Jasarat News:
2025-10-21@00:11:24 GMT

سیاست! حکمت کا ہنر یا جہالت کا شور؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251021-03-3

 

عبید مغل

سیاست دراصل وہ فن ہے جس میں دشمن کو مسکرا کر زیر کیا جاتا ہے، اور قومی مفاد کی حفاظت بغیر تلوار چلائے کی جاتی ہے، مگر یہ فن سب کے بس کی بات نہیں۔ کچھ رہنما اپنی زبان سے قوموں کا وقار بڑھاتے ہیں، اور کچھ اپنی انا سے اسے مجروح کر دیتے ہیں۔ دنیا آج وزیراعظم پاکستان کی سیاست اور حکمت کو داد دے رہی ہے۔ برطانیہ کے گارڈین نے لکھا کہ: ’’ڈونلڈ ٹرمپ کے مغرورانہ رویّے سے دنیا کے تمام رہنما پریشان تھے، مگر اسے جس شخص نے حکمت کے ساتھ سنبھالا، وہ شہباز شریف تھے‘‘۔

یہ تعریف کسی فردِ واحد کی نہیں بلکہ پاکستان کے وقار کی تھی۔ ایک طرف ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے جو اس بات پر تلملا رہا ہے کہ پہلے تو پاکستان نے اسے میدانِ جنگ میں دھول چٹائی، اور اب سفارتی محاذ پر بھی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے، ساتھ ہی ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ ہے جسے بھارت کی طرح پاکستان کی ہر کامیابی پر غصہ آتا ہے۔ بھارتی جارحیت کے دوران اس گروہ کے یوٹیوبرز دشمن کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مشورے دیتے رہے کہ اے پاکستان دشمنو! تمہارے لیے سنہری موقع ہے، پاکستانی (یعنی پی ٹی آئی کے کارکن) اپنے افواج کے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے مجرم لیڈر نمبر 804 کے ساتھ ہے۔ آزاد کشمیر میں بے چینی کی لہر اٹھی تو ان لوگوں نے وہاں بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پاک افغان جنگ سے قبل اسد قیصر نے اپنے ’’کپتان‘‘ جیسی زبان استعمال کرتے ہوئے یہ بڑھک ماری کہ: ’’تمہارا باپ بھی افغانستان پر حملہ نہیں کرسکتا!‘‘، پھر ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے اپنی حکمت ِ  سے عالمی فورم پر مرکز ِ نگاہ بننے کا اعزاز حاصل کیا، تو انھی لوگوں نے اپنے لیڈر کے امریکا اور ٹرمپ نواز بیانات کے گٹر میں جھانکنے کے بجائے وزیراعظم ِ پاکستان پر طعن و تشنیع شروع کر دی جس سے صاف ظاہر ہوا کہ شہباز شریف کے شرم الشیخ کانفرنس میں خطاب پر تنقید کسی سیاسی اختلاف نہیں بلکہ ذاتی عناد کا مظہر تھی۔

اگر امیر ِ جماعت ِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن شہباز شریف کے اس عمل پر تنقید کریں تو یہ ان کے شایانِ شان بھی ہے اور جماعت ِ اسلامی کی اْس پْرعزم روایت کا تسلسل بھی، جس نے ہمیشہ دنیا کے سب سے بڑے شیطان کے خلاف کلمہ ٔ حق بلند کیا۔ مگر جس سیاسی گروہ کی ساری امیدیں ہی ٹرمپ سے وابستہ ہیں وہ کس منہ سے وزیراعظم پر تنقید کرسکتے ہیں جب کہ اْن کی اپنی حالت یہ ہے کہ اْن کے ’’کپتان‘‘ کے بچے امریکا میں ٹرمپ سے فریاد کر رہے تھے کہ: ڈونلڈ انکل! ہمارے ابّو کو جیل سے نکال دو!

