بھارت کی درآمدی پابندی سے بنگلہ دیش کی ساڑھی صنعت بحران کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
بھارت کی جانب سے بنگلہ دیشی مصنوعات کی زمینی راستے سے درآمد پر پابندی کے بعد بنگلہ دیش کی روایتی ساڑھی صنعت شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے، جبکہ مغربی بنگال کے ساڑھی ساز اداروں کے کاروبار میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
بھارت کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ نے 17 مئی 2025 کو اعلان کیا تھا کہ بنگلہ دیش سے آنے والی متعدد مصنوعات، جن میں کپاس اور جامدانی ساڑھیاں شامل ہیں، اب صرف مہاراشٹر کی نہاوا شوا بندرگاہ کے ذریعے درآمد کی جا سکیں گی۔ اس فیصلے سے نقل و حمل کے اخراجات اور ترسیل کے اوقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
بھارت کا یہ اقدام دراصل بنگلہ دیش کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر عائد پابندی کے جواب میں اٹھایا گیا تھا۔ ان تجارتی کشیدگیوں نے بنگلہ دیش کے ہاتھ سے بُنے کپڑوں کے شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جو براہِ راست اور بالواسطہ طور پر تقریباً 15 لاکھ افراد کے روزگار سے وابستہ ہے۔
سراج گنج کے ساڑھی بنانیوالے محمد راشد کے مطابق بھارت ان کی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار تھا، مگر زمینی راستہ بند ہونے کے بعد برآمدات میں تیزی سے کمی آئی ہے اور بہت سے کاریگر پیشہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
جامدانی ساڑھیاں، جو اپنی نفیس ڈیزائننگ اور اعلیٰ معیار کے باعث مشہور ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیں:
ایک ساڑھی تیار کرنے میں سینکڑوں گھنٹے لگتے ہیں اور اس کی قیمت 3 لاکھ ٹکا تک پہنچ جاتی ہے، تاہم برآمدات میں کمی نے کاریگروں کو مالی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش ہینڈلوم بورڈ کے رکن محمد میزان الرحمان نے کہا کہ درگا پوجا کے موقع پر اس سال ساڑھی بنانیوالوں کو معمول کے مطابق منافع حاصل نہیں ہوا۔
دوسری جانب بھارتی ریاست مغربی بنگال میں ساڑھیوں کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، بنگلہ دیشی ساڑھیاں بھارت کی مارکیٹ کا 30 فیصد حصہ رکھتی تھیں، لیکن پابندی کے بعد مقامی فروخت میں 25 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
شانتی پور، ندیا، ہوگلی اور مرشد آباد جیسے علاقے، جو بُنائی کے مراکز ہیں، اس تبدیلی سے سب سے زیادہ مستفید ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:
ندیا کے تاجر سنجے کرمکار کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی ساڑھیاں اپنے معیار اور پیکنگ کی وجہ سے مشہور تھیں، مگر پابندی کے بعد مقامی مصنوعات کی طلب بڑھ گئی ہے۔
فیشن ڈیزائنر سنتانو گوہا ٹھاکرتا کے مطابق پابندی کا وقت، جو تہوار کے سیزن سے عین پہلے آیا، بھارتی ٹیکسٹائل صنعت کے لیے نفع بخش ثابت ہوا۔
تاہم بھارت کے تمام تاجر اس تبدیلی سے خوش نہیں ہیں۔
بنارسی ساڑھیوں کے ہول سیلر پون یادو نے بتایا کہ بنگلہ دیش کو برآمدات رکنے سے ان کی فروخت میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پابندی کے باوجود بنگلہ دیشی منڈیوں میں بھارتی ساڑھیاں دستیاب ہیں، میرپور بناروشی پُلّی میں وارانسی، کولکاتا اور چنئی کی ساڑھیوں کی فروخت جاری ہے۔
بیناپول حکام نے متعدد کھیپیں ضبط کی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسمگلنگ نے قانونی تجارت کی جگہ لے لی ہے۔
مزید پڑھیں:
بیناپول امپورٹ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر امین الحق کے مطابق زیادہ محصولات کے باعث قانونی درآمد تقریباً بند ہو گئی ہے اور ساڑھیاں غیر قانونی راستوں سے داخل ہو رہی ہیں۔
جیشور 49 بارڈر گارڈ بنگلہ دیش بٹالین کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سیف اللہ صدیقی نے بتایا کہ سرحدی فورسز نے گزشتہ ایک سال کے دوران 10 کروڑ ٹکا مالیت کی اسمگل شدہ ملبوسات ضبط کی ہیں۔
