کاشتکاروں سے ناانصافی‘ جماعت اسلامی 19اکتوبرکوکراچی تا کشموراحتجاج کریگی
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251016-08-24
کراچی/ لاڑکانہ (اسٹاف رپورٹر/نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ دھان کے کاشتکاروں کو مناسب قیمت اورناجائز کٹوتیاں سراسرظلم ہے جماعت اسلامی اورکسان بورڈ کاشتکاروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھرپور آواز ٹھائے گی۔ حکومت ہوش کے ناخن لے دھان کے کاشتکاروںکو اپنا حق دلائے اوردھان کی قیمت فی من 4000روپے مقرر کی جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاڑکانہ میں کسان بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ضلعی امیر ایڈووکیٹ نادر علی کھوسو، صدر کسان بورڈ ضلع لاڑکانہ گلشیر جکھرانی، قاری ابو زبیر جکھرو، طارق میر جٹ اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ صوبائی امیر نے زوردیاکہ کاشتکاروں کو گندم، گنے، کپاس،دھان اور سبزیوں کی مناسب قیمتیں فراہم کی جائیں اور بیج اور کھاد کی قیمتوں میں رعایت دی جائے۔ کسانوں کو معاشی طور پر کمزورکرنے والے فیصلوں کو ختم کیا جائے تاکہ زراعت ترقی کر سکے اور کسان خوشحال ہو سکیں۔ سندھ کی 70 فیصد آبادی کا تعلق زراعت کے شعبے سے ہے، اس کے باوجود ہر سال دھان اور گندم کی قیمتوں میں کمی کرکے چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کو بھوک اور افلاس کا شکار ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی اور کسان بورڈ کاشتکار کو ان کے حقوق دلانے کے لیے ہر پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں 19 اکتوبر بروز اتوار کراچی تاکشمور ’’کسانوں کو ان کے حقوق دو‘‘ کے عنوان سے احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے، جس میں ہم سندھ کے کسانوں اور کاشتکاروں سے بھرپور شرکت کی اپیل کرتے ہیں۔کاشف سعید شیخ نے مزید کہا کہ کسانوں کی فصلوں سے منافع کما کر مڈل مین اور مل مافیا ارب پتی بن چکے ہیں جبکہ خون پسینے سے فصلیں تیار کر کے منڈی تک لانے والے کسانوں کے بچے آج بھی کھانے اور کپڑوں کے لیے پریشان ہیں۔ مقامی صنعتکار، مڈل مین اور بااثر اشرافیہ کسانوں کے استحصال میں ملوث ہیں، جو فصلوں کی کٹائی کی شرط پر قیمتیں کم کرنے اور قلت کی حالت پر اجناس کی خرید و فروخت کرکے منافع کماتے ہیں، جس کی وجہ سے سندھ کے کسان اور کسان آج بھی بھوک اور بدحالی کا شکار ہیں۔ دھان کی قیمتوں میں اضافے اور غیر قانونی کمی کے خلاف گزشتہ کئی دنوں سے سندھ بھر میں کاشتکار سراپا احتجاج ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کی فریاد کوئی نہیں سن رہا جس سے بے حس حکمرانوں کی عوام دشمنی صاف ظاہر ہوتی ہے۔ کاشف سعید شیخ نے سندھ حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ کاشتکاروں اور کاشتکاروں کو گندم، کپاس، گنے اور سورج مکھی سمیت نقد آور فصلوں کی مناسب قیمتیں دینے سمیت ان کے تمام جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے تاکہ سندھ کے کاشتکاروں اور کاشتکاروں کی تقدیر بدلے اور ان کے دکھوں کا مداوا کیا جاسکے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی اور کسان سندھ کے
پڑھیں:
مینار پاکستان: ’’بدل دو نظام‘‘
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251202-03-7
مینار پاکستان اس جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت آ ل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں ’’قرار داد لاہور‘‘ منظور کی گئی۔ 329 ایکٹر پر مشتمل اس قطعہ اراضی کو ’’منٹوپارک‘‘ کہا جاتا تھا جسے بعد ازاں گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا۔ گریٹر اقبال پارک نے جلسہ گاہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سیاسی جماعتوں، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام سمیت ہر بڑی قابل ذکر جماعت نے مینار پاکستان کے سائے میں اجتماع کے انعقاد کو ’’سیاسی قوت‘‘ کے مظاہرے کے لیے استعمال کیا۔ جماعت اسلامی کے قیام کے بعد21 نومبر سے 23 نومبر 2025ء تک ہونے والا 16 واں اجتماع ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق ساڑھے تین لاکھ سے زائد نے شرکت کی۔ قبل ازیں 11 سال قبل 2014ء میں مینار پاکستان کے سائے تلے اجتماع عام منعقد ہوا تھا جس میں مجھے بھی شرکت کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کا پہلا اجتماع عام 6 سے 8 مئی 1949ء کو لاہور ہی میں منعقد ہوا تھا۔ اب تک لاہور میں جماعت اسلامی کا یہ چھٹا اجتماع عام ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مینار پاکستان کے سائے تلے منعقد ہونے والے اجتماعات کو سب سے بڑے اجتماعات ہونے کے دعوے کرتی رہی ہیں، یہ اجتماعات چند گھنٹوں پر مشتمل ہوتے تھے لیکن جماعت اسلامی کا حالیہ اجتماع عام ان اجتماعات سے نہ صرف بڑا اور تین دن پر محیط تھا۔ اگرچہ اس سیاسی میلے کے ’’دولہا‘‘ حافظ نعیم الرحمن ہیں جن کی امیج بلڈنگ میں اجتماع عام نے بڑا کردار ادا کیا ہے تاہم اجتماع عام کے ساڑھے تین لاکھ سے زائد شرکاء کے قیام و طعام کا خوش اسلوبی سے انتظام کرنے کا کریڈٹ لیاقت بلوچ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ میری لیاقت بلوچ سے زمانہ طالب علمی سے دوستی ہے میں نے ان کو اسلامی جمعیت طلبہ میں بہت قریب سے دیکھا ہے وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں تنظیمی امور کے ماہر ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں اجتماع عام کا ناظم مقرر کیا گیا، انہوں نے یہ فریضہ دو اڑھائی ماہ کی شبانہ روز محنت سے ادا کیا۔ جب شرکاء کی تعداد بڑھ گئی تو منتظمین نے ان کے قیام کے لیے بادشاہی مسجد کے وسیع و عریض صحن کو بھی استعمال کیا جو جماعت اسلامی کے حکومت پنجاب سے خوشگوار تعلقات اور سیاست کاری کی عکاسی کرتا ہے۔ اجتماع عام میں ہزاروں خواتین کی موجودگی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جماعت اسلامی کا خواتین میں وسیع حلقہ ہے میں نے کسی جماعت کے اجتماع میں باپردہ خواتین کی اتنی بڑی تعداد نہیں دیکھی۔ جماعت اسلامی کی سیاسی قوت کے کسی مظاہرے میں خواتین کی اس قدر تعداد کی شرکت میرے لیے باعث حیرت تھی۔ اجتماع کی سب سے اہم بات برطانوی نو مسلم خاتون جو سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی خواہر نسبتی ہیں کی شرکت ہے، ان کا خطاب اجتماع عام کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ گریٹر اقبال پارک میں نئی تاریخ لکھی جا رہی تھی دنیا کے 45 ممالک سے تقریباً 120 سرکردہ رہنمائوں نے اجتماع عام میں شرکت کی جبکہ 35 ممالک سے 230 پاکستانیوں نے اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کی اگر اسے بین الاقوامی نوعیت کا اجتماع کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ دنیا بھر کی اسلامی تحاریک کی نمائندگی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ جماعت اسلامی کو پوری دنیا میں مسلمانانِ پاکستان کی نمائندہ جماعت تصور کیا جاتا ہے۔ منٹو پارک میں 23 مارچ 1940ء کو کم و بیش ایک لاکھ افراد کے اجتماع میں منظور کی گئی قرار داد لاہور میں قیام پاکستان کے خدو خال بیان کیے گئے تھے جماعت اسلامی نے دوسری بار مینار پاکستان کے سائے تلے بڑا اجتماع کر کے ان مقاصد کے حصول کے لیے عزم کا اعادہ کیا جن کے حصول کا 85 سال قبل مسلمانان ہند سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اب کی بار جماعت اسلامی نے ’’نظام کی تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگایا ہے اس نعرے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اجتماع کے شرکاء کی بڑھتی تعداد نے ایک مرحلے پر تو پریشان کر دیا تھا۔ سیدابولاعلیٰ مودودیؒ نے 1940 میں گنتی کے چند ساتھیوں کے ہمراہ جس جماعت کی بنیاد رکھی تھی وہ آج ایک تناور درخت بن گئی ہے۔ یہ جماعت اسلامی کا ہی حسن ہے اس میں موجودہ اور سابق امیر ہاتھوں میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک اسٹیج پر کھڑے ہوں اگر اجتماع عام کو حافظ نعیم الرحمن کی تقریب رونمائی کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
جس میں سید مودودیؒ، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، اور سراج الحق کی مسند پر حافظ نعیم کو بٹھا کر قوم کو موجودہ نظام کوتبدیل کرنے کا نعرہ دیا گیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی عینک کی بولی لگی تو ایک صاحب حیثیت شخص نے ایک کروڑ 10 لاکھ میں خرید لی اسی طرح اجتماع کے آخر میں عطیات اکھٹے کرنے کا اعلان ہوا تو چند منٹوں میں 10 کروڑ روپے اکھٹے ہو گئے۔ ’’بدل دو نظام‘‘ محض ایک سیاسی نعرہ نہیں یہ قوم کے دل کی آواز ہے جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا جماعت اسلامی نے پرو گرام بنایا ہے۔ یہ اجتماع عام اس پروگرام کی تکمیل کا آغاز ہے۔ اجتماع عام میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی شرکت اس بات کی غمازی کرتی ہے جماعت اسلامی نے نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کرنے کا پرو گرام بنایا ہے اور جماعت اسلامی اپنے اوپر ملائوں کی جماعت کی چھاپ ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ اجتماع ایک تحریک کی شکل اختیار کرے گا جس کی کوکھ سے ایک بار پھر پورے ملک میں نظام کی تبدیلی کی امید جنم لے گی۔ جماعت اسلامی کے تین روزہ اجتماع عام میں بین الاقوامی اسلامی تحاریک کا لاہور میں ہیڈ کوارٹر بنانے کا فیصلہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ تنظیم پوری دنیا میں اسلامی تحاریک کو منظم کرے گی اور مختلف ممالک میں اسلامی تحاریک کو درپیش رکاوٹیں دور کرے گی۔ اجتماع میں مختلف سیشن ہوئے جن میں حافظ نعیم الرحمن کا خطاب جماعت اسلامی کے کارکنوں کے لیے انسپائرنگ تھا ان کا انداز تخاطب جارحانہ ہے، جماعت اسلامی کے کارکنوں کو حافظ نعیم الرحمن کی شکل میں نیا قاضی حسین احمد مل گیا ہے۔ (بشکریہ: روزنامہ جنگ)