غزہ امن معاہدے کی تفصیلات سامنے آگئیں؛ حماس رہنما کا اہم انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
حماس کے سینیئر رہنما اسامہ حمدان نے مصر اور دیگر ثالث فریقوں کے ساتھ طے پانے والے غزہ امن معاہدے کی شقوں کی مفصل تصویر پیش کردی ہے۔
العربی ٹی وی کو دیے گئے اپنے تازہ انٹرویو میں حمدان نے کہا کہ اس معاہدے کا بنیادی مقصد غزہ پر جاری جارحیت کا مکمل خاتمہ ہے اور اسی کے بعد قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آئے گا، جبکہ معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے عالمی برادری کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
حمدان نے واضح طور پر کہا کہ معاہدے کے ایک اہم حصے کے تحت اسرائیلی فوج کو غزہ شہر، شمالی علاقوں، رفح اور خان یونس سے انخلا کرنا ہوگا اور یہ اقدام جنگ بندی کے باضابطہ اعلان کے ساتھ مربوط ہوگا۔ اُن کے بقول اس پہلو کو ثالثوں نے بھی تسلیم کیا ہے اور معاہدے کی پہلی اور بنیادی شق ہی غزہ پر جارحیت کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔
معاہدے کی لاجسٹک شقوں کے متعلق اسامہ حمدان نے بتایا کہ پانچ سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے روزانہ کم از کم 600 ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہوں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ امدادی سامان کی تقسیم مقامی یا مشکوک اداروں کے ذریعے نہیں بلکہ بین الاقوامی اداروں کے ماتحت شفاف طریقے سے ہونی چاہیے تاکہ تقسیم کے عمل میں رکاوٹ یا بدعنوانی نہ آئے۔
مزید برآں انہوں نے کہا کہ قیدیوں کی منتقلی کے دوران غزہ کی فضاؤں میں ڈرون پروازیں روکنے کی بھی درخواست کی گئی ہے تاکہ نقل و حمل کا عمل بلاخوف و خطر انجام پائے۔
قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے اسامہ حمدان نے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت تقریباً 250 ایسے قیدی بھی رہا کیے جائیں گے جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے اور ساتھ ہی غزہ سے تقریباً 1,700 دیگر قیدیوں کی رہائی بھی فہرست میں شامل ہے۔ تاہم انہوں نے یہ باور کروایا کہ قیدیوں کا یہ تبادلہ صرف اسی صورت ممکن ہوگا جب جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا، یعنی قیدیوں کی رہائی جنگ بندی کے نفاذ کے عین بعد کا عمل ہے۔
حمدان نے معاہدے کے نفاذ کے حوالے سے ثالث فریقوں کے کردار پر بھی بات کی اور کہا کہ ثالثوں نے معاہدے کی پاسداری کروانے کی ذمے داری قبول کی ہے اور جنگ بندی کے باقاعدہ اعلان کا اختیار بھی امریکی فریق کو سونپا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے رویے پر بین الاقوامی برادری کی کڑی نظر ضروری ہے تاکہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں فوری طور پر اسے بے نقاب کیا اور اقدامات کیے جاسکیں۔
غزہ کے انتظامِی امور کے بارے میں اسامہ حمدان نے کہا کہ فلسطینی دھڑوں نے غزہ کی پٹی کے انتظام کے لیے چالیس ناموں پر مشتمل ایک مجوزہ فہرست پیش کی ہے اور اس بات پر زور دیا کہ غزہ کا انتظام مکمل طور پر فلسطینی قومی نمائندوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، کسی بیرونی یا قابض مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ جو بھی فریق عوامی مدد کرنا چاہے وہ کرے، مگر اسے سرپرستی یا سیاسی قابضیت کے منافع بخش منظرناموں سے دور رہنا ہوگا۔
آخر میں اسامہ حمدان نے کہا کہ اگرچہ وہ قابض افواج پر اعتماد نہیں کرتے، مگر ثالثین کی ضمانتوں کو ضروری قرار دیتے ہیں تاکہ معاہدے کے نفاذ کے مراحل کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ معاہدے کا پہلا مرحلہ فلسطینی عوام کی سب سے بنیادی مانگ ’غزہ پر جارحیت کا خاتمہِ‘ کو پورا کرتا ہے اور اب عالمی کمیونٹی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس عمل کو عملی شکل دینے میں شفاف اور مؤثر کردار ادا کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہ معاہدے معاہدے کی معاہدے کے نے کہا کہ انہوں نے ہے اور
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی مذاکرات، حماس نے 6 سرکردہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی شرط رکھ دی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
شرم الشیخ: غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے حماس، اسرائیل اور ثالث فریقین کے درمیان مصر میں مذاکرات جاری ہیں۔
حماس وفد کی قیادت سینئر مذاکرات کار خلیل الحیہ کر رہے ہیں، جو دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد پہلی بار منظرِ عام پر آئے ہیں۔ مذاکرات میں امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر بھی شریک ہیں۔
عربی میڈیا کے مطابق حماس نے مذاکرات میں 6 سرکردہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی سمیت متعدد شرائط رکھی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے کہا کہ صدر ٹرمپ جلد از جلد یرغمالیوں کی رہائی چاہتے ہیں تاکہ اگلے مرحلے کی طرف پیش رفت ہوسکے۔ مذاکرات میں یرغمالیوں اور سیاسی قیدیوں کی فہرستوں پر غور جاری ہے تاکہ رہائی کا مناسب ماحول بنایا جا سکے۔
ادھر صدر ٹرمپ نے جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات کاروں سے تیزی سے پیش رفت کی ہدایت کی ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ اگر حماس غزہ کا کنٹرول چھوڑنے سے انکار کرے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