کاش انسانی جانیں بچ جاتیں
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
یوں لگتا ہے کہ کسی منصوبہ بندی کے تحت ملک کو بدامنی کی آگ میں دھکیلا جارہا ہے۔ یہ کیا ہے کہ وطنِ عزیز کے ہر حصّے میں دنگا، فساد اور جھگڑے پھوٹ پڑے ہیں۔ آزاد کشمیر میں کچھ سکون ہوا، تو ملک کے دوسرے حصّے بدامنی کا شکار ہوگئے ہیں۔
ملک کے کسی حصّے میں بھی امن یا استحکام نظر نہیں آتا۔ کہیں دہشت گردی کے زہریلے ناگ بے گناہ انسانوں کو ڈس رہے ہیں اور سیکیوریٹی فورسز کے گھبرو جوان اور خوبرو افسر شہید ہورہے ہیں، کہیں سرحدوں پر آگ برس رہی ہے، کہیں جہلاء کے جتھے پولیس سے برسرِ پیکار ہیں، پنجاب اور اسلام آباد کی سڑکیں اور راستے بند رہے ہیں۔ کئی دن جی ٹی روڈ بند رہی ہے، اس دوران لوگ گھروں میں محصور رہے۔
طلباء تعلیم سے محروم اور مریض دوا سے۔ انتہائی شدید مرض میں مبتلا مریض اسپتالوں تک نہ پہنچنے کے باعث راستوں میں ہی جانیں دے رہے ہیں۔ حکمرانوں، طبقۂ امراء اور احتجاجیوں کو اس عذاب کے اثرات کا اندازہ نہیں کیونکہ انھیں ہر چیز میّسر ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ سڑکیں بند ہونے سے ہر روز لاکھوں گھروں کے کمانے والے افراد کام/ مزدوری پر نہیں جاسکتے، جس کے نتیجے میں ان کے گھروں کے چولہے نہیں جل سکے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہر درد مند پاکستانی کا دل مضطرب ہے۔
کیا مئی کی فتح کو کسی بدخواہ کی نظر لگ گئی ہے؟ کیا اس کے بعد ہمارے حکمران کوئی بڑے بول تو نہیں بولتے رہے جو خالقِ کائنات کی ناراضگی کا باعث بنے ہوں۔ ابھی چند روز پہلے ایک بزرگ شخصیّت نے مجھے فون کرکے تاکید کی تھی کہ آپ اپنے کالموں میں لکھیں کہ حکومتی شخصیات کے متکبّرانہ بیانات درست نہیں ہیں۔ کائناتوں کے مالک کو صرف عاجزی پسند ہے۔
ملک کے مختلف حصّوں میں برپا بدامنی کے پیچھے یقیناً ملکی اور بیرونی ایجنڈا بھی ہے۔ پرانے دشمنوں کے علاوہ کچھ نئے دشمن بھی اور عالمی طاقتیں بھی ملوّث ہیں مگر کہیں نہ کہیں اس میں ہماری اپنی کوتاہی، نالائقی، ناتجربہ کاری اور بدانتظامی بھی ضرور شامل ہے۔ برادرم نوید چوہدری سینئر اور باخبر صحافی ہیں، تازہ صورتِ حال کے تناظر میں لکھتے ہیں:’’ ہر سال لاہور سے اسلام آباد جانے کا اعلان ہوتا ہے، ماردھاڑ ملتان روڈ پر شروع ہو جاتی ہے۔ جلوس چل پڑتا ہے، ابھی شہر سے باہر نہیں نکلتا کہ ہلاکتوں کی خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
پولیس کی گاڑیاں قبضے میں لے کر تھانوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ڈی آئی جی بتاتے ہیں کہ پولیس پر بدترین تشدد کیا گیا، کئی اہلکار اغوا ہو گئے، کسی کا سر پھٹا ہے، کسی کی ٹانگ یا بازو زخمی ہے۔اس دوران کاروبارِ زندگی مفلوج ہوتا ہے، موٹر ویز، شاہراہیں بند، جو جہاں ہے وہیں پھنس جاتا ہے۔ پرائیویٹ گاڑیاں بھی محفوظ نہیں رہتیں، مارکیٹیں اور اسکول بند ہو جاتے ہیں۔ ان واقعات کو عالمی اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تشخص مجروح کیا جاتا ہے۔ پوری قوم خوف اور اذیّت میں مبتلا کر دی جاتی ہے۔
ہر کوئی دوسرے سے پوچھ رہا ہوتا ہے یہ عذاب کب ٹلے گا، جب یہ کارواں سب کچھ روند کر اسلام آباد پہنچتا ہے تو (ماضی کی ) وفاقی حکومت ایک کمیٹی بناتی ہے۔ کچھ نکات طے پاتے ہیں۔ اس پر عمل درآمد ہو نہ ہو، اس دوران جتنا نقصان ہو چکا ہوتا ہے، اس کا ازالہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مظاہرین اور حکومتی عمائدین مشترکہ پریس کانفرنس کرکے ہنسی خوشی گھروں کو لوٹ آتے ہیں‘‘۔
جی بالکل، ہنسی خوشی، ایک دوسرے سے جپھّیاں بھی ڈالتے ہیں اور مذاکرات کی ’’کامیابی‘‘ پر مبارکبادیں وصول کی جاتی ہیں اور اس طرح دونوں اطراف سے ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان اور عزیز واقرباء کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے۔ چوہدری صاحب نے شرافت اور وضعداری سے کام لیا ہے ورنہ وہ یہ بھی پوچھ سکتے تھے کہ کیا امورِ سلطنت چلانے اور احتجاج کرنے کا یہی چلن ہوتا ہے؟ دونوں اطراف کے بندے مروانے اور زخمی کروانے کے بعد ہونے والے مذاکرات پہلے کیوں نہیں کیے جاسکتے۔ موّثر اور ایفی شینٹ حکومت پہلے ہی کسی ممکنہ شرارت، یا بدامنی کی بُو سونگھ لیتی ہے اور حالات خراب ہونے سے پہلے ہی اس کا سدِّباب کرتی ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوسکا؟
