پاکستان کو نسلی تعصب ڈوبو رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251015-03-4
حبیب الرحمن
پاکستان کی تاریخ پر اگر غور کیا جائے تو یہ ’’دو نظریات‘‘ کی بنیاد پر بنا تھا لیکن اس کے مسلسل انحطاط کی وجہ نہ صرف اللہ سے کیے گئے وعدے سے انحراف ہے بلکہ سخت نسلی تعصب بھی ہے۔ برِصغیر میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے سامنے جو وعدہ کیا تھا وہ یہی تھا ہم ایک ایسا خطہ زمین چاہتے ہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول کے دین کو نافذ کریں گے، لیکن پاکستان بن جانے کے بعد ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم وقت میں اس عہد سے انکار کر تے ہوئے پورے ملک میں اسی فرنگی نظام کو رائج کر دیا گیا تھا جس سے نجات کے لیے کم از کم ڈھائی سو برس سے مسلمانانِ ہند قربانیاں پیش کرتے آئے تھے اور 1940 کے بعد سے تو ان قربانیوں میں اتنا اضافہ ہو گیا تھا کہ 20 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہادتیں پیش کرنا پڑیں۔ جو عزتیں لٹیں، جائدادیں چھینی گئیں اور مالی نقصان ہوا اس کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان بن جانے کے اگلے ہی لمحے نسلی اور لسانی تعصبات نے جنم لینا شروع کر دیا تھا۔ پاکستان کی ساری مقتدر ہستیاں بجائے یہاں اپنے کیے گئے عہد پر قائم رہتیں، اپنے اپنے اندازِ فکر کو رائج کرنے میں لگ گئیں۔ سب سے پہلے تو اپنے کافرانہ نظریات کو پاکستان میں مروج کرنے کے لیے اپنی راہ سے ان ہستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا شروع کر دیا جن سے اس بات کا خطرہ تھا کہ وہ نظامِ کفر کی راہ میں ان کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
قائد ِ اعظم کی ہدایات کو سرے سے نہیں ماننا اور لیاقت علی خان کو بھرے جلسے میں گولی کا نشانہ بنانا اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے بجائے بکنگھم پیلس بنایا جائے گا۔ ان ہستیوں کے راستوں سے ہٹانے اور ایوب خان کے ماشل لا نافذ کرنے کے بعد اگر ان کی نظروں میں کوئی اور ہستی بڑی رکاوٹ ہو سکتی تھی تو وہ محترمہ فاطمہ جناح ہو سکتی تھیں۔ چنانچہ ایوب خان نے ان کو پاکستان کا غدار اور انڈین ایجنٹ کے نام سے اتنا مشہور کیا کہ پاکستان کے اس وقت کے دوسرے اور اِس وقت کے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں کتیوں کے گلوں میں فاطمہ جناح کے نام کی تختیاں تک لٹکوائی گئیں۔ مادر ملت یا قائد کی بہن کا احترام نہ بھی کیا جاتا تو شاید کتیوں کے گلوں میں ’’فاطمہ‘‘ نام کی تختیاں لٹکانا اتنا مکروہ فعل نہ ہوتا جتنا اْس ہستی کے نام کی تذلیل تھی جو آپؐ کی صاحب زادی کے نام کی ہوئی۔ یہ تھا اس نسلی تعصب کا آغاز جو پورے پاکستان میں اسلام کو نظریہ اسلام کو پس ِ پشت ڈال کر یہاں علاقائیت اور لسانیت کے زہر کو پھیلایا گیا۔
کراچی پر پاکستان کے ایک شمالی صوبے کے لوگوں سے باقائدہ حملے کرائے گئے اور وہ لوگ جن کی قربانیوں سے اس ملک نے جنم لیا تھا ان کو غداروں کی فہرست میں ڈال دیا گیا جس میں خود قائد ِ اعظم کی بہن کو سر فہرست رکھا گیا۔ نسلی، لسانی اور علاقائیت کا یہ سلسلہ رکا نہیں۔ پاکستان کی شمالی سرحدوں کی مستقل سرحدیں نہ بنانا اور کشمیر کی سرحد کو کنٹرول لائین کا نام دینا اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں آباد پختونوں اور بھارت کے کشمیریوں کو تو اپنا سمجھا جائے لیکن کھوکھراپار کا راستہ بند کرکے ہندوستان اور پاکستان میں مقیم خونی رشتوں کو غدار تصور کیا جائے، نسلی عصبیت نہیں ہے تو کیا ہے۔ سب سے پہلے بنگالی مسلمانوں کے خلاف طاقت کو استعمال کرکے اور سیاسی اور سماجی حقوق سے محروم کر کے ذہنی طور پر ان کو پاکستان کے خلاف بنا گیا اور پھر ان کو راہ راست پر لانے کے لیے گولی و گولہ بارود کے زور پر اپنا بنانے کی کوشش آخر کار ان کو پاکستان ہی سے دور لے گئی۔ ان سب کے باوجود تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے بجائے پاکستان میں سندھی و مہاجر فسادات کو حکومتی سطح پر ابھارا گیا جس کا سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ جنوبی وزیرستان کے آپریشنوں اور افغانستان کے خراب حالات کی وجہ سے جو گروہ بھی پاکستان میں داخل ہوئے ان کو کراچی کے چپے چپے پر لا کر بے ہنگم انداز میں بسا یا گیا اور شہر کا حلیہ بری طرح بگاڑا گیا۔ اْس وقت یہاں ایم کیو ایم کا توتی بولتا تھا، انہوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ جو بھی یہاں آ رہے ہیں ہم صرف ان کو رجسٹرڈ کرنا چاہتے ہیں، تاکہ حساب رکھا جا سکے کہ یہاں کون کون اور کتنی تعداد میں آئے ہیں تو پورے پاکستان نے اس کو لسانیت کا رنگ دے کر سارے جنوبی وزیرستانیوں اور افغانیوں کو ایم کیو ایم کا نام دے کر اہل کراچی کا دشمن بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
