پاکستانی پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں ایک بار پھر گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق، پاکستان کا پاسپورٹ اب 103 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے، جو پہلے 96 ویں نمبر پر تھا۔

تازہ فہرست کے مطابق، پاکستانی شہری اب صرف 31 ممالک میں بغیر ویزا سفر کر سکتے ہیں، جبکہ گزشتہ رینکنگ میں یہ تعداد 32 ممالک تھی۔

پاکستان کے نیچے صرف عراق (104 ویں)، شام (105 ویں) اور افغانستان (106 ویں) درجے پر موجود ہیں۔ یمن کے ساتھ پاکستان کا درجہ برابر ہے۔ بھارت کا پاسپورٹ بھی درجہ بندی میں نیچے آیا ہے اور اب وہ 85 ویں نمبر پر ہے۔

دوسری جانب، سنگاپور بدستور دنیا کا سب سے طاقتور پاسپورٹ قرار پایا ہے، جو 193 ممالک میں ویزا فری داخلے کی اجازت دیتا ہے۔

اس کے بعد جنوبی کوریا (190) اور جاپان (189) دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ یورپی ممالک جیسے جرمنی، اٹلی، اسپین، لکسمبرگ، اور سوئٹزرلینڈ چوتھے نمبر پر ہیں، جن کے شہری 188 ممالک میں ویزا فری سفر کر سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی پاسپورٹ بھی اپنی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور اب 12 ویں نمبر پر ہے، جو ملائیشیا کے ساتھ برابر ہے۔امریکی شہریوں کو اس وقت 180 ممالک میں ویزا فری داخلے کی اجازت ہے، جب کہ امریکا خود صرف 46 ممالک کے شہریوں کو ویزا فری اجازت دیتا ہے۔

ہینلے اینڈ پارٹنرز کے مطابق، امریکا کا زوال ویزہ ریسیپروسیٹی (Visa Reciprocity) کی پالیسی کے باعث ہوا، کیونکہ واشنگٹن نے کئی ممالک کے لیے ویزا شرائط سخت کر دی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، چین نے پچھلے ایک دہائی میں زبردست پیش رفت کی ہے — 2015 میں 94 ویں نمبر سے اب 64 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے، اور صرف ایک سال میں 30 نئے ممالک کے ساتھ ویزا فری معاہدے کیے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، چین کی ویزا پالیسی میں نرمی اور مختلف ممالک کے ساتھ تعاون نے ایشیا پیسیفک خطے کو سفر کی آزادی کے لحاظ سے عالمی برتری دلادی ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ویں نمبر پر ممالک میں ویزا فری کے مطابق ممالک کے کے ساتھ

پڑھیں:

چین کا ’کے ویزا‘ کیا ہے اور کس طرح حاصک کیا جا سکتا ہے؟

چین نے حال ہی میں ایک نئی ویزا کیٹیگری متعارف کروائی ہے جسے ‘کے ویزا’ (K Visa) کہا جاتا ہے۔ یہ ویزا خاص طور پر سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے نوجوان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

یہ اقدام چین کی معیشت کو مضبوط بنانے اور عالمی سطح پر ہنرمند افراد کو راغب کرنے کی کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یو اے ای میں نوکریوں کے نئے مواقع، اہم شعبوں کے لیے نئی ویزا پالیسی کا اعلان

واضح رہے کہ ’کے ویزا‘ 1 اکتوبر 2025 سے نافذ العمل ہو چکا ہے اور اسے چین کی وزارت خارجہ اور اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف فارن ایکسپرٹ افیئرز کی جانب سے شروع کیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کیونکہ یہ ویزا انہیں چین میں تعلیم، تحقیق اور کاروبار شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم، کچھ چینی شہریوں کی جانب اس ویزا کو متعارف کروانے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ مقامی ملازمتوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

کے ویزا کیا ہے؟

‘کے ویزاہ’ چین کی 13 ویزاہ کیٹیگریز میں سے ایک نیا اضافہ ہے جو STEM شعبوں میں مہارت رکھنے والے 35 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کے لیے ہے۔ اس ویزے کے حامل افراد کو چین میں طویل مدتی قیام، ملازمت اور کاروبار کی اجازت ملتی ہے۔

 اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کے لیے پیشگی جاب آفر کی ضرورت نہیں اور یہی وہ چیز ہے جو اسے امریکی H-1B ویزا سے مختلف بناتی ہے۔ ویزا کی مدت 1 سے 3 سال تک ہے اور یہ رینیوایبل ہے۔ اس کے علاوہ، ویزا ہولڈرز تعلیمی تبادلے، سائنسی تحقیق، کلچرل سرگرمیوں اور اسٹارٹ اپس میں حصہ لے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ چین کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ویزا ملک کی آئی ٹی ترقی کو تیز کرے گا اور عالمی ٹیلنٹ کو اپنی طرف کھینچے گا۔

پاکستانیوں کے لیے ویزا فیس

پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ معاہدے کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کے لیے چین کی consular fee صفر ہے۔ تاہم، ویزا ایپلیکیشن سینٹر جیسے Gerry’s Visa Center کی سروس فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔

مزید پڑھیے: امریکا کی ایچ ون بی نئی ویزا پالیسی، کونسے ممالک اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

ریگولر سروس کی فیس تقریباً 13,200 روپے (GST سمیت) ہے، جبکہ ایکسپریس سروس کے لیے تقریباً 19،800 روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ Gerry’s کی مجموعی فیس ویزا کی قسم اور پروسیسنگ کے لحاظ سے 23،000 روپے تک ہو سکتی ہے۔ اضافی اخراجات جیسے میڈیکل چیک اپ یا دستاویزات کی تصدیق کی لاگت الگ سے ہو سکتی ہے۔ یہ فیس پاکستانیوں کے لیے نسبتاً کم ہے، جو اس ویزا کو زیادہ پرکشش بناتی ہے۔

درخواست کے لیے ضروری دستاویزات

اصل پاسپورٹ جس کی میعاد کم از کم 6 ماہ ہو اور دو خالی صفحات ہوں۔ آن لائن بھرا ہوا ویزا ایپلیکیشن فارم (COVA سسٹم کے ذریعے) اور ایک حالیہ پاسپورٹ سائز فوٹو۔ سی وی جو آپ کی مہارت ظاہر کرے، سٹم شعبوں میں ڈگری، سرٹیفیکیٹس ہونے چاہیے۔ چین کی کسی یونیورسٹی، کمپنی یا ادارے سے دعوت نامہ (اختیاری، لیکن تجویز کیا جاتا ہے)۔ مالی وسائل کا ثبوت، جیسے بینک سٹیٹمنٹ، جو یہ ظاہر کرے کہ آپ چین میں اپنا خرچ اٹھا سکتے ہیں۔ چین کے منظور شدہ ہسپتال سے میڈیکل چیک اپ رپورٹ۔ اضافی دستاویزات جیسے ریسرچ پروپوزل، پبلی کیشنز یا انٹرپرینیورشپ پلان، اگر متعلقہ ہوں۔ اگر پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں رہائش پذیر ہیں تو قانونی حیثیت کا ثبوت۔

درخواست کا عمل آن لائن شروع ہے جہاں فارم بھر کر دستاویزات اپ لوڈ کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد چینی ایمبیسی یا Gerry’s Visa Center میں جمع کروائیں۔ پاکستان میں یہ سینٹرز اسلام آباد، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں موجود ہیں۔ پروسیسنگ کا وقت عام طور پر 4-7 دن ہوتا ہے لیکن ایکسپریس سروس کے زیریعے اسے کم کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کا نیا اقدام: ٹاپ ٹیلنٹ کے لیے ویزا فیس ختم کرنے پر غور

چین کی یہ نئی ویزا پالیسی امریکی H-1B ویزا پابندیوں اور فیس میں اضافے کے تناظر میں آئی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کیونکہ ہر سال ہزاروں پاکستانی طلبہ چین میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ‘کے ویزا’ انہیں نہ صرف تعلیمی مواقع بلکہ ملازمت اور اسٹارٹ اپس شروع کرنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے۔ تاہم ویزا صرف ‘آؤٹ سٹینڈنگ ٹیلنٹ’ کے لیے ہے لہٰذا درخواست دہندگان کو اپنی مہارت اور کامیابیوں کا مضبوط ثبوت دینا ہوگا۔ چین کی یہ پالیسی اس کی عالمی ٹیلنٹ ہنٹ کا حصہ ہے جو ملک کو ٹیکنالوجی کی سپر پاور بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔

پاکستانیوں کو اس ویزے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

چین کی نئی ’کے ویزا‘ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے چین میں پی ایچ ڈی اسکالر شہزاد علی نے کہا ہے کہ یہ ویزا نہ صرف سفارتی یا امیگریشن اصلاحات کا حصہ ہے بلکہ چین کی معیشتی اور سائنسی خودمختاری کی جانب ایک اسٹریٹیجک قدم بھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’کے ویزا‘ دراصل چین کے اس بڑے وژن کا حصہ ہے جو وہ سنہ 2030 تک عالمی ٹیکنالوجی لیڈر بننے کے لیے اپنائے ہوئے ہے۔

