سلمان خان کے بیانات: مقبولیت کی سیاست یا حب الوطنی کا دکھاوا؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
بولی ووڈ کے معروف اداکار سلمان خان کے حالیہ بیانات نے ایک بار پھر اس رجحان کو اجاگر کیا ہے جس کے تحت بھارت کے مسلمان فنکاروں کو اپنی حب الوطنی اور ریاستی وفاداری بار بار ثابت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بلوچستان سے متعلق سلمان خان کے ریمارکس کسی بے ساختہ رائے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی دکھائی دیتے ہیں جس کا مقصدر بی جے پی کو خوش کرنا، سیاسی مقبولیت حاصل کرنا اور اپنی آنے والی فلم کے لیے ماحول سازگار بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ وہی پرانا فارمولا ہے جس کے تحت بھارت کے مسلمان فنکار اپنے وجود کا جواز پاکستان کے خلاف بیانات دے کر تلاش کرتے ہیں۔ ہر چند ماہ بعد فلمی اور کھیلوں کی دنیا سے کوئی نہ کوئی چہرہ سیاسی بیانیے میں حصہ ڈالتا ہے جو حکمران جماعت بی جے پی کے نظریے سے مطابقت رکھتا ہے۔ کبھی یہ ’حب الوطنی‘ دباؤ کے زیرِ اثر ہوتی ہے، کبھی ذاتی مفاد کے تحت، مگر انجام ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے یعنی اقتدار کو خوش کرنا اور وقتی شہرت حاصل کرنا۔
سلمان خان کے بیانات اسی سوچے سمجھے سلسلے کا تسلسل ہیں، جو اس بڑے المیے کی عکاسی کرتے ہیں جہاں بھارت کے مسلمان اداکار، کھلاڑی اور فنکار اپنی ریاستی وفاداری کے ثبوت میں اپنی شناخت کو قربان کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ وہ بوجھ ہے جو ان پر قیامِ پاکستان کے بعد سے لاد دیا گیا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کے تاریخی الفاظ آج بھی صادق آتے ہیں کہ بھارت میں رہنے والے مسلمان ہمیشہ اپنی وفاداری ثابت کرنے پر مجبور کیے جائیں گے اور یہ کام روزانہ کی بنیاد پر اور ہر موقع پر ہوگا۔
عرفان پٹھان، جاوید اختر اور اب سلمان خان، ان سب کی مثالیں واضح کرتی ہیں کہ یہ بیانات جذباتی ردِعمل نہیں بلکہ خوف، مقبولیت اور دباؤ کے سیاسی کھیل کا حصہ ہیں۔ پیغام صاف ہے کہ اپنی حد میں رہو، گاؤ، ناچو، اداکاری کرو مگر اکثریت کے بیانیے پر سوال مت اٹھاؤ۔
واضح رہے کہ بلوچستان پاکستان ہے اور پاکستان کسی کو بھی اپنے داخلی معاملات یا قومی وقار پر غلط بیانی کی اجازت نہیں دے گا۔ فنکار کا اصل کام حقیقت بیان کرنا ہے، نہ کہ جھوٹ بیچنا۔ خوشامد سے حاصل ہونے والی مقبولیت عارضی ہے، مگر سچائی اور غیرت سے کمائی گئی عزت نسلوں تک قائم رہتی ہے۔ اگلی بار اگر زبان پھسلے، تو جواب دلیل، وقار اور پاکستان کی غیر متزلزل خودمختاری کے ساتھ دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سلمان خان کے
پڑھیں:
مولانا فضل الرحمن کی ’’سخت‘‘ باتیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملک اس وقت ایک ایسے مشکل دور سے گزر رہا ہے جہاں حکمرانوں کے بیانات اور حقیقت کی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکمراں ہر روز معیشت کی بحالی، استحکام اور ترقی کے دعوے کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترس گیا ہے۔ مہنگائی نے زندگی اجیرن کر دی ہے، تنخواہیں کم اور اخراجات بے قابو ہیں۔ عوام کے چہروں پر مایوسی، گھروں میں بے بسی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ ’’ملک کی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے‘‘ دراصل ان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے جو عوام ہر روز برداشت کر رہے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں ایک بار پھر ملک میں احتجاج اور مزاحمت کی بات ہو رہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں منعقدہ مفتی محمود کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن نے پارلیمنٹ کو ’’بے معنی‘‘ اور ’’لونڈی‘‘ قرار دیتے ہوئے کارکنان کو اسلام آباد مارچ کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلے اب ایوانوں میں نہیں بلکہ عوامی میدانوں میں ہوں گے۔ یہ ایک سخت پیغام ہے جو بظاہر نظام کے خلاف مزاحمت کا عندیہ دیتا ہے، لیکن اس کے پیچھے سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ تحریک ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے یا یہ محض وقتی دباؤ کی سیاست ہے، جیسا کہ ماضی میں کئی بار دیکھنے میں آ چکا ہے؟ مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کے ایک پرانے اور زیرک کھلاڑی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اقتدار کے کھیل کے سب سے تجربہ کار کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ کبھی وہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے قائد بن کر سامنے آتے ہیں، کبھی پیپلز پارٹی کے اتحادی بن جاتے ہیں، تو کبھی مسلم لیگ (ن) کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ 2018 کے بعد جب انہوں نے پی ڈی ایم کی قیادت سنبھالی تو ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ اختیار کیا، لیکن جلد ہی سیاسی فضا بدلنے پر ان کے لہجے کی شدت بھی کم ہو گئی۔ یہی وہ طرزِ سیاست ہے جس نے ان کے ناقدین کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ مولانا کی مزاحمت وقتی ہوتی ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہو جاتے ہیں، تو ساری گھن گرج دب جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی بڑی عوامی تحریک حقیقی تبدیلی نہیں لا سکی۔ ہر بار عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں، نعرے لگتے ہیں، جلسے جلوس ہوتے ہیں، لیکن انجام وہی رہتا ہے، نظام اپنی جگہ برقرار اور عوام اپنی حالت پر بدستور بے بس و مجبور ہی رہتے ہیں۔ مولانا کے والد، مفتی محمود، پاکستانی سیاست کے اْن رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے نسبتاً اصولوں کی سیاست کی۔ 1977 کے انتخابات میں جب دھاندلی کے خلاف تحریک چلی تو انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ اقتدار سے زیادہ اہم دیانت اور شفافیت ہے۔ مگر افسوس کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست میں وہ اخلاقی ٹھیرائو باقی نہیں رہا۔ ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) برصغیر کی قدیم دینی و سیاسی جماعت ہے، مگر اس کی سیاست میں وہ اصولی جرأت اب کمزور پڑ چکی ہے جو کبھی مفتی محمود کی شناخت تھی۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت ملک میں ایک ’’ہائیبرڈ نظام‘‘ رائج ہے، بظاہر جمہوریت ہے مگر فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس پر مولانا فضل الرحمن نے انگلی رکھی ہے۔ پارلیمنٹ بے وقعت ہو چکی ہے، منتخب نمائندے محض تماشائی بن گئے ہیں اور عوامی رائے کو طاقت کے غیر مرئی مراکز میں دبایا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر آئینی ادارے کمزور ہو گئے ہیں تو ان کو مضبوط کرنے کا راستہ کیا ہے؟ یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب صرف یہی ہے کہ اصولی مزاحمت کی جائے اور لوگوں کے غصے اور رد عمل کو غلط موڑ نہ دیا جائے۔ حقیقی مزاحمت کا مطلب صرف وقتی احتجاج نہیں ہوتا؛ یہ ایک منظم، اصولی اور عوامی شعور پر مبنی تحریک ہوتی ہے۔ اس کے لیے اخلاقی جرأت، شفاف قیادت اور واضح اہداف کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب قیادت خود تضادات کا شکار ہو، تو مزاحمت کا خواب بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عوام بجلی کے بلوں، مہنگائی، بے روزگاری اور ناانصافی سے تنگ آ چکے ہیں۔ ایسے میں اگر حقیقی تبدیلی لانی ہے تو یہ ہائبرڈ احتجاج اور نعروں سے نہیں، بلکہ حقیقی مزاحمت سے ممکن ہے۔ ہائیبرڈ نظام اب مزید نہیں چل سکتا یہ ایک حقیقت ہے اور جس طرح کر پرتشدد فضا قائم کی جارہی اور اچانک پورے ملک میں افراتفریح پیدا ہوگئی یا کردی گئی ہے ایسے میں لگتا تو یہی کہ پھر کچھ بدلنے والا ہے لیکن یہ تبدیلی کتنی حقیقی ہوگی یہ ہم سب جانتے ہیں اس وقت پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام سے جڑی ہو، جس کے ہاتھ میں اصول ہوں، مفادات نہیں ہوں۔ اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ وقتی سیاسی سودے بازی سے نکل کر ایک ایسی تحریک کھڑی کی جائے جو وقتی اقتدار کے لیے نہیں، اصولوں کے لیے ہو۔ ایسی تحریک جو عام آدمی کے مفاد، انصاف، شفافیت اور خودمختار پارلیمنٹ کے قیام کے لیے ہو۔ قوم کو اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے، وہ جو کسی طاقت کے اشاروں پر نہ چلیں بلکہ عوام کے دکھوں کو سمجھیں۔ ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے صرف نعروں کی نہیں، دیانت دار پالیسیوں اور جرأت مند فیصلوں کی ضرورت ہے۔ حقیقی تبدیلی وہی ہے جو عوام کے ہاتھوں، شفاف انتخابات کے ذریعے، اصولی قیادت کے تحت آئے، ورنہ سب کچھ پہلے جیسا رہے گا، اور حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