اب اْن کے پیروکار شہباز شریف پر طنز کر رہے ہیں اور ان کی اصل پریشانی یہ ہے کہ اْنہوں نے پاکستان کے لیے سفارتی کامیابی کیوں حاصل کی! یہی تو اندھی تقلید ہے کہ جس کی وجہ سے ان کو اپنے راہنما کے دوہرے معیار نظر نہیں آتے، وہ وطن کے مفاد میں کی گئی ہر بات میں سازش ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہ ذہنی غلامی کا ایسا خول ہے جس سے وہ باہر ہی نہیں آنا چاہتے۔ انہیں وہی عمل برا لگتا ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہو، اور وہی بات اچھی لگتی ہے جو قوم کے لیے نقصان دہ ہو۔ یہ وہ طبقہ ہے جو آئین کی بالادستی، حق گوئی، سچائی اور حقائق پر نہیں بلکہ اپنے کپتان کے پرفریب نعروں کے جادو پر ایمان رکھتا ہے۔

قرآنِ کریم میں سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے: ’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز مت بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں، یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کرجائو‘‘۔

یہی وہ اصول ہے جو سیاست میں تقویٰ اور تدبر کا توازن قائم کرتا ہے۔ وزیراعظم ِ پاکستان کا عمل اس قرآنی آیت مبارکہ کے منافی معلوم نہیں ہوتا۔ انہوں نے اسی قرآنی حکمت پر عمل کیا، یعنی نہ دشمنی میں حد سے بڑھے، نہ دوستی میں خودداری بیچ ڈالی۔ اس سے قبل اقوامِ متحدہ میں وزیراعظم کا خطاب، چین سے اظہارِ تشکر، کشمیر و غزہ کے مظلوموں کی وکالت، اور جنگ بندی میں امریکا کے کردار سے متعلق تھا۔ یہ سب اس بات کی مثال ہیں کہ حکمت ہی اصل طاقت ہے اور اسی کا نام سیاست ہے، جہاں کبھی تعریف بھی تلوار سے زیادہ مؤثر ہتھیار بن جاتی ہے۔ مگر دوسری طرف کپتان کی ’’غیرت‘‘ ملاحظہ ہو۔ اب دو برس سے زیادہ گزر گئے مگر اس نے آج تک غزہ کے مظالم پر اپنے سسرال کی مذمت نہیں کی۔ پچھتر ہزار فلسطینی شہید ہو گئے، لاکھوں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو گئے، مگر عمران خان کی زبان یا ٹویٹ پر اسرائیل کے خلاف ایک لفظ نہیں آیا۔ ہاں البتہ! امریکا کے صدر کے لیے تو تعریفی جملے آتے رہے، مگر غزہ کے بچوں کے لیے نہ دکھ، نہ احتجاج، نہ دعا۔

تاریخ خاموش نہیں رہتی۔ وہ پوچھے گی، اور بار بار پوچھے گی: اے کپتان! تْو نے اسرائیل کی مذمت کیوں نہ کی؟ امیر ِ جماعت ِ اسلامی کا یہ سوال اب وقت کے ماتھے پر نقش ہو چکا ہے، اور آنے والی نسلیں عمران خان سے جواب طلب کرتی رہیں گی۔ کیونکہ سیاست صرف کھوکھلے نعروں کا نام نہیں، ذمے داری کا نام ہے۔ قوموں کی عزت جذبات سے نہیں بلکہ حکمت سے بچتی ہے۔ وزیراعظم نے دنیا کو بتایا کہ دشمن سے بھی بات کی جا سکتی ہے، وہ بھی خود جھکے بغیر اور اسے جھکائے بغیر۔ یہی سیاست کا اصل کمال ہے۔

عبید مغل.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شہباز شریف پاکستان کے نہیں بلکہ کے لیے

پڑھیں:

