Nawaiwaqt:
2025-12-04@05:31:02 GMT

معروف قانون دان ایس ایم ظفر کو بچھڑے 2 برس بیت گئے

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

معروف قانون دان ایس ایم ظفر کو بچھڑے 2 برس بیت گئے

 سابق وفاقی وزیر اور معروف قانون دان ایس ایم ظفر کو ہم سے بچھڑے 2 برس بیت گئے، ایس ایم ظفر کا پاکستان کی آئینی، قانونی اور سیاسی تاریخ سے گہرا رشتہ رہا، ملکی تاریخ کے کئی اہم مقدمات میں کامیابی کا سہرا آپ کے سر ہے، 2011 میں انہیں صدارتی ایوارڈ ’’نشانِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔سیاست، قانون اور انسانی حقوق کے آسمان پر روشن آفتاب بن کر چمکنے والے معروف قانون دان ایس ایم ظفر 6 دسمبر 1930 ء کو برما کے شہر رنگون میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1945ء میں شکرگڑھ سے میٹرک، گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹرمیڈیٹ جبکہ قانون کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے حاصل کی۔ایس ایم ظفر کو پنجاب یونیورسٹی کے 124 ویں کانووکیشن میں قانون میں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔سید محمد ظفر نے 1950 ء میں جسٹس سردار اقبال کے چیمبر سے وکالت کا آغاز کیا،62ء کے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی شقیں ایس ایم ظفر کی ہی کوششوں کا نتیجہ سمجھی جاتی ہیں، 1965ء سے 1969ء تک پاکستان کے وزیر قانون و انصاف کے طور پر خدمات انجام دیں۔19 ستمبر 1965 کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ایس ایم ظفر نے جنگ بندی کی قرارداد کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کرایا، ملکی تاریخ کے کئی اہم مقدمات میں کامیابی کا سہرا آپ کے سر ہے۔جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید کہتی ہیں ایس ایم ظفر ایک انتہائی قابل وکیل تھے، جنہوں نے جج کے عہدے کو بھی ٹھکرا کر وکالت کے پیشے کو ہی ترجیح دی، وکالت اور سیاست کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے ان کی کاوشیں ان مٹ ہیں۔ایس ایم ظفر کے فرزند بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا کہ والد محترم بحیثیت باپ اور بحیثیت وکیل بہترین انسان تھے، انہوں نے وکالت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاست میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ایس ایم ظفر نے 1976 میں ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان نامی ادارہ قائم کیا، ایس ایم ظفرکچھ عرصہ مسلم لیگ ق کا حصہ رہے، 2003ء سے 2012ء تک سینیٹ کے رکن رہے، 2004ء سے 2012ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں، 2014 ء میں ایس ایم ظفر نے وکالت اور سیاست دونوں سے ریٹائرمنٹ لے لی۔سابق وفاقی وزیر نے کئی تصانیف بھی تخلیق کیں جن میں ’میرے مشہور مقدمے‘، ’عدالت میں سیاست‘، ’عوام پارلیمنٹ اور اسلام‘،’تذکرے اور جائزے‘،’ڈکٹیٹر کون‘ اور خود نوشت ’ ایس ایم ظفر کی کہانی ان کی زبانی ‘ شامل ہیں۔ملکی خدمات کے اعتراف میں 2011ء میں انہیں سب سے بڑے سول صدارتی ایوارڈ’’ نشانِ امتیاز‘‘سے نوازا گیا، انسانی حقوق کے علمبردار ایس ایم ظفر 19 اکتوبر 2023ء کو 93 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: قومی کمشن حقوق اقلیت سمیت 5 بل منظور، اپوزیش کا احتجاج، واک آؤٹ

