کے نمبر بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے لیے استثنیٰ لینے سے انکار کرتے ہوئے وزرائے اعظم کا لفظ نکلوا دیا۔

پاکستان میں ہونے والی آئینی ترامیم کے ظاہری نتائج اور فائدہ اٹھانے والوں کا بہت ذکر ہوتا ہے، نام تک لیے جاتے ہیں، 1973 کے آئین اور اس کی قادیانیوں سے متعلق ترمیم کے ایک ایک مرحلے سے قوم واقف ہے۔ آئین کی تیاری، تنازعات، ترامیم تجاویز ہر مرحلہ ریکارڈ پر ہے لیکن آٹھویں ترمیم کے بعد سے پراسرار انداز نے جگہ لے لی، راتوں رات پیچیدہ شقوں میں ترامیم تجویز ہوتیں اور چند گھنٹوں میں پیش کرنے سے لے کر منظوری تک کا عمل مکمل ہو جاتا، آخر یہ کیسا جادو ہے، وہ کون جادوگر ہے جو لمحوں میں ترامیم لاتا اور منظور کراتا ہے، دستور کے ابتدائی خاکے اور منظوری تک کے سارے عمل کے برخلاف نئی ترامیم کا کوئی خالق سامنے نہیں آتا، کوئی حفیظ پیرزادہ، کوئی مفتی محمود، کوئی پروفیسر غفور، کوئی مولانا نورانی سامنے نہیں آتا، بس ترامیم آتی ہیں اور منظور ہوجاتی ہیں، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ پہلے ان اسمبلیوں میں کچھ لوگ مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں، سو انہیں اسمبلیوں سے باہر کردیا گیا، کبھی آر ٹی ایس بیٹھا، کبھی فارم 47 آگیا، کبھی زبردستی نتیجہ تبدیل کیا گیا۔ اب پارلیمنٹ میں ایسے لوگ موجود نہیں ہیں اور ان کو غیر موجود رکھنے کے ذمے دار وہی ہیں جو یہ سارے جادو کرتے ہیں۔ بس ان کا نام نہیں آتا، بے چارے نام نہاد سیاستدان سارا الزام چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اپنے سر لے لیتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ساری ترامیم سے آرمی چیف اور عدلیہ کے فائدے کی بات کررہے ہیں، لیکن سب سے زیادہ خطرے میں جو شخصیت تھی اور جو اپنے بارے میں خدشات کا شکار تھی، وہ صدر مملکت کی شخصیت ہے، خطرہ بھی انہیں تھا اور اصل فائدہ بھی وہی اٹھائیں گے، آرمی چیف یا فوج کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟ ذرا گرد بیٹھنے دیں پھر پتا چلے گا کہ کون سب سے زیادہ فائدے میں ہے۔ عوام کو تو بیش تر آئینی ترامیم میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

مظفر اعجاز سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: چیف ا ف ڈیفنس فورسز جوائنٹ چیفس ا ف پاکستان میں ا رمی ایکٹ کردیا گیا ا رمی چیف عدلیہ کے ترمیم کے ف کمیٹی کیا گیا کی مدت کے بعد کے تحت کے لیے فوج کے نہیں ا

پڑھیں:

پاکستان میں آئینی ترامیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہیں: وولکر ترک

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے پاکستان میں 27ویں آئینی ترمیم پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایک بیان میں وولکر ترک نے ترامیم سے پاکستانی عوام کی جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے خطرے پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں منظور کی گئیں آئینی ترامیم عدالتی آزادی اور ملک میں اختیارات کی تقسیم کے اصول کے خلاف ہیں، فوجی احتساب اور قانون کی حکمرانی پر بھی شدید خدشات کو جنم دیتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم بھی گزشتہ سال کی 26ویں ترمیم کی طرح قانونی برادری اور سول سوسائٹی سے مشاورت اور بحث کیے بغیر منظور کی گئی۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ ججز کی تقرری، ترقی اور تبادلے کے نظام میں تبدیلیوں سے عدلیہ کو سیاسی مداخلت اور انتظامی کنٹرول کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

وولکر ترک نے کہا کہ وسیع پیمانے پر دیا جانے والا استثنیٰ مسلح افواج پر جوابدہی کے جمہوری کنٹرول کو کمزور کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ ہائیکورٹ کا 27 ویں ترمیم کے حوالے سے اہم فیصلہ آ گیا
  • سندھ ہائی کورٹ کا 27 ویں ترمیم کے حوالے سے اہم فیصلہ
  • چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن کے اجراء کی مدت مقرر نہیں، تاخیر سے آئینی یا انتظامی خلا نہیں ہوتا
  • 27ویں آئینیترمیم  پرا قوام  متحدہ  کو تشویش  بے جا‘ ہائی  کمشنر  کا بناں  زمینی  حقائق  کا عکاس  نہیں  : پاکستان  
  • 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کیساتھ کھیلنے والے آگ سے کھیل رہے ہیں‘ بلاول
  • 27 ویں آئینی ترمیم پر انسانی حقوق کمشنر کا بیان زمینی حقائق کا عکاس نہیں‘ دفتر خارجہ
  • آئینی ترمیم مسترد کرنا کسی عدالت کے اختیار میں نہیں، چیئرمین پیپلزپارٹی
  • پاکستان میں آئینی ترامیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہیں: وولکر ترک