تجارتی کشیدگی کے باعث بنگلہ دیش کی صدیوں پرانی ساڑھی بُنائی کی روایت ایک غیر یقینی مستقبل سے دوچار ہے، جبکہ مغربی بنگال کی ٹیکسٹائل صنعت کو اس صورتِ حال سے خاطر خواہ فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسمگلنگ برآمدات بنگلہ دیش بنگلہ دیش بٹالین بھارت بھارتی ساڑھیاں پابندی ٹکا ٹیکسٹائل صنعت جامدانی ساڑھیاں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ ساڑھی صنعت کپاس مغربی بنگال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسمگلنگ برا مدات بنگلہ دیش بھارت بھارتی ساڑھیاں پابندی ٹکا ٹیکسٹائل صنعت جامدانی ساڑھیاں ساڑھی کپاس مغربی بنگال بنگلہ دیش کی مغربی بنگال بنگلہ دیشی پابندی کے کے مطابق کے بعد
پڑھیں:
پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران
محمدآصف
کسی بھی قوم کا صحت کا نظام اس کی سماجی اور معاشی خوشحالی کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے ۔ صحت مند آبادی ایک پیداواری ورک فورس، سماجی استحکام اور طویل المدتی ترقی کی ضامن ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں صحت کے شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ نتیجتاً کروڑوں لوگ قابلِ علاج بیماریوں، ناقص سہولتوں اور غیر مؤثر پالیسیوں کے باعث مصائب کا شکار ہیں۔ صحت کا بحران صرف طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی بحران ہے جو تعلیم، معیشت اور انسانی ترقی پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے ۔
یہ بحران دہائیوں کی مسلسل غفلت، بدانتظامی اور کمزور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ۔ پاکستان میں حکومتوں نے ہمیشہ اپنے بجٹ کا نہایت قلیل حصہ صحت کے لیے مختص کیا۔ جب کبھی پالیسیاں بنائی بھی گئیں تو ان پر عمل درآمد کرپشن اور بیوروکریسی کی نذر ہو گیا۔ نتیجتاً سرکاری اسپتال عملے ، سازوسامان اور سہولتوں کی شدید کمی کا شکار رہے ، اور مریضوں نے مجبوری میں مہنگے نجی اسپتالوں کا رخ کیا۔ اس غفلت نے امیر و غریب کے درمیان صحت کی سہولتوں میں ایک وسیع خلیج پیدا کر دی ہے ۔ پاکستان کا صحت کا ڈھانچہ بنیادی سطح پر کمزور ہے ۔ بیشتر سرکاری اسپتالوں میں صاف پانی، جراثیم سے پاک آلات، آئی سی یو، اور ضروری ادویات تک کی سہولت میسر نہیں۔ دیہی علاقوں کی حالت تو اس سے بھی زیادہ ابتر ہے جہاں اکثر کوئی کلینک یا ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتا۔ مریض معمولی علاج کے لیے میلوں سفر کرتے ہیں، اور ایمبولینس یا زچگی کی سہولت نہ ہونے کے باعث ماؤں اور بچوں کی شرح اموات تشویشناک حد تک زیادہ ہے ۔ شہروں کے اسپتال بھی مریضوں کے ہجوم سے بھرے ہوتے ہیں، جہاں بستر نہ ملنے پر لوگ راہداریوں میں پڑے رہتے ہیں۔
اس بحران کا ایک اور سنگین پہلو طبی ماہرین کی کمی ہے ۔ باصلاحیت ڈاکٹر اور نرسیں بہتر تنخواہوں اور سہولتوں کے لیے بیرونِ ملک چلی جاتی ہیں، جس سے مقامی عملہ شدید دباؤ میں آ جاتا ہے ۔ ڈاکٹروں اور مریضوں کا تناسب عالمی ادارۂ صحت کے معیار سے کہیں کم ہے ، جبکہ نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی صورتحال کو مزید سنگین بناتی ہے ۔صحت کی سہولتوں تک غیر مساوی رسائی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ امیر طبقہ مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج کرا لیتا ہے جبکہ غریب عوام زبوں حال سرکاری اسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں۔ خواتین، بچے ، بزرگ اور معذور افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ دیہی آبادی جو ملک کی معیشت کی بنیاد ہے ، صحت اور تعلیم دونوں میدانوں میں محرومی کا شکار ہے ۔ یہ عدم مساوات غربت کو بڑھاتی اور ترقی کی رفتار کو روکتی ہے ۔صحت کے نظام کی کمزوری نے متعدی اور غیر متعدی دونوں اقسام کی بیماریوں کو بے قابو کر دیا ہے ۔ ہیپاٹائٹس، تپِ دق، ملیریا اور ڈینگی ہر سال ہزاروں جانیں لے لیتے ہیں۔ دوسری طرف شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ احتیاطی تدابیر اور آگاہی مہمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علاج کے بجائے نظام صرف ہنگامی صورتحال پر ردعمل دیتا ہے ، جس سے دیرپا اصلاح ممکن نہیں ہو پاتی۔