جب دنیا بھر میں مظلومینِ غزہ کے لیے لاکھوں کے جلوس نکل رہے تھے، اس وقت تو یہاں کوئی موثر جلوس نہ نکلا اور اب جب کہ بیچارے مظلوم فلسطینیوں کو کچھ ریلیف ملا ہے جس پر وہ خود بھی خوشیاں منا رہے ہیں لہٰذا اِس وقت غزہ کے نام پر ریلی نکالنے یا اسلام آباد میں دھرنا دینے کا تو بالکل ہی کوئی جواز نہ تھا۔ اس بے وقت اور بلاجواز ریلی کے کیا محرّکات تھے؟ اس سلسلے میں بھی طرح طرح کے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔
اس وقت فلسطین کا کوئی ایشو نہیں تھا، کیونکہ فوری طور پر اہلِ غزہ یہی چاہتے تھے کہ اسرائیل کی فائرنگ رکے (جس سے ہر روز بیسیوں بے گناہ انسان شہید ہورہے تھے) اور غزہ تک پہنچنے والے امدادی ٹرکوں کو وہاں آنے کی اجازت دی جائے۔ اس ضمن میں جو معمولی سا ریلیف ملا ہے مظلومینِ غزہ اس پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں کہ اُن پر ہر روز برسنے والی آگ اور بارود کی بارش رک گئی ہے اور امدادی ٹرک بھی خوراک اور دوائیاں لے کر وہاں جانا شروع ہوگئے ہیں، اس لیے اب اس معاہدے پر اطمینان کے بجائے اسلام آباد پہنچنے اور وہاں امریکی ایمبیسی کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان ناقابلِ فہم ہے۔
مرید کے میں ہونے والا تصادم افسوناک ہے، دونوں جانب کی جانوں کے ضیاع پر بہت دکھ ہوا ہے، پولیس کے جوان سال انسپکٹر شہزاد کی شہادت پر دل بڑا دکھی ہے، اس کے معصوم بچوں کے چہروں پر یہی سوال ہے کہ ’’ہمارے ابو کو کیوں مارا گیا ہے؟ ان کا کیا قصور تھا؟‘‘ اس کا کون جواب دے گا۔ دوسری جانب سے ہونے والی ہلاکتوں پر بھی بہت افسوس ہے۔ خون خرابے سے ہر قیمت پر بچنا چاہیے تھا اور بچا جاسکتا تھا۔ بات چیت سے راستہ نکالا جاسکتا تھا، کاش خون خرابہ نہ ہوتا اور انسانی جانیں بچ جاتیں۔ اس وقت جب کہ سرحدوں پر دشمن حملے کررہے ہیں اور آئے روز ہمارے افسر اور جوان شہید ہورہے ہیں، ہمیں اندرونی طور پر امن اور استحکام کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد رہے ہیں ہوتا ہے ہیں اور اور اس
پڑھیں:
دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں
پاک افغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی، پاک فوج نے فوری شدید رد عمل دیتے ہوئے متعدد افغان پوسٹوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔ 19 افغان پوسٹوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا، داعش اور خارجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی وسائل اور ڈرونز کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا اور ہر اشتعال انگیزی کا بھرپور اور مؤثر جواب دیا جائے گا۔
پاکستان کی جوابی کارروائی نے یہ واضح کردیا ہے کہ اب ’’ خاموش برداشت‘‘ کا وقت گزر چکا ہے۔ وہ وقت جب پاکستان صرف سفارتی زبان میں بات کرتا تھا اور افغان حکومت کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرتا تھا، اب قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔
دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں پر فضائی اور زمینی کارروائی، یہ واضح اشارہ ہے کہ اب پاکستان دشمن کو اس کی زبان میں جواب دے گا۔ جو دشمن ہماری شہ رگ پر ہاتھ ڈالے گا، اسے بازوؤں سے محروم ہونا پڑے گا۔ یہ صرف دفاع نہیں، بقا کی جنگ ہے۔
یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ افغان فورسز جنھیں برسوں تک بین الاقوامی معاونت، تربیت اور وسائل فراہم کیے گئے، وہ نہ صرف سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں بلکہ خوارج اور دہشت گردوں کی ڈھال بنی ہوئی ہیں۔
پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں موجود متعدد چیک پوسٹیں نہ صرف ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو کور فراہم کر رہی ہیں بلکہ بعض مقامات پر وہ خود براہِ راست پاکستانی علاقوں میں حملوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔
ان چیک پوسٹوں کا خاتمہ خطے کے امن کے لیے ایک ناگزیر عمل ہے۔حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغان وزیر خارجہ اس وقت بھارت کے دورے پر تھے جب افغان سرحدی فورسز کی جانب سے یہ اشتعال انگیزی کی گئی، یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کے سیکیورٹی ادارے طویل عرصے سے اس امر کی نشاندہی کرتے آئے ہیں کہ افغانستان میں موجود بعض عناصر بھارت کے ایما پر پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ فتنہ خوارج اور فتنہ ہندوستان جیسی اصطلاحات اسی پس منظر میں سامنے آئی ہیں۔