انہوں نے کاہ کہ ٹیلنٹ کی عالمی قلت کو دیکھتے ہوئے چین نے یہ ویزا متعارف کروا کر نہ صرف ایشیائی بلکہ عالمی ماہرین کے لیے خود کو متبادل مرکز کے طور پر پیش کیا ہے۔

شہزاد علی کا کہنا ہے کہ چین کی معیشت اب انوویشن کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں صرف مقامی افرادی قوت کافی نہیں۔

انہوں نے اس ویزے کو پاکستانی ماہرین اور نوجوانوں کے لیے ایک غیر معمولی موقع قرار دیا۔ کیونکہ پاکستان میں ہر سال ہزاروں گریجویٹس سٹم فیلڈز سے فارغ ہوتے ہیإ مگر ان کے لیے بین الاقوامی مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں اور چین کی یہ پالیسی ان نوجوانوں کو تحقیق، ہائی ٹیک انڈسٹری اور اختراعی منصوبوں میں شمولیت کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ جس میں اہم بات یہ ہے کہ  اس کے لیے کسی قسم کی کوئی جاب آفر یا اسپانسر کی شرط بھی لازم نہیں ہے۔

اور اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس کی فیس بھی ہزاروں میں ہیں۔ جبکہ مغربی ممالک کے ویزوں کی فیس ایک عام شخص کی استطاعت میں نہیں ہوتی۔

یہ بھی پڑھیے: ڈاکٹروں کو ایچ-1 بی امریکی ویزا فیس سے استثنیٰ ملنے کا امکان

شہزاد علی کا مزید کہنا تھا کہ ہ ویزا نہ صرف تحقیق، تعلیم اور اسٹارٹ اپس کے مواقع فراہم کرتا ہے بلکہ پاکستانی پروفیشنلز کے لیے بھی ایک بڑی پیش رفت ہے۔

چین نے گزشتہ 2 دہائیوں سے اپنے ہائی ٹیک شعبے میں بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے۔ شنگھائی، شینزین اور بیجنگ جیسے شہروں میں قائم جدید ٹیکنالوجی پارکس اس کی واضح مثال ہیں۔

ان پارکس نے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی کمپنیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ تاہم چینی کمپنیوں کو اب بھی تکنیکی اختراع اور کارکردگی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

سستے حکومتی قرضوں کے باوجود، ان کی تحقیق و ترقی کے شعبے کو عالمی معیار کے ٹیلنٹ کی ضرورت ہے۔ پاکستانی اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے ہنرمند پروفیشنلز، خاص طور پر انجینئرز، اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔

اگر پاکستان سے صرف ایک چھوٹا سا حصہ بھی اپنی صلاحیتوں کو چین میں استعمال کرے تو یہ چین کی تکنیکی ترقی کے لیے ایک اہم پیشرفت ہو سکتی ہے۔ جس کا خاطر خواہ فائدہ چین کو بھی ہوگا۔

مزید پڑھیں: امریکی ایچ ون بی ویزا اب صرف امیروں کے لیے رہ گیا؟

چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ویسے بھی اچھے ہیں۔ پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے نہ صرف یہ ویزا حاصل کریں بلکہ چین میں اپنا نام بنائیں اور مزید پاکستانیوں کے لیے وہاں روزگار کے مواقع پیدا کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سب سے زیادہ موبائلزگیمز بنانے والے ممالک میں دوسرے نمبر پرآ گیا
  • لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آگیا
  • پاکستانی پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں ایک بار پھر گراوٹ ریکارڈ
  • ریاض میں فائر اینڈ ریسکیو ورلڈ چیمپیئن شپ، 21 ممالک کی شرکت متوقع
  • چین کا ’کے ویزا‘ کیا ہے اور کس طرح حاصک کیا جا سکتا ہے؟
  • پاکستان اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب
  • وزیراعظم نے ایف بی آر میں تعینات گریڈ 20 کے افسر کو فارغ کر دیا
  • حکومت سے 2008ء سے اب تک لیے گئے قرضوں کی تفصیلات طلب 
  • تحریک لبیک کے احتجاج سے متعلق کراچی پولیس کا ردعمل سامنے آگیا