data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: کے-الیکٹرک کی ملکیت سے متعلق اہم انکشافات سامنے آئے ہیں کمپنی سیکریٹری نے بورڈ رکن شان اشعری کا اہم مکتوب پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو ارسال کر دیا ہے، جس میں ملکیت اور انتظامی کنٹرول سے متعلق تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

مکتوب کے مطابق، کے-الیکٹرک کی ملکیت “کیس پاور” کے پاس ہے اور اس میں شہریار چشتی کی کوئی براہِ راست سرمایہ کاری نہیں۔ کیس پاور میں الجمومیہ گروپ، دینہم انوسمنٹ اور ایس پی وی 21 نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ایس پی وی 21 کے ڈائریکٹر کیسی میکڈونلڈ ہیں اور صرف وہی حصص فروخت کرنے کے قانونی مجاز ہیں۔ معاہدے کے مطابق، انتظامی کنٹرول میں تبدیلی پر پابندی ہے، تاہم شہریار چشتی نے الجمومیہ گروپ یا دینہم انوسمنٹ کی رضامندی کے بغیر کمپنی کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔

ذرائع کے مطابق، الجمومیہ گروپ اور دینہم انوسمنٹ نے شہریار چشتی کے اقدام کے خلاف کیمن آئی لینڈ کی گرینڈ کورٹ میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے، جو اس وقت زیرِ سماعت ہے۔

مکتوب میں مزید کہا گیا ہے کہ شہریار چشتی کے پاس KESP میں کسی بھی حصص کی فروخت کا حق یا اختیار موجود نہیں، جبکہ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ایس پی وی 21 پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوئی بھی کوشش شیئر ہولڈنگ معاہدے کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔

⚡ ماہرین کے مطابق، یہ معاملہ کے-الیکٹرک کے انتظامی ڈھانچے اور مستقبل کی پالیسیوں پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شہریار چشتی کے الیکٹرک کے مطابق

پڑھیں:

مغربی کنارے میں سفاکیت کا منظر

اسلام ٹائمز: غاصب صیہونی رژیم کی مغربی کنارے کے شمالی حصوں پر جارحیت کے دوران شدید بے رحمانہ مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دو فلسطینی شہری المنتصر بااللہ عبداللہ اور یوسف اساسہ ایک عمارت کے باہر کھڑے تھے۔ جب صیہونی فوجیوں ان کے قریب آئے تو انہوں نے ہینڈز اپ کے طور پر اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے لیکن صیہونی فوجیوں نے انتہائی قریب سے انہیں گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر ڈالا۔ یہ افسوسناک واقعہ جمعرات کے روز پیش آیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ میڈیا کے کیمروں کے سامنے ہوا ہے اور پوری دنیا نے اسے دیکھا ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں پوری دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ صیہونی فوج کے اعلی سطحی کمانڈرز نے تحقیق کا وعدہ دے کر سب کو تسلی دینے کی کوشش کی ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
جنین میں دنیا والوں نے جو منظر دیکھا وہ محض ایک افسوسناک واقعہ ہی نہیں بلکہ ایسی کھڑکی ہے جو گذشتہ کئی عشروں سے فلسطینیوں کی زندگی میں زہر گھولنے والی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ دو نہتے مردوں نے ہاتھ اوپر اٹھا رکھے ہیں اور اپنی طرف سے کوئی خطرہ نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے قمیصیں بھی اتار رکھا ہیں لیکن غاصب صیہونی فوجی انہیں میڈیا کے کیمروں کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ صیہونی فوجیوں نے انہیں حکم دیا کہ وہ عمارت میں واپس چلے جائیں۔ وہ واپس جا رہے تھے کہ ان پر فائرنگ کر دی اور اتنے قریب سے انہیں گولی ماری گئی کہ فائرنگ کرنے والوں کی نیت کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اس ویڈیو کلپ نے دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے جبکہ خود صیہونی رژیم کے اندر مختلف قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے۔
 
غاصب صیہونی رژیم کے اندرونی حلقوں نے اس سفاکانہ اقدام پر اپنے فوجیوں کو سراہا ہے اور ان کے اقدام کو قانونی قرار دے کر اسی سیاست کو دہرایا ہے جو گذشتہ طویل عرصے سے "قتل کے لیے فائر" کے عنوان سے فلسطینیوں کے خلاف اختیار کی جا چکی ہے۔ ردعمل میں اس حد تک یہ اختلاف نہ صرف اخلاقی فاصلوں کی گہرائی کو واضح کرتا ہے بلکہ کئی عشروں سے جاری غاصبانہ قبضے اور محاصرے کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ اس وقت سب کے ذہن میں یہ بنیادی سوال جنم لے چکا ہے کہ کیا ایسے ہی ایک اور سفاکانہ منظر کی تصویر کشی عالمی بے حسی کو ختم کر سکتی ہے یا دردناک مناظر کی فہرست میں محض ایک اور منظر کا اضافہ ہو جائے گا؟ جنین میں سامنے آنے والا یہ منظر سب دیکھنے والوں کے لیے ایک وارننگ ہے جو شدت پسندی معمول بن جانے اور اجتماعی ضمیر مر جانے کے خطرناک اثرات سے خبردار کر رہی ہے۔
 