نسلی تعصب کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ پاکستان کے آئین میں وہ شق قانون کا حصہ بنادی گئی جس کی وجہ سے کراچی و حیدرآباد کے لوگ تیسرے کیا، دسویں درجے کے شہری بھی نہیں گنے جاتے جس کو کوٹا سسٹم کے نام سے تاریخ ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھے گی۔
اب صرف پوچھنا یہ ہے کہ جن کی وفاداریاں آپ کے نزدیک قرآن و حدیث سے بڑھ کر تھیں، وہ پاکستان کے غداروں سے بھی زیادہ بڑھ کر غداری پر اترے ہوئے ہیں یا کھوکھراپار کی طرف سے پاکستان میں داخل ہونے والے۔ جب تک نسلی تعصب کا سلسلہ بند نہیں ہوگا اور اصل پاکستانیوں کے ساتھ متعصبانہ اور منفی رویہ ختم نہیں کیا جائے گا، اس وقت پاکستان کا پاکستان بننا، ایک رہنا اور اسلام کا قلعہ بننا ایک خواب کے سوا اور کچھ نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان میں کو پاکستان کہ پاکستان پاکستان کے نسلی تعصب نام کی کے لیے تھا کہ کے نام
پڑھیں:
سندھ حکومت کا خصوصی افراد کیلیے خصوصی شہرتعمیر کرنیکا منصوبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیر محنت و افرادی قوت سندھ و سماجی تحفظ سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو صحت، تعلیم اور روزگار فراہم کرے اور خصوصی افراد کے لئے ان سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری اس سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ خصوصی افراد کے لئے پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں ایسا شہر نہیں ہوگا جو سندھ حکومت شارع بھٹو کے ساتھ 80 ایکڑ پر بنانے جارہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹرز اپنا کاروبار کرنے آتے ہیں اس لئے ہم ان پر یہ دبائو تو نہیں ڈال سکتے کہ وہ خصوصی افراد کا اپنے کاروبار بھی سرکاری طرح کا کوئی مختص کریں لیکن خصوصی افراد اپنے اندر اتنی صلاحیت پیدا کریں کہ پرائیویٹ سیکٹرز خود ان کو ملازمتیں دینے پر مجبور ہوجائیں۔ سندھ حکومت خصوصی افراد کے لئے جو کچھ بھی کررہی ہے وہ پیپلز پارٹی کے منشور، چیئرمین بلاول بھٹو، آصف علی زرداری اور وزیر اعلٰی سندھ کے وڑن کے تحت کررہی ہے اور یہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز “پاکستان ایسوسی ایشن آف بلائینڈ (سندھ) کے تحت بصارت سے محروم افراد کے عالمی دن کے موقع پر “سفید چھری کی حفاظت” کی مناسبت سے مقامی ہوٹل میں منعقدہ بصارت سے محروم افراد میں معاون آلات کی تقسیم کی تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے ایسوسی ایشن کے صدر مظفر علی قریشی، عبدالجبار میرانی، فرمان احمد، عمران شیخ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر نے ایسوسی ایشن کے صوبے بھر کے 19 سینٹرز میںبصارت سے محروم افراد میں معاون آلات کی تقسیم کئے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ مجھے ذاتی طور پر اس طرح کی تقریبات میں شرکت کرکے دلی خوشی ہوتی ہے جہاں معاشرے کے خصوصی افراد شریک ہوتے ہیں جو عام انسان کی نسبت اللہ تعالٰی کی مصلحت پر کسی نہ کسی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کے خصوصی افراد جو عام افراد کی نسبت کسی کمی کا شکار ہوتے ہیں اللہ تعالٰی نے ان میں کوئی ایک ایسی صلاحیت ضرور رکھی ہوتی ہے، جو عام افراد میں نہیں ہوتی۔ سعید غنی نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو صحت، تعلیم اور روزگار فراہم کرے اور خصوصی افراد کے لئے ان سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری اس سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ خصوصی افراد کے لئے پاکستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں ایسا شہر نہیں ہوگا جو سندھ حکومت شارع بھٹو کے ساتھ 80 ایکڑ پر بنانے جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی افراد اپنے اندر چھپی صلاحیت کو اجاگر کریں اور اس کے لیے سندھ حکومت ان کے ساتھ بھرپور تعاون کر بھی رہی ہے اور مزید اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ صائمہ سلیم نامی ایک خاتون اس وقت یونائیٹد نیشن میں پاکستان کی نمائندگی کررہی ہے اور وہ دیکھنے سے قاصر ہے یعنی وہ نابینا ہے اور صائمہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستان کا نام آج بھی فخر سے بلند کئے ہوئے ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان ایسوسی ایشن آف بلائنڈ سندھ مظفر علی قریشی نے کہا کہ جس طرح سندھ حکومت اور محکمہ انوائرمنٹ اس ادارے کے حوالے سے جو ساتھ دے رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے اور آج اس عالمی دن کی مناسبت سے صوبے بھر میں ایسوسی ایشن کی تمام برانچز میں ہم بصارت سے محروم افراد میں آلات کی تقسیم بھی سندھ حکومت کی مدد سے ہی کررہے ہیں اور امید ہے کہ آئندہ بھی سندھ حکومت ہماری معاونت کرتی رہے گی۔