معروف قانون دان ایس ایم ظفر کو بچھڑے 2 برس بیت گئے

 سابق وفاقی وزیر اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر کو ہم سے بچھڑے 2 برس بیت گئے، ایس ایم ظفر کا پاکستان کی آئینی، قانونی اور سیاسی تاریخ سے گہرا رشتہ رہا، ملکی تاریخ کے کئی اہم مقدمات میں کامیابی کا سہرا آپ کے سر ہے، 2011 میں انہیں صدارتی ایوارڈ ’’نشانِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔سیاست، قانون اور انسانی حقوق کے آسمان پر روشن آفتاب بن کر چمکنے والے معروف قانون دان ایس ایم ظفر 6 دسمبر 1930 ء کو برما کے شہر رنگون میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1945ء میں شکرگڑھ سے میٹرک، گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹرمیڈیٹ جبکہ قانون کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے حاصل کی۔ایس ایم ظفر کو پنجاب یونیورسٹی کے 124 ویں کانووکیشن میں قانون میں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔سید محمد ظفر نے 1950 ء میں جسٹس سردار اقبال کے چیمبر سے وکالت کا آغاز کیا،62ء کے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی شقیں ایس ایم ظفر کی ہی کوششوں کا نتیجہ سمجھی جاتی ہیں، 1965ء سے 1969ء تک پاکستان کے وزیر قانون و انصاف کے طور پر خدمات انجام دیں۔19 ستمبر 1965 کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ایس ایم ظفر نے جنگ بندی کی قرارداد کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کرایا، ملکی تاریخ کے کئی اہم مقدمات میں کامیابی کا سہرا آپ کے سر ہے۔جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید کہتی ہیں ایس ایم ظفر ایک انتہائی قابل وکیل تھے، جنہوں نے جج کے عہدے کو بھی ٹھکرا کر وکالت کے پیشے کو ہی ترجیح دی، وکالت اور سیاست کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے ان کی کاوشیں ان مٹ ہیں۔ایس ایم ظفر کے فرزند بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا کہ والد محترم بحیثیت باپ اور بحیثیت وکیل بہترین انسان تھے، انہوں نے وکالت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ایس ایم ظفر نے 1976 میں ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان نامی ادارہ قائم کیا، ایس ایم ظفرکچھ عرصہ مسلم لیگ ق کا حصہ رہے، 2003ء سے 2012ء تک سینیٹ کے رکن رہے، 2004ء سے 2012ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں، 2014 ء میں ایس ایم ظفر نے وکالت اور سیاست دونوں سے ریٹائرمنٹ لے لی۔سابق وفاقی وزیر نے کئی تصانیف بھی تخلیق کیں جن میں ’میرے مشہور مقدمے‘، ’عدالت میں سیاست‘، ’عوام پارلیمنٹ اور اسلام‘،’تذکرے اور جائزے‘،’ڈکٹیٹر کون‘ اور خود نوشت ’ ایس ایم ظفر کی کہانی ان کی زبانی ‘ شامل ہیں۔ملکی خدمات کے اعتراف میں 2011ء میں انہیں سب سے بڑے سول صدارتی ایوارڈ’’ نشانِ امتیاز‘‘سے نوازا گیا، انسانی حقوق کے علمبردار ایس ایم ظفر 19 اکتوبر 2023ء کو 93 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔

متعلقہ مضامین

  • نوجوان ووٹرز :سیاست اور جمہوریت کی نئی طاقت
  • سلمان خان کے بیانات: مقبولیت کی سیاست یا حب الوطنی کا دکھاوا؟
  • وزیراعظم شہباز شریف کی دنیا بھر میں ہندو برادری کو دیوالی کی مبارکباد؛ خصوصی پیغام
  • وزیراعظم شہباز شریف کا دیوالی پر پیغام:ہندو برادری کو خوشیوں کی مبارکباد
  • نوجوانوں کو علم سے آراستہ کریں گے، جہالت کے اندھیروں میں نہیں چھوڑیں گے، — حافظ نعیم الرحمٰن
  • معروف قانون دان ایس ایم ظفر کو بچھڑے 2 برس بیت گئے
  • مولانا فضل الرحمن کی ’’سخت‘‘ باتیں
  • سہیل آفریدی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، بلیک میلنگ کی سیاست نہیں چلے گی، طلال چوہدری
  • سندھ طاس معاہدہ: بھارت کو حق نہیں دوسروں کے آبی تحفظ کو یرغمال بنائے: مشیر وزیراعظم