خون کے پیاسے
غاصب صیہونی رژیم کی مغربی کنارے کے شمالی حصوں پر جارحیت کے دوران شدید بے رحمانہ مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دو فلسطینی شہری المنتصر بااللہ عبداللہ اور یوسف اساسہ ایک عمارت کے باہر کھڑے تھے۔ جب صیہونی فوجیوں ان کے قریب آئے تو انہوں نے ہینڈز اپ کے طور پر اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے لیکن صیہونی فوجیوں نے انتہائی قریب سے انہیں گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر ڈالا۔ یہ افسوسناک واقعہ جمعرات کے روز پیش آیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ میڈیا کے کیمروں کے سامنے ہوا ہے اور پوری دنیا نے اسے دیکھا ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں پوری دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ صیہونی فوج کے اعلی سطحی کمانڈرز نے تحقیق کا وعدہ دے کر سب کو تسلی دینے کی کوشش کی ہے۔ دائیں بازو کے انتہاپسند وزیر سیکورٹی اتمار بن غفیر نے اس واقعے میں ملوث فوجیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وہی کیا ہے جو کرنا چاہیے تھا، دہشت گردوں کو مر جانا چاہیے۔
 
شدت پسندی کا ماڈل
جنوری 2024ء میں چھ سالہ ہند رجب کی شہادت غاصب صیہونی رژیم کی سفاکیت اور بے رحمی کی ایک اور مثال ہے۔ یہ بچی ایسی حالت میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی جب اس کے اردگرد تمام اہلخانہ کی خون بھری لاشیں پڑی تھیں جو صیہونی بمباری کے نتیجے میں شہید ہو گئے تھے۔ یہ بچی لرزتی ہوئی آواز میں فون پر مدد کی درخواست کر رہی تھی۔ ہند رجب اور اس کی مدد کے لیے آنے والے امدادی کارکنوں کی لاشیں بھی بعد میں سامنے آئیں۔ جنین میں حالیہ سفاکانہ واقعے سے ملتا جلتا غزہ میں ایک اور واقعہ مارچ 2024ء میں پیش آیا تھا۔ اتفاق سے وہ واقعہ بھی میڈیا کے کیمروں کی آنکھ میں محفوظ ہو گیا تھا۔ دو نہتے فلسطینی شہری صیہونی فوجیوں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ غیر مسلح ہیں اور سرینڈر کر رہے ہیں لیکن سفاک صیہونی فوجیوں نے انہیں قریب سے فائرنگ کر کے شہید کر ڈالا۔
 
منظم نسل پرستی
جنین میں عبداللہ اور اساسہ کی شہادت مقبوضہ فلسطین کے اندر صیہونی فوج کے لیے مشکلات کا باعث نہیں بنے گی۔ غزہ کے خلاف بنجمن نیتن یاہو کی نسل پرستانہ جنگ کے دوران صیہونی فوج پر ٹارچر، زیادتی اور جان بوجھ کر فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا رکھنے کے بے تحاشہ الزامات موجود ہیں لیکن مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے ان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کینسٹ کی عرب رکن عائدہ توما سلیمان نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں کہا: "کوئی اس بات کو اہمیت نہیں دیتا اور اس کے بارے میں اظہار خیال کے لیے تیار نہیں ہے۔ دو ہفتے پہلے میں نے ٹارچر کو جرم قرار دینے کا بل پیش کرنے کی کوشش کی لیکن کابینہ کے وزرا نے میرے ساتھ شدید بدتمیز کی اور کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف حکومت کے ہاتھ مت باندھو۔"
 
اسی طرح انسانی حقوق کی ایک تنظیم "بتسلیم" میں پبلک ریلیشنز کی منیجر شای پرنس نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلیوں کی اکثریت ایسی ہے جو کئی ماہ بلکہ کئی سال تک فلسطینیوں کو قریب سے نہیں دیکھتے اور ان کے بارے میں ان کے ذہن میں صرف وہی تصویر پائی جاتی ہے جو سرکاری ذرائع ابلاغ دکھاتے ہیں جبکہ سرکاری ذرائع ابلاغ ان سے خوف اور کینہ پھیلاتے ہیں۔ یش دین ہیومن رائٹس گروپ کی رپورٹس میں بھی ایا ہے کہ 2018ء سے 2022ء کے درمیان مغربی کنارے میں غاصب صیہونی فوج کو فوجیوں کے ظالمانہ رویے کے خلاف 862 شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ زمینوں پر قبضہ، مقامی افراد کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنا اور یہودی آبادکاروں کے حملوں پر مبنی واقعات بھی کثرت سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ 258 کیسز میں سے صرف 30 فیصد کی پیروی ہوئی ے اور صرف 13 کیسز میں 29 فوجیوں کے وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں لاپتا سب انسپکٹر لال بخش منظر عام پر آگیا
  • آن لائن ٹیکسی سروس میں خاتون مسافر کو ہراساں کرنے کا انکشاف
  • کوئٹہ،ایڈز کے عالمی دن پرایڈز کنٹرول پروگرام کی صوبائی کوآرڈینیٹرڈاکٹر سحرین نوشیروانی ایڈیشنل سیکرٹری صحت ثاقب کاکڑ کو شیلڈ پیش کررہی ہیں
  • 21 لاکھ گھروں کی فراہمی کا منصوبہ ‘ملکیت خواتین کو دی گئی ،سعدیہ جاوید
  • کاروبار دوست پالیسیاں: ٹیکسٹائل برآمدات میں خوش آئند اضافہ ریکارڈ
  • چین میں روبوٹ نے 106کلو میٹر پیدل سفر کرکے نیا ریکارڈ قائم کردیا
  • 400 سال پرانا اسپینی سکے یورپ کی نیلامی میں تاریخی قیمت پر فروخت
  • 2024 میں عالمی سطح پر اسلحے کی فروخت میں اضافہ ریکارڈ، بڑی کمپنیوں نے 679 ارب ڈالر کا کاروبار کیا
  • مغربی کنارے میں سفاکیت کا منظر
  • سندھ بلڈنگ گلبرگ ٹاؤن میں نمائشی کارروائیاں غیرقانونی تعمیرات بھی جاری