Express News:
2025-10-14@00:07:27 GMT

غزہ کا رنگ تاحدِ نگاہ مٹیالا ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT

قاسم ولید ڈاکٹر ہیں اور غزہ میں ہی دو برس سے دربدر ہیں۔قاسم نے چند دن پہلے ان دو برسوں کا احوال یوں تصویر کیا۔

’’ جب اسرائیل نے سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے حملے کا بدلہ لینے کی کارروائی شروع کی تو ہم جانتے تھے کہ یہ وقت گذشتہ تمام ادوار سے زیادہ کڑا ہوگا۔مگر کسی کے تصور میں نہیں تھا کہ یہ دو برس پر محیط ہو جائے گا اور دنیا اسے ٹالنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرے گی۔

 غزہ پر دو ہزار چودہ کا اسرائیلی حملہ اکیاون دن جاری رہا۔تب لگتا تھا کہ یہ اکیاون دن نہیں اکیاون برس ہیں۔مگر پچھلے دو برس سے جو ہورہا ہے اس کے آگے تو دو ہزار چودہ کی کارروائی محض پلک جھپکنے کے برابر مدت لگتی ہے۔

شروع کے دنوں میں مجھے محسوس ہوتا تھا کہ نسل کشی کی خون آشام پیاس ال اہلی اسپتال پر ہونے والے اسرائیلی میزائل حملے میں سیکڑوں لوگوں کی ہلاکت سے شائد بجھ جائے ، یا پھر غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کو کھنڈر بنانے کے بعد معاملہ تھم جائے ، یا پورے رفاہ شہر کو ملبے میں بدل کے کچھ تسلی ہو جائے ، یا پھر شمالی غزہ کو ملیامیٹ کرنے سے اسرائیلی انتقام کی حسرت کو قرار آ جائے۔

مگر اس سال جنوری میں ہونے والی عارضی جنگ بندی بھی سراب نکلی۔یہ جنگ بندی اسرائیل کی جانب سے یکطرفہ طور پر توڑے جانے کے بعد غذائی ناکہ بندی ، فاقوں سے موت اور نسل کشی کا اگلا باب کھل گیا تو یوں لگا کہ رواں برس کے مقابلے میں گذرا سال قدرے غنیمت تھا۔گذشتہ برس سات اکتوبر کی پہلی برسی کے موقع پر میں خان یونس میں پناہ گیر تھا کہ اچانک المواسی کی ’’ محفوظ پٹی ‘‘ کی جانب ایک اور ہجرت کا فوجی فرمان جاری ہو گیا اور ہزاروں لوگ ایک بار پھر اٹھ کے چل پڑے۔

ہم آج بھی ایک اور جنگ بندی کے بعد المواسی کے ایک خیمے میں بھوک کات رہے ہیں۔پچھلے آٹھ ماہ میں صرف موت اور تباہی کے پنجے ہی دراز نہیں ہوئے بلکہ اسرائیل نے نت نئے انہونے پھندے اور جال ہمارے سامنے بچھا دیے تاکہ ہم اپنی پسند کی موت کا آزادی و آسانی سے انتخاب کر سکیں۔

دو مارچ کو جب اسرائیل نے ہم پر دانہ پانی مکمل بند کر دیا اور ساتھ ہی بھوکے لوگوں پر مسلسل بم برسنے لگے تو ہم نے سوچا کہ شائد یہ ابلیسیت کی آخری حد ہے۔مگر ہم غلط تھے۔غذائی ناکہ بندی تو محض ایک نئے کھیل کا آغاز تھا۔

یہ کھیل مئی میں غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے اسٹیج پر شروع ہوا۔جہاں خوراک دینے کے نام پر فلمی کے بجائے اصلی ’’ ہنگر گیم ‘‘ کھیلی گئی۔شکاری شکار کی جانب خوراک کے چند ڈبے پھینکتے تھے۔چھینا جھپٹی سے محظوظ ہوتے تھے اور جب اکتانے لگتے تو چن چن کے نشانے باندھتے اور شکار کے ٹھنڈا ہونے تک اس کے تڑپنے سے لطف کشید کرتے۔

