راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ وہ توقع کر رہے تھے کہ اس بار ان کا مینڈیٹ قبول کیا جائے گا۔
بیرسٹر گوہر نے کہاہم نے کئی مشکلات اور سختیاں برداشت کیں، اور سوچ رہے تھے کہ ہمارا مینڈیٹ اس بار تسلیم کیا جائے گا۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ اب بھی قبول نہیں کیا جائے گا تو ہم ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لیتے۔
انہوں نے ہری پور کے ضمنی الیکشن پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی جیتی ہوئی سیٹ کا دفاع نہیں کر سکے، اور یہ کہ جیتی ہوئی سیٹ نہ دینا جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں۔اب خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں میں کسی اور کا سکہ چل رہا ہے، یہ ظلم ہے۔
بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کرائی جا رہی، ہر مرتبہ امید کے ساتھ آتے ہیں کہ ملاقات ہوگی، مگر صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر

پڑھیں:

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن )کی جیت

ضمنی انتخابات کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کلین سویپ کر دیا ہے۔ پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کی جیت پر تو کہا جا سکتا ہے کہ وہاں اس کی حکومت ہے، اس لیے ضمنی انتخابات حکومت ہی جیتتی ہے۔ لیکن ہری پور پر کیاکہا جا ئے گا؟ ہری پور میں تو تحریک انصاف کی مضبوط حکومت ہے۔ انتخابی مہم کے لیے ’’کے پی‘‘ کے وزیر اعلیٰ بھی گئے۔ حالانکہ انھیں الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹس بھی کیا گیا۔ خیبر پختونخوا کی ساری تحریک انصاف نے ہری پور کا ضمنی الیکشن جیتنے کے لیے انتخابی مہم چلائی۔ لیکن پھر بھی مسلم لیگ (ن) کا ا میدوار واضح اکثریت سے جیت گیا۔ تحریک انصاف اپنی حکومت میں ہار گئی۔

ہری پور میں مسلم لیگ (ن) کی جیت تحریک انصاف کو کافی پیغامات دے رہی ہے۔ میرے خیال میں تحریک انصاف کے لیے کے پی میں خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ ہری پور کی عمر ایوب کی سیٹ تحریک انصاف کی ایک محفوظ سیٹ تھی۔ یہ عمر ایوب کی خاندانی سیٹ ہے۔ وہ اکثر یہاں سے جیتتے ہیں۔

عمر ایوب اس سیٹ کو اس قدر محفوظ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اس سیٹ کے لیے بانی تحریک انصاف کے بائیکاٹ کے اصول کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔ ہم سب کو علم ہے کہ بانی تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ لیکن دو شخصیات نے اس بائیکاٹ کو ماننے سے انکار کیا۔ ان میں ایک عمر ایوب اور دوسرے حماد اظہر شامل ہیں۔ حماد اظہر کو بھی یہی خیال تھا کہ ان کی سیٹ بہت محفوظ ہے۔ ان کے والد نے یہ سیٹ 2024کے عام انتخابات میں بھی جیت لی تھی۔ اس لیے اس کو جیتنا بہت آسان ہوگا۔ تا ہم اب ثابت ہوا کہ اب تحریک انصاف کی محفوظ سیٹیں بھی محفوظ نہیں رہی ہیں۔

ایک اور بات عمر ایوب اور حماد اظہر نے جہاں تحریک انصاف کے بائیکاٹ کے اصول کو توڑا۔ وہاں انھوں نے ٹکٹیں بھی اپنے ہی خاندان کو دی ہیں۔ عمر ایوب نے اپنی جگہ اپنی بیگم کو الیکشن لڑوایا۔ جب کہ حماد اظہر بھی اپنے رشتہ دار کو لے آئے۔ دونوں جگہ خاندانوں نے اپنی اجارہ داری قائم رکھی۔ شاید تحریک انصاف کے ووٹرز کو موروثی امیدوار پسند نہیں آئے۔ عمر ایوب کی جگہ ان کی بیگم بھی شاید تحریک انصاف کے ووٹر کو پسند نہیں آئی اور حماد اظہر کے غیر سیاسی رشتہ دار کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔ویسے تو تحریک انصاف موروثی سیاست کے خلاف بات کرتی ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ اب ٹکٹیں موروثی اصولوں کے مطابق ہی دی جاتی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دو حلقوں میں تحریک انصاف کے مضبوط امیدواروں کو شکست دی ہے جب کہ ڈیرہ غازی خان میں پیپلزپارٹی کو شکست دی ہے۔ ڈیر غازی خان میں تحریک انصاف کی زر تاج گل کے نا اہل ہونے سے سیٹ خالی ہوئی تھی۔ لیکن زرتاج گل نے تحریک انصاف کے بائیکاٹ پر عمل کرتے ہوئے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ تا ہم یہاں پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے پر امیدوار کھڑا کیا۔ پیپلزپارٹی کے دوست محمد کھوسہ نے الیکشن لڑا۔ تا ہم مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو بھی واضح اکثریت سے شکست دی ہے۔