ان گروہوں کو افغان حدود میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں اور وہیں سے منصوبہ بندی کرکے پاکستانی علاقوں میں حملے کرتے ہیں۔ رواں برس مئی میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف ’’آپریشن سندور‘‘ کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور امیر خان متقی کے درمیان پہلی بار براہ راست ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا، اس دوران بھارت نے طالبان کی جانب سے پہلگام حملے کی مذمت پر شکریہ ادا کیا اور افغان عوام سے اپنی ’تاریخی‘ دوستی کا اعادہ کیا۔
طالبان حکومت نے کابل میں بھارتی حکام سے ایک ملاقات کے دوران پہلگام میں ہونے والے حملے کی کھل کر مذمت کی تھی، جسے ماہرین بھارت اور طالبان کے درمیان بڑھتی ہم آہنگی کا اہم اشارہ قرار دے رہے ہیں۔
افغانستان اور بھارت کے درمیان قربت پاکستان کے لیے ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہی ہے۔ پاکستان اسے صرف دو ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے اپنی سلامتی، جغرافیائی سیاست اور داخلی استحکام کے لیے ایک ممکنہ خطرہ تصور کرتا ہے۔ یعنی بھارت ایک طرف مشرقی سرحد پر موجود ہے اور اگر وہ مغربی سرحد (افغانستان) میں بھی اثر و رسوخ قائم کرے تو پاکستان کو دو طرفہ دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔
بھارت افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان مخالف عناصر کی پشت پناہی کرتا ہے، خاص طور پر بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں اور تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں کو۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ RAW افغانستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے ایسے گروہوں کو مالی، فنی اور انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کرتا رہا ہے۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو پاکستان نے ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا، جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ بھارت کا حاضر سروس نیوی افسر ہے اور بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اسی طرح، افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں کے بارے میں بھی پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ صرف سفارتی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ انٹیلیجنس سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں، جن کا ہدف پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا تھا۔
سابق افغان حکومت، خاص طور پر اشرف غنی کے دور میں، بھارت سے قریبی تعلقات رکھتی تھی اور افغان انٹیلی جنس ادارہ NDS پر بھی بھارتی اثر و رسوخ کے ثبوت پیش کرتا رہا۔ اس صورت حال میں پاکستان کو یہ خدشہ رہا کہ افغانستان بھارت کے ساتھ مل کر اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔
کیونکہ پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات بھی کشیدہ رہے ہیں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے مسئلے پر، جس سے بھارت کو ایک بار پھر افغانستان میں محدود موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو دوبارہ بڑھائے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان افغانستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی قربت کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان نے بارہا افغانستان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر کے بارے میں معلومات فراہم کیں جو پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں، مگر بدقسمتی سے افغان حکومت کی جانب سے اس پر نہ توکوئی سنجیدہ اقدام اٹھایا گیا اور نہ ہی ایسے عناصر کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کی گئی۔
دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین پر پناہ دینا یا کم از کم ان کے خلاف خاموشی اختیار کرنا، پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک واضح خطرہ ہے جس پر اب مزید خاموشی ممکن نہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان جب ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا، تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔
مخالفت کی بنیاد ڈیورنڈ لائن تھی، وہ تاریخی لکیر جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغان امارت کے درمیان کھینچی گئی اور جو آج بھی پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر ایک سیاسی ارتعاش بن کر موجود ہے۔
پاکستان اسے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں تسلیم شدہ سرحد سمجھتا ہے، جب کہ افغانستان کی بیشتر حکومتیں اور اب طالبان قیادت بھی، اسے ایک استعماری زخم تصورکرتی ہیں۔ پاکستانی مؤقف واضح اور قانونی بنیاد پر قائم ہے۔
اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی ادارے ڈیورنڈ لائن کو ایک جائز سرحد مانتے ہیں، مگر افغانستان کی متعصبانہ اور نفرت پر مبنی سوچ نے ان تعلقات میں بد اعتمادی کا وہ بیج بویا، جو نصف صدی بعد بھی لہلہا رہا ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قوم پرست تحریکوں کی پشت پناہی، سردار داؤد خان کی حکومت کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں کو تربیت دینے جیسے اقدامات، کابل کی مداخلت پسندی کی روشن مثالیں ہیں۔ 1989 تک سوویت یلغار کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، وہ محض اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا مظہر نہیں بلکہ ایک قومی قربانی کا باب ہے۔
تین ملین سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا، ہزاروں مدارس میں تعلیم وقیام، یہ وہ بوجھ ہے جس کی قیمت آج بھی پاکستان چکا رہا ہے۔ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ رہا، بلکہ 80 ہزار سے زائد قربانیاں دے کر، 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان سہہ کر، خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار بنا۔
یہ وہ حقائق ہیں جن پر عالمی برادری اکثر خاموش رہی، اور افغانستان نے مسلسل الزام تراشی کی روش اپنائی۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے بارہا یہ نشاندہی کی ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر گروہ انھی مہاجر کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں۔
تجارتی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان متعدد پیچیدہ مسائل موجود ہیں۔ 2010 میں طے پانے والا افغانستان، پاکستان راہداری تجارت معاہدہ (APTTA) بظاہر دوطرفہ اقتصادی تعاون کا ایک اہم سنگِ میل تھا، جس کے تحت افغان تاجروں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنی اشیاء عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی۔
تاہم، اس جیسے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی، واہگہ کے راستے بھارت تک رسائی کا تنازع، اور سرحدی چوکیوں پرکرپشن اور بدسلوکی کے الزامات،یہ تمام ایسے امور ہیں جن پر افغان فریق پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سے افغان تجارت کو بعض اوقات ایک اسٹرٹیجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جو پاکستان کے قومی سلامتی واقتصادی مفادات سے متصادم ہو سکتا ہے۔
پانی کا تنازع ایک خاموش مگر شدید حساس معاملہ ہے۔ کابل دریا پاکستان کے لیے آبی زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کی جانب سے ڈیم سازی اور پانی کے بہاؤ کو محدود کرنے کی کوششوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا، تو یہ تنازع آیندہ دہائیوں میں ایک نیا سنگین بحران بن سکتا ہے۔
پاکستان دہائیوں سے اس موضوع پر مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہارکیا ہے، مگر قومی سلامتی، ارضی سالمیت اور عوام کے تحفظ پرکوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔
وقت آگیا ہے کہ افغان قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ان عناصر کو لگام دے جو سرحد پارکشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ بصورت دیگر، پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور آیندہ بھی ایسا ہی مؤثر جواب دیا جائے گا جیسا کہ حالیہ کارروائی میں دیا گیا۔