پاک افغان تعلقات اور موجودہ صورتحال
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251014-03-5
ریحان انصاری
حقائق وہ نہیں جیسا کہ بیان کیے جا رہے ہیں کہ: طالبان کو امریکا نے بنایا، ملا عمر، مولانا حقانی وغیرہ امریکی ایجنٹ نہیں تھے۔ گلبدین حکمت یار کی جن لوگوں سے جنگ تھی استاد ربانی، احمد شاہ مسعود اور جنرل عبدالرشید دوستم کمانڈر اسماعیل خان اور اس وقت کی شیعہ نواز حزب و وحدت اور چند چھوٹے گروپس، یہ جنگ طالبان نے بھی ان لوگوں سے جاری رکھی۔ حکمت یار جو افغانستان میں روس کے انخلا کے بعد مجاہدین کے علاوہ اپنی ایک ریگولر آرمی لشکر ایثار کے نام سے تشکیل دے چکے تھے ان کے لیے طالبان سے جنگ بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا اس کے نتیجے میں افغانستان میں خونریزی اور بڑھتی اس لیے طالبان اور حکمت یار کی کبھی جنگ نہیں ہوئی۔ طالبان جب حکمت یار کے علاقوں میں داخل ہوتے تو کمانڈروں کو حکم ملتا علاقے خالی کر دو اور طالبان کے حوالے کر دو کیونکہ حکمت یار جیسے مخلص دیندار آدمی کو ذاتی اقتدار کے لیے یا مفادات کے لیے یہ جنگ منظور نہیں تھی۔ بعد میں جنگ سے بچنے کے لیے ایران چلے گئے جبکہ حکمت یار افغانستان میں پاکستان کا نمائندہ تھا مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اور امریکا کو وہاں حکمت یار کی موجودگی برداشت نہیں تھی۔ اس کی بڑی وجہ امریکا کے لیے یہ تھی کہ حکمت یار کی وہاں موجودگی سے وسط ایشیا کی ریاستیں، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک خطے کی ایک بڑی طاقت بن سکتے تھے اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اس لیے گوارا نہیں تھی کہ قبائلی علاقوں اور کے پی کے میں خصوصاً اور باقی پاکستان میں عموماً جماعت اسلامی کا اثر رسوخ بہت بڑھ جاتا۔ اس لیے خانہ جنگی سے تنگ اچانک سے اٹھنے والے طالبان کو اسٹیبلشمنٹ اور امریکا نے اپنے مفاد کے لیے سپورٹ کیا۔
بد قسمتی سے افغان امور کے ماہرین کی جگہ وزارت خارجہ اور دیگر جگہوں پر وہ لوگ آگئے جو ان امور سے نابلد تھے اور دانستہ اور نادانستہ طور پر امریکا کے لیے استعمال ہوتے رہے اور صبغت اللہ مجددی کو افغانستان کا صدر بنوا دیا جن کا جہاد میں کوئی حصہ نہ تھا، بعد میں استاد ربانی صدر اور کمانڈر احمد شاہ مسعود وزیر دفاع مقرر ہوئے یہ دونوں ماضی میں حکمت یار کے ہی کمانڈر تھے۔ حکمت یار چونکہ پشتون تھے اس لیے ان کو کابل میں داخل نہیں ہونے دیا وزیراعظم ہوتے ہوئے اور کٹھ پتلی صدر نجیب اللہ کے ازبک کمانڈر عبدالرشید دوستم کے ساتھ مل کر کابل کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا سارا تماشا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ دیکھ رہی تھی اور بعد میں طالبان نے یہ سارے علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیے اور نجیب اللہ کو پھانسی دے دی۔