باقی حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ آزاد امیدواروں سے رہا ہے۔ یہاں بھی دلچسپ صورتحال رہی ہے۔ گو کہ تحریک انصاف الیکشن میں موجود نہیں تھی۔ لیکن ان کے مقامی دھڑوں نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں آزاد امیدواروں کو سپورٹ کیا ہے۔ کیونکہ مقامی طور پر سیاسی دھڑے الیکشن سے بالکل لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ اس لیے تحریک انصاف کے مقامی دھڑوں نے مسلم لیگ (ن) کی مخالفت میں ہی ووٹ کاسٹ کیا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لیے یقینا حوصلہ افزا ہیں، کہیں نہ کہیں لوگ دوبارہ مسلم لیگ (ن) کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ ان کے ووٹ بینک میں اضافہ دیکھنے میں نظر آیا ہے۔ پنجاب اور مرکز کی حکومت کی کارکردگی پر عوام نے اعتماد کی مہرلگائی ہے۔ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔

کیا تحریک انصاف کے بائیکاٹ نے ان کے ووٹر کو کنفیوژ کیا ہے؟ یقیناً تحریک انصاف کابائیکاٹ ان کے ووٹر کو سمجھ نہیں آیا۔ اگر اصول یہ تھا کہ نا اہل ہونے والوں حلقوں میں بائیکاٹ کرنا تھا تو عمر ایوب کے حلقہ کا بھی بائیکاٹ ہونا چاہیے تھا۔ اگر ملک کے انتخابی نظام کا بائیکاٹ کرنا مقصود تھا تو دو حلقوں میں لڑنا نا قابل فہم تھا۔ کچھ حلقوں میں لڑنا اور کچھ حلقوں میں بائیکاٹ کسی کو سمجھ نہیں آیا۔ ووٹر کنفیوژ ہوا ہے۔ نہ وہ مکمل بائیکات کر سکا اور نہ ہی مکمل انتخابی مہم چلا سکا۔ اس لیے سوشل میڈیا پر بھی کہیں بائیکاٹ کی مہم چل رہی تھی اور کہیں ووٹ ڈالنے کی اپیلیں چل رہی تھیں۔

یہ وہی بات ہے کہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں سے تو استعفیٰ دے دیے ہیں۔ لیکن قومی اسمبلی اور سینیٹ سے استعفیٰ نہیں دیے ہیں۔ اگر آپ نے پارلیمان میں بیٹھنا ہے تو قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل فہم پالیسی ہے۔ جس کی کسی کو سمجھ نہیں آرہی۔

دھاندلی کا بیانیہ بھی ان ضمنی انتخابات میںزمین بوس ہوگیا۔ کے پی میں دھاندلی کیسے ہو سکتی ہے۔ وہاں پر تو حکومت اپنی تھی۔ پریذ ائڈنگ افسر بھی اپنی حکومت کے تھے۔ پولیس اپنی تھی۔ سرکاری ملازمین بھی اپنے تھے۔ دھاندلی کیسے ہو سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی خود انتخابی مہم چلانے گئے۔ انھیں شوکاز بھی ہوا ۔ ساری تحریک انصاف ہری پور گئی۔ پھر بھی ہار گئے۔ اس کے مقابلے میں حماد ا ظہر کی حکمت عملی مختلف تھی۔

انھوں نے کوئی بڑا جلسہ نہیں کیا۔ انھوں نے کسی بڑے لیڈر کو حلقہ میں نہیں بلایا۔ کہا جا رہا ہے کہ انھیں امید تھی کہ لو پروفائل کی وجہ سے وہ سیٹ نکال لیں گے۔ دوست بتاتے ہیں کہ وہ رابطے میں تھے۔ اپنی سیٹ کے لیے بات کر رہے تھے۔ لیکن ان کی بات نہیں بنی۔ اور وہ ہار گئے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج ملک کے اگلے سیاسی منظر نامہ کو بیان کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی اکثریت بنا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا اتحادیوں پرانحصار کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کوئی چھوٹی تبدیلی نہیں ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے اس میں کئی اشارے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مینڈیٹ نہ ملنے کا خدشہ تھا تو انتخابات میں حصہ ہی نہ لیتے، بیرسٹر گوہر کا بیان
  • بانی سے ملاقات معاملہ، ہمارے صبرکا پیمانہ لبریزہورہا ہے، بیرسٹر گوہر
  • بانی سے ملاقات معاملے پر صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، بیرسٹر گوہر
  • ہمارامینڈیٹ اب بھی قبول نہیں،یہی سلسلہ رہا تو کسی اور لائن کی طرف جانے کا سوچیں گے:چیئرمین پی ٹی آئی
  • اگر یہی سلسلہ رہا تو ہم  کسی اور لائن کی طرف جانے کا سوچیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی
  • ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن )کی جیت
  • ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ ہمیشہ کم ہوتا ہے: چیف الیکشن کمشنر  
  • پنجاب میں تاریخ کا کم ترین ٹرن آؤٹ، عوام نے الیکشن پر عدم اعتماد ظاہر کردیا: بیرسٹر گوہر
  • آقا جان! آپ کا نذرانہ قبول ہو