اسلام آباد (وقار عباسی / رانا فرحان اسلم+ نوائے وقت رپورٹ) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی کمشن برائے حقوق اقلیت بل 2025ء سمیت دیگر پانچ بلز کی حتمی منظوری جبکہ ایک بل کو مسترد کردیا گیا۔ بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بعض  ارکان نے مخالفت کی۔ سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمان کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مذکورہ بل پیش کیا۔ اس دوران اپوزیشن نے بعض مواقع پر نعرہ بازی بھی کی۔ جس پر وزیر قانون نے اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ یہ قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہے اور اس میں چار ترامیم شامل کی گئی ہیں۔ وزیر قانون نے واضح کیا کہ یہ بل غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ بل پر بحث کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایسے قوانین لانے سے محتاط رہنا چاہیے تاکہ کسی کو غیر قانونی فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور ایوان کو بتایا جائے کہ بل کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل پارلیمان میں قانون سازی پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 18ویں ترمیم پر پورے 9ماہ کام کیا لیکن حکومت نے 27ویں ترامیم پر ایوان کو اعتماد میںنہیں لیا۔ اسی لیے یہ ترامم آج بھی متنازعہ ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ قانون سازی اس طرح ہونی چاہیے کہ اقلیتوں کی بھی حفاظت ہو، لیکن اسلام کے منافی کوئی قانون منظور نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ بل پر جامع بحث کرائی جائے تاکہ شفافیت قائم رہے۔ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بل کے کچھ سیکشنز پر اعتراضات کیے، خاص طور پر سیکشن 35 اور سیکشن 12 کی کلاز ایچ پر، اور کہا کہ ان پر عمل درآمد عدالتوں کے موجودہ اختیارات کو متاثر کر سکتا ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ عدالتوں کے اختیارات برقرار رہیں گے اور کمیشن کو سوموٹو کے اختیارات دینے یا واپس لینے کی تجاویز کو بھی قبول کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے خبردار کیا کہ ’’قادیانیوں کی چالاکیوں کا وزیر قانون کو شاید پتا نہیں، یہ ایسی چیزوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور سائیڈ بھی ہوتے ہیں، ہمیں اس قسم کے مسائل میں پڑنا ہی نہیں چاہیے، گزارش ہے یہاں یہ نیا پٹارا نہ کھولا جائے‘‘۔اپوزیشن کی طرف سے علامہ راجہ ناصر عباس اور پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے بھی بل پر تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے حکومتی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بہت ساری چیزوں پر قیامت کے روز ہماری پکڑ ہونی ہے، میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی بات کی حمایت کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آقائے نامدار  کی حرمت پر بات آئے گی تو میں مخالفت کروں گا، وزیرِ قانون سے درخواست کروں گا مہربانی کریں۔ جس کے بعد سپیکر نے ایوان کی ہدایات کے مطابق رائے شماری شروع کرائی۔ اس دوران قادر پٹیل ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ سپیکر نے ''یس'' اور ''نو'' سے رائی شماری کرائی تو ''نو'' کی آواز زیادہ گونجی۔ جس پر سپیکر نے دوسری مرتبہ ''یس نو ''کے ساتھ رائے شماری کرائی تو ''نو'' کی آواز پھر زیادہ گونجی۔ لیکن رائے شماری کے نتائج میں 160 ووٹ بل کے حق میں اور 79 مخالفت میں آئے۔ بل کی شق وار منظوری کے دوران جے یو آئی کی سیکشن 35  اور کمشن کو سوموٹو کا دیا گیا اختیار واپس لینے کی تجویز مان لی گئی۔ پی ٹی آئی نے ایوان میں ہنگامہ آرائی و نعرے بازی کی۔ سپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دیدیا۔ بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن نے کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔  اپوزیشن کی شدید نعرے بازی کے باعث سپیکر اور وزیر قانون نے ہیڈ فون لگا لیے۔ اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ اقلیتوں کے حقوق کا بل ہے، قیدی نمبر 804 کو کچھ نہیں ہوگا۔ کنونشن برائے حیاتیاتی اور زہریلے ہتھیار عمل درآمد بل 2024ء، پاکستان ادارہ برائے مینیجمنٹ سائنسز ٹیکنالوجی بل 2023، نیشنل یونیورسٹی آف سکیورٹی سائنسز اسلام آباد بل 2023، اخوت انسٹیٹیوٹ قصور بل 2023ء اور گھرکی انسٹیٹیوٹ برائے سائنس و ٹیکنالوجی بل 2025ء بھی کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین ترمیمی بل 2025ء بھی ایوان میں پیش کیا گیا، جس کی شق وار منظوری لی گئی۔  جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ 27 ویں ترمیم میں کی گئی غلطیوں کو واپس لیکر آئین کو واپس درست کریں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے جہاں ہم مشاورت سے معاملات طے کرتے ہیں۔ 27 ویں ترمیم متنازع ہوگی اور اسے آئین کے ٹائٹل پر زخم سمجھا جائے گا، اس پر کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ سیاسی لحاظ سے بہت بونے پن کا مظاہرہ کیا گیا، شعوری طور پر ایسا کیوں کیا گیا؟۔ کچھ مرعات ایسی شخصیات کو دی گئیں جس سے طبقاتی فرق پیدا ہوگیا ہے۔ ہمیں شخصیات یا ان کے منصب سے مسئلہ نہیں۔ آج پنجاب میں ڈی سیز ہاتھ مروڑ کر وزارت تعلیم سے علماء کو رجسٹرڈ کروا رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان رجیم کے تحت انسانی حقوق کی پامالیاں اور بڑھتی غربت، افغان عوام مشکلات کا شکار
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: قومی کمشن حقوق اقلیت سمیت 5 بل منظور، اپوزیش کا احتجاج، واک آؤٹ
  • پارلیمنٹ سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بل کی منظوری تاریخی قدم
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: اقلیتی حقوق بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج  اور واک آؤٹ
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، اقلیتوں کے حقوق کا کمیشن قائم کرنے کا بل منظور
  • پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیتوں کی تحریک منظور
  • آئی جی بی ایس ایف کی بریفنگ کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کی پردہ پوشی ہے
  • جانوروں کے حقوق پربات کا مطلب یہ نہیں کہ انسانی حقوق پربات نہیں کرتی، ژالے سرحدی
  • سیاست آنے جانی والی چیز ہے، انسانی جان زیادہ قیمتی ہے، شرجیل میمن