امریکا کے آنے تک طالبان کی احمد شاہ مسعود استاد ربانی کمانڈر اسماعیل خان عبدالرشید دوستم اور دیگر شمالی علاقوں کے لوگوں سے جنگ جاری رہی اور احمد شاہ مسعود بھی ہلاک ہو گئے۔ جب تک طالبان رہے ہندوستان کو یہ خطرہ رہا کہ پاکستان کے پاس طالبان کی اور مجاہدین کی صورت میں پانچ سے 10 لاکھ بغیر تنخواہ کی فوج ہے طالبان کے دور حکومت میں 2600 کلومیٹر کے بارڈر پر بہت کم فوج لگی ہوئی تھی کیونکہ وہاں سے حملہ کا کوئی خطرہ نہیں تھا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جگہ جگہ افغان اور عرب مجاہدین نظر آتے تھے اور امن و سکون سے یہاں رہتے تھے۔ پاکستان میں یہ تاثر تھا کہ جلد ہی کشمیر آزاد ہو جائے گا مگر 9/11 ہو گیا امریکا کی آمد ہو گئی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکا کے سامنے سجدہ ریز ہو گئی۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے رکھے جانے والے 10 کے 10 مطالبات جنرل پرویز مشرف نے سینئر فوجی قیادت کی مخالفت کے باوجود منظور کر لیے اور ڈپٹی آرمی چیف جنرل مظفر حسین عثمانی اور آئی ایس آئی چیف جنرل محمود حسین اور کو ریٹائرڈ کر کے باقی بھی کچھ جنرلز کو غیر اعلانیہ وارننگ دے دی کہ ان کا انجام یاد رکھو پاکستان کی فضائی حدود، ائر بیسز اور سامان کی ترسیل بغیر کسٹم ڈیوٹی بغیر کسی راہداری فیس اور بغیر کسی چیکنگ کے امریکا کو دے دی۔ سب کو معلوم ہے کہ 67 ہزار کنٹینر غائب ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے جو کبھی افغانستان نہیں پہنچے لیکن ہماری پورٹ پر اترے واجد شمس الحسن اور حسین حقانی جیسے لوگ وزارت خارجہ میں بیٹھے ہوئے پاکستان سے تنخواہ اور مراعات لے کر امریکا کی خدمت میں مصروف تھے اور امریکیوں کی جانب سے بلیک واٹر اور دیگر سی آئی اے کے عہدے داروں اور ایجنٹوں کو دھڑا دھڑ ویزے جاری کر رہے تھے۔
نئی نسل کے لیے بتا دوں کہ افغانستان میں صرف دو ہی پارٹیاں تھیں اور دونوں ہی کمیونسٹ تھیں پرچم پارٹی اور خلق پارٹی۔ ظاہر شاہ کے بعد سردار داؤد کے بعد ترہ گئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل کے بعد نجیب اللہ یہ سارے پاکستان مخالف حکمران تھے پہلی مرتبہ طالبان کے آنے کے بعد کابل میں ایک پاکستان دوست حکومت قائم ہوئی جہاں 2600 کلومیٹر سرحدوں پر ایک ڈویژن سے بھی کم فوج تعینات تھی۔ کے پی کے، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کوئی دہشت گردی نہیں تھی حکومت پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف انٹیلی جنس معلومات، ڈرون حملوں کی اجازت، ائر بیس دیے اور ان کے سفیر سمیت دیگر حریت پسندوں کو ان کے حوالے کرنا شروع کر دیا اور دوستوں کی حکومت ختم کرا کے حامد کرزئی اور اشرف غنی کو لا کر بٹھا دیا جو روز پاکستان کے خلاف بات کرتے تھے اور ہر بات کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتے تھے۔ جنہوں نے کابل اور پورے افغانستان میں انڈینز کو لا کر بٹھا دیا اور بلوچستان قبائلی علاقوں اور کے پی کے میں ایک نہ ختم ہونے والی دہشت گردی شروع کرا دی اس کے برعکس ایران اس جنگ سے غیر جانبدار رہا اور اپنے لوگوں (حزب و وحدت کی باقیات شمالی اتحاد کمانڈر اسماعیل خان وغیرہ کابل کے قریب آباد ہزارہ قبائل کی) کی حمایت کرتا رہا۔
