بنگلہ دیش: سابق چیف جسٹس خیرالحق کی 5 مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں دائر
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
بنگلہ دیش کے سابق چیف جسٹس اے بی ایم خیرالحق نے، جو تقریباً 3 ماہ سے قید میں ہیں، 5 مختلف مقدمات میں ضمانت کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
نچلی عدالتوں سے ضمانت نہ ملنے کے بعد انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں ریلیف کے لیے درخواستیں دائر کی ہیں۔
پیر کے روز ان ضمانتی درخواستوں کو ہائی کورٹ کے جج جسٹس اے ایس ایم عبدالمبین اور جسٹس محمد صغیر حسین کی بنچ کی فہرست میں شامل کیا گیا، جنہیں کیس نمبر 1027 سے 1031 تک درج کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ
خیرالحق کی قانونی ٹیم کے مطابق، ان درخواستوں کی سماعت آئندہ اتوار کو متوقع ہے۔
ان کی وکلا کی جانب سے آج صبح عدالت میں باقاعدہ طور پر درخواستیں پیش کی گئیں، جبکہ ریاست کی نمائندگی ڈپٹی اٹارنی جنرل سلطانہ اختر روبی نے کی۔
درخواست گزاروں کے وکیل ایڈووکیٹ منایم نبی شاہین کے مطابق، پانچوں ضمانتی درخواستیں اتوار کے روز دائر کی گئیں اور اگلے دن ہی عدالت کی فہرست میں شامل کر لی گئیں۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے مشترکہ سفارتی، سیاسی اور اقتصادی اقدامات پر زور
مقدمات میں مختلف نوعیت کے الزامات شامل ہیں جن میں جترباری کے علاقے میں جولائی کی عوامی تحریک کے دوران جبو دل کے کارکن عبدالقیوم کے قتل کا مقدمہ، عدالتی فیصلوں میں جعلسازی کے 2 مقدمات، سرکاری پلاٹ کے غیرقانونی حصول کا کیس، اور نگران حکومت سے متعلق آئینی فیصلے میں مبینہ جعلسازی کا مقدمہ شامل ہے۔
خیرالحق 30 ستمبر 2010 سے 17 مئی 2011 تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے۔
انہی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اپیلیٹ ڈویژن نے 10 مئی 2011 کو تاریخی فیصلہ سنایا تھا جس کے تحت 13ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا گیا اور اس کے نتیجے میں نگراں حکومت کا نظام ختم ہوگیا۔
مزید پڑھیں:لندن میں مشیر اطلاعات پر حملہ، بنگلہ دیش کا ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
انہیں 24 جولائی 2025 کو ان کی رہائش گاہ دھانمنڈی سے گرفتار کیا گیا، یہ گرفتاری عوامی لیگ حکومت کے خاتمے کے ایک سال بعد عمل میں آئی۔
بعد ازاں انہیں عبدالقیوم قتل کیس میں باقاعدہ طور پر گرفتار ظاہر کیا گیا۔
اس کے بعد انہیں 25 اگست کو نارائن گنج میں دائر کیے گئے ایک جعلسازی کے مقدمے میں اور انسدادِ بدعنوانی کمیشن کی جانب سے سرکاری پلاٹ کے غیرقانونی حصول کے کیس میں بھی ملوث قرار دیا گیا۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کی تاریخ میں پہلی بار پاکستانی حکام کے لیے ویزا شرط ختم
مزید برآں، سپریم کورٹ کے وکیل مجاہدالاسلام شاہین نے 27 اگست 2024 کو شاہباغ تھانے میں ایک مقدمہ دائر کیا، جس میں خیرالحق پر نگران حکومت سے متعلق عدالتی فیصلے میں ہیر پھیر کا الزام لگایا گیا۔ اسی نوعیت کا ایک اور مقدمہ نارائن گنج کے بندر تھانے میں نورالاسلام مولا کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔
خیرالحق نے اس سے قبل 7 اگست کو قتل کیس میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی، جس پر 17 اگست کو عدالت نے ان کے وکلا کی درخواست پر مزید وقت دیا۔ یہ درخواست تاحال سماعت کے منتظر ہے۔
سابق چیف جسٹس کے خلاف جاری عدالتی کارروائیاں ملکی سطح پر غیرمعمولی توجہ کا باعث بنی ہوئی ہیں، کیونکہ ان مقدمات میں عدالتی بدعنوانی، سیاسی اثر و رسوخ اور حساس آئینی فیصلوں کے الزامات شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
13ویں آئینی ترمیم اپیلیٹ ڈویژن اے بی ایم خیرالحق بنگلہ دیش جعلسازی سابق چیف جسٹس عبدالقیوم قتل کیس عوامی لیگ نارائن گنج نگراں حکومت ہائیکورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 13ویں آئینی ترمیم اے بی ایم خیرالحق بنگلہ دیش سابق چیف جسٹس عبدالقیوم قتل کیس عوامی لیگ نگراں حکومت ہائیکورٹ سابق چیف جسٹس مقدمات میں بنگلہ دیش کیا گیا دائر کی کے لیے
پڑھیں:
امریکا نے 19 ممالک کے تارکین وطن کی تمام امیگریشن درخواستیں روک دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا نے 19 ممالک کے تارکینِ وطن کی تمام امیگریشن درخواستیں معطل کر دی ہیں، جن میں گرین کارڈ اور امریکی شہریت کی درخواستیں بھی شامل ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق جن ممالک پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں افغانستان، ایران، لیبیا، میانمار، صومالیہ، سوڈان، ترکمانستان، یمن اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس پابندی کا اطلاق اُن شہریوں پر بھی ہوتا ہے جن پر ٹرمپ انتظامیہ نے جون میں یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کے ذریعے امیگریشن اسٹیٹس حاصل کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔
یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کے مطابق ان ممالک کے شہریوں کے تمام کیسز کی حتمی منظوری یا مسترد کیے جانے کے فیصلے فی الحال روک دیے گئے ہیں۔ ان کیسز میں وہ درخواستیں بھی شامل ہیں جو امریکی شہریت کے آخری مراحل میں تھیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے پیش آنے والے واقعے کے بعد کیا گیا، جب ایک افغان شہری نے وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ کر کے ایک نیشنل گارڈ کو ہلاک اور دوسرے کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
واقعے کے بعد امریکا نے افغان پاسپورٹ پر سفر کرنے والے تمام افراد کے لیے ویزہ اجرا معطل کر دیا تھا اور اسائلم درخواستوں پر فیصلے بھی روک دیے گئے تھے۔