کووِڈ-19 کی وبا نے دنیا بھر کے صحت کے نظام کی کمزوریوں کو آشکار کر دیا۔ پاکستان میں بھی آکسیجن، وینٹی لیٹرز اور بستروں کی کمی نے ہزاروں جانیں لے لیں۔ ڈاکٹروں اور نرسوں نے جانفشانی سے کام کیا مگر حفاظتی سامان نہ ہونے کے باعث کئی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ یہ بحران واضح کر گیا کہ صحت کا نظام محض سماجی خدمت نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے ۔صحت کی غفلت کا براہِ راست اثر معیشت پر بھی پڑتا ہے ۔ بیمار آبادی غیر پیداواری بن جاتی ہے ،جس سے صنعت و زراعت متاثر ہوتے ہیں۔ علاج کے اخراجات لاکھوں خاندانوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیتے ہیں۔ لوگ علاج کے لیے قرض لیتے یا جائیداد بیچ دیتے ہیں۔ عالمی تحقیق کے مطابق صحت پر خرچ کیا گیا ہر ڈالر کئی گنا منافع دیتا ہے ، کیونکہ صحت مند آبادی ہی معاشی ترقی کی ضامن ہے ۔ مگر پالیسی ساز اسے سرمایہ کاری کے بجائے خرچ سمجھتے ہیں۔
اس بحران کی ایک بڑی جڑ کرپشن اور بدانتظامی ہے ۔ اسپتالوں کی تعمیر، ادویات کی خریداری اور عملے کی تربیت کے فنڈز اکثر خردبرد ہو جاتے ہیں۔ ناقص یا جعلی ادویات فراہم کی جاتی ہیں، جبکہ مشینری بغیر مرمت کے ناکارہ پڑی رہتی ہے ۔ عملے کی بھرتی بیوروکریسی اور سیاسی مداخلت کی نذر ہو جاتی ہے ، اور پیشہ ورانہ ماحول تباہ ہو جاتا ہے ۔ شفافیت اور احتساب کے بغیر کوئی اصلاح دیرپا نہیں ہو سکتی۔ ایک مضبوط صحت کا نظام صرف علاج پر نہیں بلکہ بیماری سے بچاؤ پر بھی توجہ دیتا ہے ۔ مگراحتیاطی صحت کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ حفاظتی ٹیکہ جات، صاف پانی کے منصوبے ، صفائی اور آگاہی مہمات غیر مؤثر ہیں، جس کے نتیجے میں پولیو، ہیضہ اور ڈینگی جیسی بیماریاں بار بار پھیلتی ہیں۔ احتیاطی تدابیر علاج سے کہیں سستی ہیں، مگر حکومتیں اس پہلو کو ترجیح نہیں دیتیں۔
پاکستان کا صحت کا نظام دہائیوں سے زوال کا شکار ہے ۔ لاکھوں لوگ معیاری علاج، ادویات اور بنیادی طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سرکاری اسپتال ناکافی فنڈنگ، تربیت یافتہ عملے کی کمی اور بڑھتی آبادی کے دباؤ کے باعث بدحال ہیں۔ دیہی علاقوں میں ڈاکٹر اور ایمبولینس کا فقدان ہے ، جبکہ شہری مراکز میں بھی جدید سہولتوں کی کمی ہے ۔ نجی اسپتالوں کی بلند فیسوں نے عام شہری کے لیے علاج تقریباً ناممکن بنا دیا ہے ۔اس صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے فوری اور جامع اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حکومت کو صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہیے اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ فنڈز شفاف انداز میں خرچ ہوں۔ دیہی علاقوں میں نئے اسپتال قائم کیے جائیں، موجودہ اسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے اور ڈاکٹروں کو مناسب تنخواہیں اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے ۔ احتیاطی صحت پر زور دیا جائے اور ویکسینیشن مہمات کو ترجیح دی جائے ۔ عوامی و نجی شعبے کے اشتراک سے ہی یہ خلا پُر کیا جا سکتا ہے ۔
صحت کا نظام محض ایک انتظامی شعبہ نہیں بلکہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پر ایک قوم کی خوشحالی اور استحکام قائم ہوتا ہے ۔ اگر بروقت اصلاحات نہ کی گئیں تو کروڑوں لوگ بلاوجہ مصائب سہتے رہیں گے اور قومی ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔ وقت آ گیا ہے کہ پالیسی ساز، سول سوسائٹی اور عالمی ادارے صحت کو ایک بنیادی انسانی حق سمجھ کر اولین ترجیح دیں۔ آج صحت پر سرمایہ کاری ہی کل کے بہتر، محفوظ اور خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے ۔