طالبان حکومت کو سب سے پہلے پاکستان اور اس کے بعد سعودی عرب نے تسلیم کیا اورکچھ اسلامی اور غیر اسلامی ممالک نے تسلیم کیا لیکن امریکا کے جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا برطانیہ اور پورے یورپ کو شکست دے کر بھگانے والے طالبان کے ساتھ ماضی کی غلطیوں پر معافی تلافی کی جاتی اور ان کی سرپرستی اور تباہ شدہ افغانستان کی تعمیر و نو میں ہر قسم کی اخلاقی اور مالی وہ تکنیکی مدد کی جاتی، مولانا حامد الحق وہ دیگر علماء کے ذریعے تعلقات کو مضبوط کیا جاتا جو ان پر بہت اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ بے رخی برت کر معاملات کو خراب ہونے دیا گیا ان سے بات جیت کی جاتی تو کوئی مسئلہ ایسا نہیں تھا جو حل نہ ہو سکے۔ دونوں برادر ملکوں کے درمیان مگر امریکا و دیگر کی ناراضی سے ڈر کے سے کہ جنہوں نے امریکا اور مغرب کی پٹائی کی اور شکست دی آپ ان سے تعلقات استوار کر رہے ہیں اسی سبب ان کی درآمد بند کر دی گئیں جو پاکستانی پانیوں سے آتی تھی اور گندم سیمنٹ وغیرہ کی برامدات بھی روک دی گئیں باڑ لگانے کا کام تو پہلے ہی ہو چکا تھا۔ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ طالبان 100 فی صد درست ہیں بلکہ ان سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں اگر اسٹیبلشمنٹ ان کو تنہا نہیں چھوڑتی اور ان سے مستقل رابطے میں رہتی جیسے ایران اور چائنا وہاں معاہدے کر رہے تھے اور ان کی مدد کر رہے تھے اگر آپ بھی کرتے تو وہ انڈینز کے قریب کبھی بھی نہیں جاتے۔
اسٹیبلشمنٹ نے ان کو دھکیلا ہے ماضی میں انڈین دفاعی تجزیہ نگار ٹو فرنٹ وار کی بات کرتے تھے کہ اگر پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان ساتھ ہوگا اور دوسری طرف چائنا ہوگا اب انڈینز تھری فرنٹ وار کی بات کرتے ہیں کہ اگر جنگ ہوئی تو پاکستان کے علاوہ چائنا اور بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے اثر رسوخ کے بعد تیسرا فرنٹ بنگلا دیش ہوگا اور پاکستان میں دفاعی تجزیہ نگار اب ٹو فرنٹ وار کی بات کر رہے ہیں کہ ایک طرف بھارت ہوگا دوسری طرف افغانستان ہوگا جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ابھی میں معاملات کو جنگ کے بجائے ڈپلومیسی اور دینی جماعتوں کو باقاعدہ ایک رول دے کر ساتھ ملایا جائے تو یقینا انڈیا میں اب فور فرنٹ وار کی باتیں شروع ہو جائیں گی اور ہر جگہ سے اینڈینز کو مار پڑے گی۔
جماعت اسلامی اور دیگر علماء سے رابطہ کر کے با اختیار وفد کی تشکیل کی جائے تاکہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں اور کے پی کے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور افغانستان کو فوری طور پر تسلیم کیا جائے اور ماضی کی طرح افغانستان کو چھوٹے بھائی جیسا سمجھا جائے دشمن نہ سمجھا جائے۔ اس کی سرحدوں کو تاراج نہ کیا جائے تو طالبان ماضی کی طرح پاکستان کو بڑا بھائی سمجھیں گے اور اس بے چینی کا خاتمہ ہوگا۔ ہمارا سب سے بڑا 2600 کلومیٹر کا بارڈر بغیر گولی چلائے ڈپلومیسی کے ذریعے محفوظ ہو جائے گا۔ چائنا کی یہی پالیسی ہے جو بڑی کامیاب ہے وہ دشمن نہیں دوست بناتا ہے ہمارے اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا پڑے گا کہ افغانستان کو دوست اور بھائی بنانے کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ خوف نکالنا پڑے گا کہ اچھے تعلقات کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور دینی جماعتیں پاکستان میں مزید مضبوط ہو جائیں گی اور اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کو مرحلہ وار سیاست دانوں کو اختیارات سونپ دینے چاہیے اور ملکی وبین الاقوامی تعلقات اپنے منظور نظر سیاست دانوں کے بجائے عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے حوالے کر دینے چاہییں اور مرحلہ وار امریکی ومغربی اثر رسوخ سے نکل کر زمینی حقائق یعنی طالبان ایک حقیقت ہے ان سے بامعنی مذاکرات کا فوری آغاز شروع کیا جائے۔ امیر خان متقی کا دورہ ہونے والا ہے اس دورے کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور پاکستان دوست اور افغان دوست پالیسی پر عمل درامد کیا جائے، ہمارے دفتر کے بابو تو بیڑا غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
میری ان تمام دوستوں سے گزارش ہے جو افغانستان اور طالبان کو اسرائیل یا بھارت ثابت کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کی جنگ جس میں فائدہ صرف ڈیپ اسٹیٹ اور دجالی قوتوں کا ہوگا جو پاکستان کو بیرونی حملے کے ذریعے کو تباہ نہیں کر سکتے اس لیے ایران عراق جنگ اور شام لیبیا سوڈان اور افریقا کی طرح اندرونی جنگوں میں پھنسا کر کمزور اور ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جنگ آخری آپشن ہے، پہلا آپشن مذاکرات اور بات چیت کا فوری آغاز کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں جماعت اسلامی سمیت دیگر علماء کو بھی ساتھ مذاکرات میں شامل رکھنا چاہیے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قبائلی علاقوں اور فرنٹ وار کی بات احمد شاہ مسعود افغانستان میں جماعت اسلامی پاکستان میں اور پاکستان حکمت یار کی پاکستان کے امریکا کے طالبان کے اور دیگر نہیں تھی کیا جائے کے پی کے رہے ہیں تھے اور کے لیے اور ان اس لیے کے بعد اور اس کر رہے ہیں کہ بات کر
پڑھیں:
گریٹ گیم میں پھنسے پاکستان اور افغانستان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251014-03-6
عارف بہار
پچھلے چند برس سے پاک افغان جنگ کے سروں پر منڈلاتے بادلوں نے اب برسنا شروع کر دیا ہے۔ ابھی چھاجوں مینہ برسنے والا مرحلہ تو نہیں آیا مگر ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ کشیدگی کا یہ دور اس وقت شروع ہوا ہے کہ جب افغانستان کے لیے پاکستان کی روایتی دفاعی پالیسی اسٹرٹیجک ڈیپتھ (تزویراتی گہرائی) کو عملی شکل مل چکی ہے اور پاکستان کی بوئی ہوئی اور خون جگر سے سینچی گئی فصل طالبان کی صورت میں برسرا قتدار آچکی ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ یہ افغانستان میں پاکستان کا آخری اثاثہ ہے۔ اس اثاثے کی خاطر ماضی کے کئی اثاثوں برہان الدین ربانی، گل بدین حکمت یار اور نجانے کس کس کو قربان کیا گیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ان اثاثوں کو کابل کے اقتدار میں لانے کے لیے امریکا کی طرف سے ڈبل گیم کا الزام بھی سہنا پڑا اور مغربی میڈیا اور ملکوں میں دہشت گردی برآمد کرنے والے ملک کے الزام میں نیک نامی کی قربانی بھی دینا پڑی۔ یہ پاکستان کے شہروں میں پیدا ہونے والے بچے ہیں اگر ان کی پیدائش افغانستان کی بھی ہے تو تب بھی زندگی کی تیس چالیس بہاریں پاکستانی فضاؤں میں گزار چکے ہیں۔ ان میں اکثر پاکستان کے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ اسی لیے ان میں اکثر اْردو اتنی روانی سے بولتے ہیں کہ اپنا مافی الضمیر آسانی سے بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک اب بھارت میں بھی انہیں زبان کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا اور افغان اہلکار بھارتی میڈیا اور عوام کا سامنا آسانی سے کرتے ہیں جیسا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ بھارت میں ہوا۔ وہ دارالعلوم دیوبند سمیت پریس کانفرنسوں میں روانی سے اْردو بولتے ہوئے نظر آئے۔
طالبان کا کابل میں داخل ہونا پاکستان کی اس تزویراتی گہرائی کی تکمیل تھی جس کا خواب پاکستانی جرنیلوں نے ستر اور اسی کی دہائیوں میں دیکھا تھا۔ جس کا خواب جنرل ضیاء الحق اپنی تقریروں میں دکھاتے رہے۔ جنرل اسلم بیگ اپنی تحریروں میں اس نئے جہان کی منظر کشی کرتے رہے اور جنرل حمید گل اپنے انٹرویوز میں مستقبل کے کینوس پر جس کے رنگ بکھیرتے رہے۔ جس کا خلاصہ یوں تھا کہ جب مجاہدین کی حکومت کابل میں قائم ہوگی پہلے سوویت یونین اور بعدازاں امریکا خطے سے بھاگ جائے تو پاکستان اپنی مغربی سرحد کے دفاع سے غافل ہوجائے گا۔ یوں اس کو اپنی پوری فوجی توجہ مشرقی سرحد پر مرکوز کرنا ہوگی۔ مغربی سرحد پر ایک پاکستان دوست حکومت ضرورت پڑنے پر مغربی سرحد پر بھارت کو سبق سکھانے میں بھی پاکستان کی معاونت کرے گی اگر عملی معاونت نہ بھی کرے تب بھی پاکستان کے لیے ڈیورنڈ لائن کو ٹھنڈا رکھ کر پاکستان کو یکسوئی کے ساتھ مشرقی سرحد پر لڑنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اسی تصور کو جنرل ضیاء الحق کے دورمیں ’’پاکستان سے باہر پاکستان کا دفاع‘‘ کا ذیلی عنوان دیا گیا تھا۔ اس تصور نے سقوط ڈھاکا کے نفسیاتی اثرات سے جنم لیا تھا۔ یہ وہ سبق ہے جو افغانستان کے بارے میں مدتوں تک پڑھایا جاتا رہا اور پاکستان کا عام آدمی اس تصور تی منظر کشی کے سحر میں گم رہا۔ کابل پر دوسری بار طالبان کا کنٹرول ہوگیا۔ سوویت یونین کے بعد امریکا بھی رخصت ہوگیا تو اب اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے تصور کی تکمیل کے بعد اس کے عملی مظاہرے ہونے کا وقت تھا۔ ہوا یوں کہ اس مرحلے پر پاکستان اور افغانستان کے راہیں جدا ہوگئیں۔ افغانیوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ جس امریکا کو انہوں نے سولہ سال لڑ کر نکال باہر کیا ہے دوبارہ اسی کی شرائط پر کسی دوسرے انداز میں واپس قبول کریں۔
امریکا نے افغانستان سے نکلتے ہی پاکستان کی جانب دانہ ٔ دام اْچھالنا شروع کیا۔ ظاہر ہے کہ امریکا کو خطے میں چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم لاکھ چین اور امریکا کے درمیان پل بننے اور کام بانٹنے کی بات کریں گوادر کے پہلو میں پسنی کی بندرگاہ کا خاکہ بنا کر دونوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں، امریکا چین کو اپنا کھلا دشمن قرار دے بیٹھا ہے۔ ہماری اتنی سکت نہیں کہ امریکا کا تصورِ دشمن تبدیل کراسکیں یا چین کو امریکا کی بالادستی ماننے پر آمادہ کر سکیں۔ یہ تو بڑی طاقتوں کے بڑے کھیل ہیں جن میں پاکستان جیسے ممالک جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں یا ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ وہ متحارب طاقتوں کے کراس فائر میں پھنس کر نہ رہ جائیں۔ امریکا پہلی بار افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور القاعدہ کے نام پر آیا تھا حقیقت میں یہ بھی چین کو محدود کرنے، پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نظر رکھنے اور معدنی وسائل کا چکر تھا۔ اس بار صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت میں سی آئی اے کے عزائم کو کھل کر بیان کر رہے ہیں انہوں نے چین پر نظر رکھنے کے لیے بگرام ائربیس حاصل کرنے کی بات کر کے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ اس لیے امریکا کے نئے اور اگلے ایجنڈے کا بوجھ اْٹھانا پاکستان کے بس میں نہیں۔ یہ ایک خطرناک اور پل ِ صراط کا سفر ہے۔ امریکا بگرام ائربیس ایران کے تاجکستان ترکمانستان یا واخان کے ذریعے تو حاصل نہیں کر سکتا۔ لے دے کر اس خواہش کا بوجھ پاکستان کے ناتواں کندھوں پر ہی لادا جانا ہے۔
چین اور امریکا کے افغانستان میں مفادات قطعی مختلف ہیں۔ چین کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے امن درکار ہے جبکہ امریکا کو واپس آنے کے لیے جنگ کا ماحول سازگار ہے۔ ماسکو فورم کا حالیہ اجلاس کا ثبوت ہے جس میں روس، پاکستان، بھارت، چین اور طالبان نے بگرام ائر بیس پر امریکی افواج کی واپسی کی مخالفت کی۔ ایران بھی اس کا ہم آواز ہے۔ امریکا کا بگرام میں واپسی پر اصرار علاقائی قوتوں کو ٹھنڈے پیٹوں تو ہضم نہیں ہوگا جبکہ اس بار امریکا واضح طور پر چین کے ایٹمی ہتھیاروں پر نظر رکھنے کے عزم وارادے کے ساتھ لوٹ آنے کا خواہش مند ہے۔ عالمی طاقتوں کے خطے میں یہی متضاد مقاصد افغانستان کے ہمسائے کے طور پر پاکستان کی مشکل بن چکے ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان محض ہمسایہ نہیں اس کے سماجی تانے بانے سوشل فیبرک کا حصہ ہے جو ایک اور مشکل ہے۔ پاکستان مصر کی طرح یکسانیت اور یک رنگی کا حامل نہیں۔ اسی لیے مصر کے فارمولے میں اس میں نہیں چل سکتے۔ اس لیے یہاں آمریت کی جڑیں مضبوط ہوتے ہی بحالی ٔ جمہوریت کی خواہش انگڑائیاں لیتی ہے۔ طالبان اپنی حکومت کو امارت اسلامیہ کہتے ہیں۔ اپنی حد تک اپنے نظام کا نام ان کو مبارک ہو مگر وہ اپنا نظام برآمد نہیں کر سکتے۔ پاکستان ایک جدید قومی ریاست ہے جو کئی متنوع علاقائی اکائیوں کا مرکب اور مجموعہ ہے۔ پشتون، تاجک، ازبک اور ہزارہ آبادیوں پر مشتمل خود افغانستان کی آبادیاتی ہیئت ترکیبی یہی ہے جب طالبان اس پر یک رنگی نافذ کرتے ہیں تو جلد یا بدیر ردعمل ظاہر ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پہلے افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو پاکستان کے قومی مفاد میں قرار دیا جاتا تھا اب یہ تصور یوں بدل گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کو پاکستان کے سماجی تانے بانے کی آبادیاتی اور ثقافتی کا توازن خراب ہونے کے خوف کے طور پر محسوس کیا جانے لگا ہے۔ خواجہ آصف سمیت پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی حکومتی راہنماؤں کی باتوں میں یہی خوف جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