جب بھوک سے بڑی تعداد میں بچوں کے مرنے کی خبر دنیا میں پھیلنے لگی تو اسرائیلیوں نے ایک اور گیم شروع کر دی۔غذائی امداد سے بھرے کمرشل ٹرک غزہ میں داخل ہونے دیے گئے۔ان پر لدے پھلوں اور سبزیوں کی نمائش کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ غزہ میں بھک مری محض اسرائیل دشمن پروپیگنڈہ ہے۔مگر ان اشیا کی قیمتیں اس قدر زیادہ تھیں کہ پتھرائی آنکھوں والے بچے اور ان کی مائیں محض انھیں دور سے دیکھ سکتے تھے۔چھو بھی نہیں سکتے تھے۔

جب اسرائیل نے غزہ شہر فتح کرنے کے لیے دو ہفتے قبل بھرپور فوج کشی کی تو نسل کشی میں تیزی کے لیے بڑی بڑی متروک فوجی گاڑیوں میں ٹنوں بارود بھر کے رہائشی عمارات کے عین نیچے کھڑا کر کے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے یہ بارودی گاڑیاں پھاڑ دی جاتیں۔یوں محلے کے محلے چشمِ زدن میں مکینوں سمیت تحلیل ہو گئے۔

ادیب اور نقاد ٹی ایس ایلیٹ لکھتا ہے کہ انسان بہت زیادہ حقیقت بھی برداشت نہیں کر سکتا۔مگر ہم تو دو برس سے ہر آن ناقابلِ برداشت خالص حقیقی عذاب سے گذر رہے ہیں۔جتنا قتلِ عام ان آنکھوں نے دیکھا اس سے زیادہ وہ ہے جو یہ آنکھیں نہیں دیکھ سکیں۔

میرے دوست جواں سال ادیب محمد حامو سمیت اس کے خاندان کے تمام دو سو افراد مار ڈالے گئے۔یا وہ ایک سو بارہ بھوکے لوگ جو آٹے کی قطار میں تھے اور پھر اس قطار میں کوئی زندہ نہ بچا۔اٹھارہ مارچ کا دن بھی شائد تاریخ کے کسی پنے پر محفوظ ہو جائے جب ایک سو بچوں سمیت ایک ہی دن میں چار سو سے زائد انسان لاشیں بن گئے۔

اور وہ پندرہ طبی رضاکار کیسے بھلائے جائیں گے جن کی امدادی ایمبولینسیں رفاہ کے قریب ویرانے میں روک کے ایک ایک کے سر میں گولی ماری گئی۔غزہ کے سویلینز اور دہشت گرد میں کوئی تمیز نہیں بچی۔محفوظ اور غیر محفوظ علاقوں کی اصطلاح نے بہت پہلے ہی دم توڑ دیا۔ڈاکٹر اور مریض ، صحافی و عینی شاہد ، استاد اور شاگرد ، عورت اور پیٹ میں موجود بچہ سب کے سب نشانے پر ہیں ، سب دہشت گرد ہیں۔زندگی کے معنی بس یہ رہ گئے کہ ہر آن ہر طرف سے ہرقسم کی برستی موت سے لمحہ بہ لمحہ کیسے بچنا اور بچانا ہے۔

میں اور میرا خاندان تو صرف نو بار اجڑے ہیں۔ ایسے ہزاروں خاندان ہیں جو غزہ کے پنجرے میں بیس بیس بار ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی پر مجبور کیے گئے۔جہاں بھی رکتے سورج کی تمازت اور تیز ہوا سے بچنے کے لیے دو چادریں تان کے ایک تصوراتی گھر بنا لیتے۔بیت الخلا کے نام پر گڑھا کھود لیتے اور پھر حکم ملتا کہ یہاں سے کہیں اور چلے جاؤ۔یہ ’’ کہیں اور کا حکم ‘‘ بھی کب کا معنی کھو چکا ہے۔

آپ کے لیے غزہ شائد ایک ریتیلی ساحلی پٹی ہے کیونکہ آپ نے اس کے بارے میں بس یہی سنا ہے۔اسے دیکھا نہیں ۔غزہ شہر میں بلند و بالا عمارتیں تھیں ، انسانی چہل پہل سے لبریز بازار تھے ، مسکراتی یونیورسٹیاں تھیں ، ماضی کو حال سے جوڑنے والے سیکڑوں برس پرانے ضعیف گھر ، گرجے اور مساجد تھیں۔

غزہ کے مضافات میں بیت ہنون اور بیت لاہیا کی وضع قطع دہقانی اور ہرے بھرے کھیت تھے۔جنوب میں خان یونس اور رفاہ شہر کے چاروں طرف پھل دار باغات اور زیتون کے ہزاروں درخت تھے۔جبالیہ ، بریج اور خان یونس اسی برس پرانے فلسطین کا نمونہ تھے۔وہ تاریخی فلسطین جہاں سے انیس سو اڑتالیس کے نقبہ میں ہجرت کرنے والوں اور ان کے بچوں اور پھر ان کے پوتوں نواسوں نے ان کیمپوں کو بھی شاندار ماضی سے ایسے جوڑے رکھا جیسے آئینے کے مقابل ایک اور آئینہ رکھ دیا جائے۔

 اب ایک ہی رنگ بچا ہے زندگی کا اور وہ ہے مٹیالا۔ملبہ سرخ ، سفید ، سبز ، نیلا نہیں ہوتا بس مٹیالا ہوتا ہے اور یہ رنگ تاحدِ نگاہ ہے۔اس ملبے میں کبھی کوئی خود رو کونپل پھوٹ پڑے تو ہم آنکھیں مل مل کے دیکھتے ہیں کہ یہ سبزہ کہاں سے اترا۔

آپ کو تو سہولت ہے کہ تباہی کے مناظر ٹی وی اسکرین یا موبائیل فون پر دیکھتے دیکھتے ناقابلِ برداشت ہو جائیں تو چینل بدل لیں یا موبائیل سکرول کر لیں۔ہمیں تو یہ منظر مسلسل دیکھنا ہی نہیں اس میں رہنا بھی ہے۔

ہم نے ان دو برسوں میں سہانے خواب دیکھنے بھی معطل کر دیے ہیں۔تعبیر کے تعاقب کی سکت جو نہیں رہی۔مگر ایک امید ہے کہ بہت ہی ڈھیٹ نکلی۔خاک اور خون سے اٹنے کے بعد بھی کمینی پیچھا ہی نہیں چھوڑتی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل نے ایک اور غزہ کے کے بعد تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

افغانستان کو پاکستان کی 44 سالہ خدمات کو تسلیم کرنا چاہیے: حنیف عباسی

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) افغانستان کی اشتعال انگیزی کے جواب میں پاک فوج کی کامیاب جوابی کارروائی پر وزیر ریلوے نے خراجِ تحسین پیش کیا۔

اپنے بیان میں وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتا ہے، ہمارے محافظوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ ملک کی حفاظت محفوظ ہاتھوں میں ہے، کسی ملک کو پاکستان کی سلامتی پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان کی 44 سالہ خدمات کو تسلیم کرنا چاہیے، افغانستان کی جانب سے کی جانے والی اشتعال انگیزی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

پاکستان کا جواب افغانستان میں فتنہ الہند کے دہشتگردوں کو بے اثر کرنے کیلئے ہے،اسحاق ڈار

ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے جوان ملک کے چپے چپے کی حفاظت پر مامور ہیں، پاکستان کا بچہ بچہ اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، پاکستان اُن ممالک میں سے نہیں جو اپنی سرحدوں پر سمجھوتہ کر لیں، پاکستان نے ہمیشہ امن اور بھائی چارے کو ترجیح دی ہے، اگر کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو جواب ضرور دیا جائے گا۔

وزیر ریلوے نے کہا کہ امن کی خواہش کمزوری نہیں، طاقت کی علامت ہے، وطنِ عزیز کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیئے جائیں گے، قوم اپنے بہادر سپاہیوں پر فخر کرتی ہے۔
 

سندھ حکومت نے صوبے بھر میں ایک ماہ کیلئے دفعہ 144نافذ کردی

مزید :

متعلقہ مضامین

  • کراچی حساس شہر ہے‘سب سے پہلے یہاں سے افغانیوں کو نکالا جائے‘وفاقی وزیر تعلیم
  • ایک آدھے گھنٹے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا انتخاب ہو جائے گا: علی ظفر
  • چین کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اگر افغانی سمجھنے کو تیار نہیں تو سخت جواب دیا جائے: پاکستانی شہری
  • جنوبی افریقہ: سیکس ورک کو قانونی قرار دیا جائے گا؟
  • دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں، ہراشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیا جائے گا،وزیراعظم
  • افغانستان کو پاکستان کی 44 سالہ خدمات کو تسلیم کرنا چاہیے: حنیف عباسی
  • ٹی ٹی پی ،پی ٹی آئی کا عسکری ونگ بن چکی ہے،عطا تارڑ
  • مظاہرین نے پولیس اہلکاروں کو اغوا کیا،قانون ہاتھ میں لینے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا، آئی جی پنجاب